• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا۔۔محمد منیب خان

جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا۔۔محمد منیب خان

چند سال یا چند دھائیاں قبل شہروں اور دیہاتوں میں تماشا دکھانے والے بکثرت مل جاتے تھے۔ کوئی ریچھ کا تماشا دکھاتا تھا کوئی بندر کا تماشا، کوئی سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھاتا تھا اور کہیں میلوں ٹھیلوں میں پتلی تماشا ہوتا تھا۔ بحرحال یہ تماشے ہماری تہذیب کا حصہ تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئے ہیں۔ شاید اب بھی کہیں کہیں دیہاتوں میں تماشے دکھائے جاتے ہوں لیکن کم از کم شہروں کی حد تک اب تو کوئی مداری سڑک پہ بندر لیے بھی خال خال ہی نظر آتا ہے کجا کہ کہیں بندر کا تماشا نظر آئے۔البتہ ملک میں ایک سیاسی تماشا ہے جو 72 سال سے چلا آ رہا ہے۔

تماشا کوئی بھی ہو اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دیکھنے والوں کو چند لمحوں کے لیے اپنے ماحول سے بے خبر کر دیتا ہے۔ یہچانتے ہوئے بھی کہ مداری کے کہنے پہ بندر چشمہ لگائے گا، چل کے اور گھوم کے دکھائے گا، دیکھنے والوں کے لیے پُر لطف منظرہوتا ہے۔ ایسے ہی یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی تماشے میں پتلیاں کون ہیں اور ان کو نچانے والی انگلیاں کس کی ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم سب اس میںمحوِ تماشائے لب بامکے مصداق ہیں۔  72برس سے نہ انگلیاں بدلی ہیں اور نہ پتلیاں البتہ بہت سوں کی آنکھوں کی پتلیاں بہت سے خواب لیے بے نور چکی ہیں۔ موہوم سی امید تو اکثر پیدا ہوتی رہی ہے۔ لیکن امید کے اس چراغ سے کوئی سورج طلوع نہیں ہوا۔ اس ملک کی چار نسلیں جمہوریت کے خواب کی تکمیل کو آنکھوں میں بسائے ابدی نیند سو چکی ہیں۔

پُر امید انسان کو ہر لمحہ ہی فیصلہ کُن نظر آتا ہے۔ ملکی تاریخ میں اتنے فیصلہ کُن اور تاریخ ساز لمحات آ چکے ہیں کہ اب یہ لمحات بھی کثرت کیوجہ سے اپنا اثر کھو چکے ہیں۔ جس طرح بری خبریں سن سن کر کان پتھر ہو جاتے ہیں اور کچھ سنائی نہیں دیتا ایسےہی ایک منظر پہ نظر جمائے رکھنے سے اور اس منظر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے آنکھ پتھر ہو جاتی ہے۔ وہ منظر ساکت نہیں ہوتا البتہ آنکھ ساکت ہو جاتی ہے۔ امید کی آنکھوں کی پتلیاں پتھر ہو چکی ہیں۔ اس پتھر آنکھوں میں یکدم کسی نے انگلی ماری ہے۔منظر نامہ اب ساکت نہیں رہا۔ آنکھ اب حرکت کو دیکھ سکتی ہے۔

اس حرکت کرتے ہوئے منظر نامے نے امید کے چراغوں کی لو بڑھا دی ہے۔ صبح کاذب کی سی روشنی کا گمان ہوتا ہے۔ گو کہ سورج کاطلوع ہونا اب بھی واضح نہیں البتہ امید کے چراغوں میں تیل ڈالا جا چکا ہے۔ کسی کو ماضی کا طعنہ ملے گا کسی کو حال کا، کوئی اپنے بڑبولے پن کیوجہ سے زیر عتاب آئے گا کوئی خاموشی کیوجہ سے اور کسی کا بولنا بے وقت کی راگنی محسوس ہوگا۔ لیکن یہ سب تماشے کا حصہ ہے۔ تماشا جب ختم ہوتا ہے تو سب پتلیاں ایک ساتھ جمع ہوتی ہیں۔ پتلیاں چلانے والے بھی سٹیج پہ آتے ہیں۔ لہذاکچھ بھی مخفی نہیں رہتا۔ سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے۔ یہاں تو کافی کچھ پہلے سے عیاں ہے،  نچانے والی انگلیاں بھی اور ناچنے والی پتلیاں بھی۔ البتہ جب پتلیاں دیومالائی کرداروں کی طرح خود سے  بولنا شروع کر دیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں انگلیاں پرانی پتلیوں کی جگہ نئے کردار  تخلیق کرتی ہیں۔ نئے کرداروں کی شمولیت سے دیکھنے والوں کی دلچسپی بھی برقرار رہتی ہے۔ البتہ لازمی نہیں کہ ہر نیا کردار  پذیرائی حاصل کر پائے۔ یہی انجام ہے پتلی تماشے کا۔

البتہ کسی  تماشے کا اختتام  مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ منشا یاد کے افسانےتماشاکی طرح کا انجام بھی بعید از قیاس نہیں۔تماشامیں جمورا، اس کا بڑا بھائی اور ابا دریا پار کر کے دوسری بستی میں جانے کی کوشش میں ایک ایسی بستی میں پہچاتے ہیں جو بونوں کی بستی ہے۔ اس بستی میں سب چھوٹے بچے ہوتے ہیں البتہ ان کے چہرے پہ جھریاں ہوتی ہیں اور بال سفید ہوتےہیں۔ بونے کہتے ہیں کہ اگر ہماری بستی میں آ ہی گئے تو اب تماشا دکھاؤ۔ ابا جمورے کے ساتھ تماشا دکھاتا ہے ایک آئٹم، دوسریپھر تیسری۔۔ کسی بھی تماشے پہ داد نہیں ملتی آخر میں وہ آئٹم دیکھاتا ہے جس میں جمورے کے گلے پہ چھری پھیر کر اس کودوبارہ زندہ کرنا ہوتا ہے۔ ابا جمورے کے گلے پہ چھری پھیرتا ہے یکدم مجمع تالیاں بجانے اور کھسکنے لگتا ہے۔ ابا جمورے کو کہتاہے چل اٹھ سب جاچکے، پیسے اکٹھے کر۔ لیکن جوں ہی ابا چادر اٹھاتا ہے جمورے کا سر اصل میں  کٹا ہوتا ہے۔ بھلا افسانے کےتماشےکا اصل تماشوں سے کیا تعلق؟ البتہ افتخار عارف کے اشعار جتنی بار بھی دہرا لیں ہر بار لطف دیتے ہیں۔

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

چراغ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو

ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علی نور

بنام مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا

یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات

سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا

دل نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا

Advertisements
julia rana solicitors

جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)