بھٹکی ہوئی مارکسسٹ بھیڑوں کے نام/زاہد سرفراز

وہ جس کا شور بہت سنا تھا زمانے میں کھودا تو مَرا ہوا محض ایک چوہا نکلا جو کہیں دہائیاں پہلے زمین میں دفن ہو چکا تھا۔
مارکس ابلیس کی مجلس شورہ کا سب سے ہونہار شاگرد تھا جو دھوکہ دہی اور فریب کاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔
عام طور پر مارکس ازم کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہے نہیں، یہ سرمایہ دارنہ نظام کی ہی ایک خوفناک اور بد ترین شکل ہے جو عالمی سامراج کو زیادہ مضبوطی سے قائم کرنے کی ایک تحریک تھی، جس نے لالی پاپ کے طور پر سامنے تو کمیونزم کو رکھا مگر کمیونزم لانا مقصود تھا ہی نہیں، بلکہ کمیونزم کا جھانسہ دے کر ایک عالمی سوشلسٹ سامراج کا قیام عمل میں لایا جانا تھا جس نے تمام انسانوں کو مجموعی طور پر اپنا غلام بنا لینا تھا۔ ذاتی ملکیت کا خاتمہ دراصل تمام انسانی ملکیتوں کو ایک جگہ جمع کر کے  ایک مطلق العنان قوت کے ہاتھ دینا تھا ،جس کو دنیا میں چیلنج کرنے والی کوئی دوسری قوت باقی نہ رہتی اور یوں تمام انسانیت کو مستقل طور پر ہمیشہ کی غلامی میں دے دیا جاتا۔۔ لیکن یہ خوفناک تحریک ایک پوری نسل انسانی کو مکمل طور پر ضائع کرنے کے بعد بالآخر ردِ انقلاب کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچی مگر اس انسانیت سوز تحریک کو آج بھی دنیا کے واحد حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو علمی اعتبار سے درست بات نہیں ہے۔

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مارکس نے جس کلاس اسٹرگل کو اپنی مشق سخن کا نشانہ بنایا اسے جدلیاتی کشمکش کا نام دیا ،جس کے تحت تاریخ نے کہیں آگے بڑھتے ہی چلے جانا تھا مگر اپنی نوعیت میں یہ بات ہی درست نہیں ہے، دراصل سماج کے اصل بگاڑ کا سبب ہی خود یہی کلاس اسٹرگل ہے جس کے نتیجے میں معاشرتی ظلم، جبر اور ناانصافی جنم لیتی ہے معاشرے میں انتشار اور بے یقینی پیدا ہو جاتی ہے ہر روز آپکو ایک نئی امید دلائی جاتی ہے کہ آپکا آنے والا کل آج سے بہتر ہو گا مگر یہ سب فریب ہے ،اسی سراب کا پیچھا کرتے کرتے انسانیت آج یہاں تک پہنچی ہے ،جو سچ تو یہ ہے کہ  کہیں نہیں پہنچی۔۔ کیونکہ برابری کے اصول پر قائم جدلیاتی کشمکش مسلسل جاری ہے ،جس سے تعمیر نہیں تخریب ہو رہی ہے۔ انسان انسان کی گھات میں ہے اور اسے کہیں جائے  پناہ نہیں، جبکہ اس جدلیاتی کشمکش کو ختم کر کے  سماج کو واپس اپنی اصل حالت یعنی حالت ِ سکون پر قائم کرنے میں ہی انسانی سماج کی بقاء ہے۔ تبھی انسانی سماج ترقی کرے گا تبھی دنیا میں امن و سکون قائم ہو گا تبھی انسانیت کو چین میسر آئے گا۔

اس کائنات میں کچھ بھی مساوی یا برابر نہیں ہوتا اور جب آپ دو غیر مساوی چیزوں کو باہم برابر کرنے کی سعیء  لا حاصل میں لگ جاتے ہیں تو سماج میں کشمکش اور انتشار پیدا ہو جاتا ہے، جس سے معاشرتی نظم درہم برہم ہو جاتا ہے اور اس سے ظلم جنم لیتا ہے ،ہم جب کسی فطری نظام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں ایک توازن اور اشتراک نظر آتا ہے، جیسے آپکے جسم کے مختلف نظام ہیں مگر کوئی بھی باہم برابر یا ایک جیسا نہیں ہے نہ دل پھیپھڑے کی مانند ہے اور نہ گردہ جگر کے مساوی ،مگر سب اشتراک اور توازن میں باہم مل کر کام کرتے ہیں، تو مجموعی انسانی جسم توازن میں چلتا رہتا ہے،لیکن جیسے ہی آپ کچھ الٹا سیدھا کھا لیتے ہیں تو اسکا توازن بگڑ جاتا ہے، پورے جسمانی نظم کی جسم  کی ایک نظم کے ساتھ کشمکش اور جدوجہد شروع ہو جاتی ہے اور آپ شدید تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب آپ جسم کے اس ایک مسئلے کو حل کر لیتے ہیں جس سے آپ کو شدید تکلیف ہوتی ہے تو آپ کا جسم سکون کی حالت میں واپس آ جاتا ہے اور پھر پہلے کی طرح پورا جسم مل کر توازن میں کام کرنے لگتا ہے اس سے یہ ثابت ہُوا کہ مارکس ازم ایک سائنسی نہیں بلکہ انتہائی غیر فطری اور غیر سائنسی فریب پر مبنی جھوٹی طوطا کہانی کا نام ہے جو فیری ٹیل کے طور پر بچوں کے دل بہلانے کے کام آتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ ایک ایسی فکر کا نام ہے جو مرض کو ہی مرض کی دوا قرار دیتی ہے یا تو اس کا لکھنے والا بہت بڑا گدھا تھا یا پھر انتہائی چالاک اور مکار محض فریب دینے والا ایک شیطان تھا،، اسکے علاوہ کچھ نہیں تھا جو انسانیت کے ساتھ انسانیت کے نام پر تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کر گیا مگر آج تک اسے کوئی پکڑ نہ سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر مارکس ازم سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف محاذ آرائی میں واقعی سنجیدہ تھا تو اسے تو کسی اسٹرگل کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ جس نظام کی مخالفت پر وہ کمر بستہ نظر آتا ہے وہ نظام سرمائے کی مارکیٹ کے بل بوتے پر چلتا ہے جہاں ہم اپنی بچتیں لے جا کر جمع کرتے ہیں تو سرمایہ کار وہی ہمارا پیسہ ہمیں واپس سود پر دے کر خود مفت میں امیر تر بنتا چلا جاتا ہے اور پورے معاشی نظام کو مکمل کنٹرول میں لے کر انسانوں کا ہر طرح سے استحصال کرتا ہے مگر ہم کوہلو کے بیل کی طرح اسکی غلامی میں جتے رہتے ہیں، اس نظام کو مات دینے کے لیے نہ تو تلوار کی ضرورت ہے نہ ہی توپ کی ۔۔آپ اپنی تمام بچتوں کو اس مارکیٹ میں جمع نہ کروائیں ،اپنے پاس گھر پر جمع رکھیں ،سب بینکوں سے ایک ساتھ اپنی تمام جمع شدہ رقوم واپس اٹھا لیں، چند دن میں یہ نظام دھڑم  سے زمین بوس ہو جائے گا۔ یہاں نہ تو کسی تاریخی جبر کی جھوٹی کہانی کی ضرورت ہے اور نہ ہی عوام میں فریب سہنے کی سکت، اور نہ اب اس فریب کی مزید نمائش چاہیے، اب وہی بیان ہو گا جو سچ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply