ناول “میرے ہونے میں کیا برائی ہے”میں خُنثٰی کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ/اظہر حسین

ادب اور نفسیات ایک دوسرےسےمختلف علم ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتےہیں۔ادب انسان اور انسانی زندگی کے اُتھارچڑھاؤ سے عبارت ہے جبکہ نفسیات انسان کے کردار،رُوح اور ذہن کا مطالعہ ماحول اور سماج کے تناظر میں کرتا ہے۔لہذا جب ایک ناول نگارناول تخلیق کرتاہے تو شعوری اورغیرشعوری پر اس کےہرایک سطراور ہرایک مکالمے کے پیچھے نفسیاتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔یہ نفسیاتی عوامل مَحبت،نفرت،اوڈی پس کمپلیکس،نرگسیت،نمائشیت،انا،ضِد،اِنتقام، احساسِ کمتری و برتری وغیرہ پرمشتمل ہوتےہیں۔ناول نگارجب ان عوامل سےگزرتےہوئےناول تخلیق کرتا ہے تواس کے کرداروں کی حرکات وسکنات،گفتگو،افعال،شخصیت،کرداراورحتٰی کہ خاموشی سےان کےنفسیاتی کیفیات سامنےآتےہیں۔ نفسیات جہاں ان کرداروں کے انفرادی افعال و اعمال کوسامنےلاتی ہےوہاں ان کے ذریعے پورےمعاشرے کی اجتماعی نفسیات کو بھی نشان زد کرتی ہے۔رخشندہ شہناز علمِ نفسیات کے حوالے سےرقم طراز ہیں:
“نفسیات(Psychology)دویونانی الفاظ psycho اورlogus کامجموعہ ہے۔ psychoکامطلب روح،ذہن، ذات اورlogus کا مطلب ہے علم یعنی جاننا،گویا نفسیات کا مطلب روح کا علم ،ذہن کا علم اور ذات کا علم ہے۔”(۱)

یعنی نفسیات انسانی محسوساتی نظام اور روح کےمتعلقات کاوہ علم ہےجوانسان کےکرداراورذہن کا مطالعہ اس کےماحول کے پسِ منظرمیں کرتا ہے۔ نفسیات کےڈانڈے زندگی کے ساتھ ہمیشہ مربوط رہی ہے۔یونانی فلسفیوں کا نظریہ تھاکہ انسان کی تخلیق روح اور جسم کےآمیزش سے ہوئی ہے،مگر تخلیق کے اس مرحلے میں روح کو جسم پر فوقیت دی گئی ہے۔اس فوقیت کی وجہ یہ ہے کہ روح انسانی جسم ،ذہن اوراس کے حرکات کو کنٹرول کرتی ہے ۔روح انسانی جسم اور ذہن سے جو کام لینا چاہتی ہے ،لیتی ہے۔اس کی اجازت کے بغیر جسم اور ذہن بذاتِ خود کچھ نہیں کرسکتا۔جب انسانی روح جسم سے علیحدہ ہوجاتی ہے تو جسم کے حرکت و عمل کا سلسلہ بندہوجاتاہےاورکسی کام کے لائق نہیں رہتا۔اس سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان ہر عمل روح کے حُکم پر کرتا ہے ۔رینو بہل نے ناول کے مرکزی کردارشیکھر/شیکھا کے ذریعے جسم و روح اور ظاہر و باطن کی اصلیت دِکھائی ہےکہ انسان کی اصلی پہچان جسم یا ظاہری ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ روح یا باطن ہے۔وہ روح کو جسم پر فوقیت دیتی ہے۔دنیا والے انسان کو ظاہری پیمانوں پر تولتے ہیں حالانکہ انسان کی اصل پہچان اس کی روح ہے۔ناول میں شیکھا کہتی ہے:
“آج شیکھاوجودمیں آئی تھی اورمیں جانتی تھی کہ ایک روزشیکھردھیرےدھیرےختم ہوجائےگااورصرف شیکھا کاوجود ہی زندہ رہے گا کیوں کہ شیکھا ہی اس جسم کی پہچان ہے۔جسم تو فانی ہے روح امر ہے۔جسم مرد اور روح عورت کی۔اس روح کو زندہ رہنا ہے۔”(۲)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دوجنسوں(مرد اور عورت )کےجوڑےکی شکل میں پیدا کیا ہے۔مگرتخلیق کے اس کُٹھن مرحلےمیں ایک ایسی جنس بھی پیدا ہوجاتی ہے جس کاجسم مرد کا تو روح عورت کی ہوتی ہے یا جسم عورت کی تو روح مرد کا ہوتا ہے۔ شعور کی آنکھ کھولتےہی اس کے جسم و روح کے مابین ایک تشویش اور کشمکش شروع ہوجاتاہے جس کا خاتمہ اس کے موت پر ہوتا ہے۔ڈاکٹررینوبہل کاناول”میرےہونےمیں کیابرائی ہے”ایک نفسیاتی ناول ہے۔اردو ناول کی روایت میں یہ ناول اپنے موضوع کے لحاظ سے اچھوتااور منفردہے۔ناول کا مرکزی کردارمتوسط ہندو گھرانےسے تعلق رکھنے والا”شیکھر”ہے۔شیکھر پیدائشی خُنثٰی(جسے عرفِ عام میں مُخنّث، ہیجڑا،چِھکّا، اُردھ ناری ،تیسری جنس، خواجہ سرااور کُھسرا وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔)ہوتا ہے۔ جب سات آٹھ سال کی عمر میں اس کےجسم و روح اور ظاہری حرکات وسکنات میں خُنثٰی کے خدوخال واضح ہوناشروع ہوجاتے ہیں، اسکول کےپروگرام میں اس کےناچ گانےاورخُنثٰی افرادکےساتھ اُٹھنےبیٹھنےکی بدولت باپ اُسےسبھی رشتوں سےعاق کرکےگھر سےنکال دیتا ہے۔شیکھراپنی خُنثٰی دوست”ستارہ”کےتوسط سےخُنثٰی طبقےکےڈیرےپرچلاجاتاہے۔وہاں” گُرو”اس کا نام”شیکھا “رکھتاہے۔گُروکی خُنثٰی طبقےمیں سواگت کےبعدشیکھاخُنثٰی کی زندگی اپناکر مشکلات،مصائب اور آزمائشوں میں زندگی گزارتی ہوئی سماج اور خُنثٰی طبقےکواس دلدل سے نکالنےکی جدوجہد شروع کرتی ہےجس کی کامیابی پرناول کا اختتام ہوتاہے۔ڈاکٹر رینو بہل نےشیکھر/شیکھا کی انفرادی اوراِجتماعی زندگی،شعور کی آنکھ کھولتے ہی زندگی میں پیش آنےوالےمشکلات،نفسیاتی اُلجھنوں، جذبات و احساسات،معاشی ضروریات،جنسیاتی مسائل،جسم و رُوح کے مابین کشمکش، اُن کے ساتھ سماج میں رُونما ہونے والے دردناک رو یّوں اورخُنثٰی طبقےکے ہر غمی خوشی کو ناول کا موضوع بنایا ہے۔

خُنثٰی کےنفسیات کاجائزہ لیتے ہوئے سب سےپہلا نفسیاتی عنصر سگمنڈفرائڈکااوڈی پس کمپلیکس سامنےآتاہے۔سگمنڈ فرائڈکےاوڈی پس کملیکس کے مطابق بچپن میں بچہ جب اپنی ماں کا دودھ پیتاہےتووہ ماں کی محبت کو صرف اپنےلیےمخصوص سمجھتا ہے۔مگرجب اسےپتاچلتاہےکہ ماں اس کےباپ کوبھی چاہتی ہے تو وہ باپ کو رقیب سمجھ کراس سےجلنےلگتاہےاوریہ رقابت اس وقت مزیدشدت اختیارکرجاتی ہےجب شرارت کرنےپرباپ اسےدھمکی دیتاہےکہ اگرتُواس شرارت سےبازنہ آیاتوتیراعضو تناسل کاٹ دوں گا۔جب وہ گھرمیں اتفاقاً اپنی ماں یا دوسری عورتوں کو عُریاں حالت میں دیکھتاہےتواس کو باپ کی دھمکی یادآجاتی ہے اور سوچتاہے کہ شرارت کرنےپران عورتوں کو بھی عضوتناسل سے محروم ہوناپڑاتھا اس لیےوہ باپ سے متعلق یہ رائےقائم کرتاہےکہ اس نےمیری ماں کومجھ سے چھین ہی لیاتھا اور اب میرےعضو لینےکےدرپےہے۔فرائڈ نےاسی کیفیت کواوڈی پس کمپلیکس کانام دیاہے۔اس کےمتعلق پرفیسر ساجدہ زیدی رقم طراز ہیں:
“فرائڈ نےاوڈی پس کمپلیکس کی اصطلاح دراصل لڑکوں کی ماں سے محبت اور وابستگی اور باپ سے مخاصمت اور عداوت کےلئے استعمال کی ہےاور لڑکیوں کی باپ سے وابستگی و محبت اور ماں سے عداوت و رشک کو Complex Electra کا نام دیا ہے۔”(۳)

ناول کامرکزی کردار”شیکھر”اوڈی پس کمپلیکس کےجذبےسےمغلوب دکھائی دیتاہے۔بچپن سےلےکرخُنثٰی کی زندگی گزارنےتک وہ باپ کے بجائے ماں سے زیادہ محبت کرتاہےاورماں بھی اس کو زیادہ چاہتی ہے۔جبکہ دوسری طرف باپ اسے ماں کی طرح نہیں چاہتا۔جب شیکھر بڑی بہن رُکمنی دیدی کےتین سال بعد بڑی مَنّتوں مرادوں سے پیداہوتاہےتوگھر میں جشن کا سماں ہوتاہے ۔ بچپن کےابتدائی چار سال امّاں کی محبت اور لاڈ میں گزارتاہے مگر چھوٹےبھائی للّت کی پیدائش پر اس کا وہ مقام کم ہوجاتاہے۔وہ اپنی ماں سے اپنی محبت کے جذبےسےمتعلق ناول میں کہتاہے:
“رات کو چُپکےسےامّاں کےبسترپرجاتااوراُسے(چھوٹےبھائی للّت)پیچھےکرکےخودامّاں کےساتھ لپٹ کر سوجاتا۔ امّاں نیند میں بھی میری لمس کو پہچان جاتی اور بند آنکھوں میں ہی للّت اور دوسری طرف مجھےلپٹاکراپنی بانہوں کے حصارمیں سُلاتی۔امّاں کی بانہوں میں آتےہی میں پریوں کےدیس میں پہنچ جاتا۔”(۴)

اس اقتباس سے شیکھرکا ماں کے ساتھ گہری محبت سامنےآتاہے۔شیکھرنے ناول میں ابّا کےساتھ اپنی اٹھوٹ محبت سے متعلق کوئی بات نہیں کہی ہے۔بلکہ جب اس کے خُنثٰی ہونے کے بارےمیں انکشافات بڑھتےرہتےہیں تو امّاں اس کا حل ڈھونڈنی کی کوشش کرتی ہے جبکہ ابّا شیکھرسےبات کرنا چھوڑدیتےہیں۔شیکھر کی خُنثٰی طبقےکےڈیرےپرجانےسےاس کی ماں ہمیشہ کے لیے بیمارہوجاتی ہے مگر شیکھرسےبات کرنا نہیں چھوڑتی،ہر وقت اس کےآنےکی راہ تکتی جبکہ دوسری طرف ابّا شیکھر کا نام لینا پسندنہیں کرتے۔خُنثٰی  طبقےکےڈیرےپررہتےہوئےشیکھرکوباباکی اتنی یاد نہیں آتی جتنی امّاں کی آتی ہے۔اُس نے جتنی بارگھر آنے کی خواہش ظاہرکی ہے۔اس کا مقصد ماں سےملاقات ہے نہ کہ بابا سے،کیوں کہ وہ باباکےقہروغضب سے ڈرتی ہے۔جب وہ ماں کا احوال پوچھنےہسپتال آتاہےتوبابا بغیرملاقات کےاُسےدروازےسےواپس رخصت کردیتےہیں۔سالوں سال خُنثٰی افراد کےڈیرےپررہنےکےباوجود اسےکبھی باپ کی یادنہیں ستاتا۔وہ جب بھی اپنوں کےمتعلق سوچتاہے تو اس میں سرِ فہرست ماں ہوتی ہے۔ناول کے آخرجب ماں سےملنے کامُصمّم ارادہ کرلیتاہےتوماں بیٹے کی محبت مثالی بن جاتی ہےاورماں کےساتھ اُس کی محبت سے ہمیں شیکھر اور ماں کی اوڈی پس کملیکس کا تعلق سامنےآتاہے:
“امّاں کےپاس بسترپربیٹھتےہی میں نےغورسےاُن کا چہرہ دیکھا،زردکمزور،جُھریوں اوردردسےبھراچہرہ میری اُس امّاں کا تھا جو ہروقت کِھلارہتاتھا۔۔۔ڈرتےڈرتےاُن کا کمزورہاتھ میں نےاپنےہاتھوں میں لےلیااورچوم لیا۔مُجھ پر نظرپڑتےہی اُنہوں نےزورلگاکردونوں آنکھیں کھول دیں۔میں اس سےزیادہ ضبط نہ کرسکااوربچوں کی طرح اُن کے سینےسےلپٹ کررونےلگا۔امّاں کا کانپتالرزتاکمزورہاتھ اُٹھااورمیرےسرکوسہلانےلگا۔سارےجہان کی خوشیاں اُس پل سمٹ کر امّاں کےآنچل میں آگئی تھیں جو میری بےسکون روح کو قراربخش رہی تھی میری تشنگی کو شرابورکررہی تھی۔میرا وجودامّاں کی ممتامیں بھیگنےلگااورپل بھرمیں ایسا محسوس ہوا کہ میرا بچپن لوٹ آیاہو۔ “(۵)

ناول کادوسرا خُنثٰی اورثانوی کردارنُورا/ستارہ بھی اوڈی پس کمپلیکس کا شکار ہوتا ہے۔بچپن میں نورا کواپنی ماں سےگہری محبت ہوتی ہے۔اس کےبھائیوں کی غیرسنجیدگی سے ماں پریشانی ہوتی ہےجس کی پریشانی کو دیکھ کرنورا گھرکے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹھاتاہے اور ماں بھی اسے بہت زیادہ چاہتی ہے۔دوسری طرف ابّا کو نورا سےاس قدر محبت نہیں ہوتی ۔ماں ان کی حرکتوں کی وجہ سے انھیں منع کرنے کےلیےضرورپیٹتا ہے مگر گھر سے نکالےجانےکی دھمکی تک نہیں دیتی جبکہ ابّااس کے حرکات سے تنگ آکررات کی تاریکی میں اسےدھکےدےکرہمیشہ کےلیےگھرسےنکال دیتاہے۔نورا ناول میں اپنےابّا کے متعلق کہتاہے:
“ایک روزباپ نےتنگ آکر میری ہتھیلی پر سَو کا نوٹ رکھا اور کہا کہ ان کی نظروں سے،ان کی زندگی سے دُور چلاجاؤں۔بھلا کوئی باپ اتنےچھوٹےبچےکواس طرح دربدربھٹکنےکوگھرسےنکال سکتاہے؟کبھی دیکھا ہےتم نے ایسا؟میرے۔۔۔۔میرےباپ نے نہ صرف نکل جانے کو کہا بلکہ دھکےدےکرگھرسےنکلوادیا۔بہت رویا بھی، فریادبھی کی،گڑگڑایابھی،یہ بھی کہا کہ رات کے اس پہرمیں کہاں جاؤں گا؟ انہوں نےایک ٹُک جواب دیا “جدھرےتمہارےسینگھ سماجائےادھرجاؤ۔دنیا بہت بڑی ہے کہیں دورچلے جاؤ۔بس دوبارہ ادھرکا رُخ مت کرنا۔”میں نےبڑی امیدوں سےبےبس امی کو دیکھا جو چپ چاپ منہ میں آنچل ٹھونس کر روئےجارہی تھی مگر ایک لفظ نہ بول سکیں ۔(۶)

ان اقتباسات سےدونوں خُنثٰی کرداروں کا اپنےوالدین سےاوڈی پس کمپلیکس کا تعلق سامنےآتاہے۔والدین کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ چاہےان کا بچہ کتنے ہی بدنامی اور شرمندگی کے افعال میں ملوث ہوجائے مگروہ ڈانٹ ڈپٹ سےاسےدھمکاکران افعال سے بازرہنےکی تاکید کرتےہیں اور ان کی سابقہ غلطیوں کونظرانداز کرتےہیں۔نورااورشیکھرکی مائیں عین اسی طرح کرتی ہیں جبکہ ان کےباباسماج کےڈراورغیرت کی وجہ سے طیش میں آکراپنےمعصوم بچوں کو گھرسےنکال کرسماجی بھیڑیوں کی خوراک بننےکےلیےچھوڑدیتےہیں۔اُن کی مائیں منہ میں آنچل ٹھونسے گُم سُم کھڑی اپنی اور اپنےبچوں کی بےبس کھڑی کانظارہ تو کرتی ہیں مگرانھیں روک نہیں سکتیں ۔

خُنثٰی کردارکاجائزہ لیتےہوئےدوسرانفسیاتی عنصرنرگسیت ہے۔نرگسیت کوانگریزی زبان میں (Narcissism)کہا جاتا ہےجو(Narcissus)سےمشتق ہےجس کا ترجمہ فارسی میں نرگس کیاگیاہے۔یہ علمِ نفسیات کی ایک اہم اصطلاح ہے۔اس سے مراد کسی انسان کا خود پر فدا ہونااورخودسےعشق کرنا ہے۔یہاں اپنی ذات کا حسین ہونا اورخودسے عشق کرنےپر زور دیا جاتاہے۔ یعنی نرگسیت کا شِکار انسان خودعاشق بھی ہوتاہےاور معشوق بھی۔ڈاکٹر ظہیر رحمتی “نرگسیت” کی اصطلاح سے متعلق رقم طراز ہیں:
“نرگسیت نفسیات کی اصطلاح ہےجواُردو میں انگریزی زبان کےذریعےرائج ہوئی۔نفسیات کی اصطلاح میں نرگسیت خوپرستی اور خودپسندی کی کشمکش(Complex)سےعبارت ہے۔جس میں فرد کی جنسی کشش کا محور خود اس کا جسم ہوتا ہے۔اس کشمکش سے ہر آدمی دوچارہوتا ہے۔”(۷)
لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ نرگسیت کا شکار انسان دوسروں سےنفرت کرتاہےبلکہ وہ داخلی طورپرخود کو چاہتا ہے۔ کیرن ہارنی نرگسیت کو طبی جذبےکےبجائےسماجی جذبہ قراردےکراس کی معنی میں ہمہ گیریت کےقائل ہے۔وہ نرگسیت کے دائرہ کارمیں خودداری،جذبہ محبوبیت،غرور،طلبِ جاہ،شدیدفکرِصحت،دوسروں سےکنارہ کشی،شکل و شباہت،ذہنی صلاحیت، تخلیقی خواہشات،تصوریت اور خودستائی شامل کرتےہیں۔ناول”میرےہونےمیں کیابرائی ہے” میں شیکھر کا کردار نرگسیت کے سانچوں سےاس طرح لبریز ہوا ہے کہ خُنثٰی افراد کے فطرت کاایک علامتی کردار بن گیاہے۔اسےخُنثٰی طبقےکےافراد کی جذبات، صحت اوردیگرتخلیقی صلاحیتوں کےبارےمیں فکر ہوتاہے۔اسے خود سے بھی انتہا درجے کی محبت ہوتی ہے۔ گھر میں والدین اور بہن بھائی کی غیر موجودگی میں ماں اور بہن کے کپڑے اور چوڑیاں پہنتاہے،رُکمنی دیدی کی سُرخیاں اور سینڈل،اماں کا ناخن پالش اور لِپ اسٹک کےساتھ دیگر بناؤسنگھار کی چیزیں اُٹھاکر خود کو سنگھار کرکے جب آئینے میں اپنا عکس دیکھتا ہے تو خود پر فدا ہوجاتا ہے اوریہ سمجھتاہے کہ عکس حقیقت ہے اور میں (میراوجود)سراپا جھوٹ ہوں:
“جب کبھی میں گھر میں اکیلاہوتا تو کمرابند کرکے میں اپنےدل میں چھپی خواہش کوچوری چھپےپوری ضرور کرتا۔ اماں کی الماری سے اُن کے کپڑے نکالتا۔چولی پہن کر خود کو آئینے میں دیکھتا اور خواہش ہوتی کہ کسی طرح چھاتیوں میں اُبھار آجائے۔پھر بلاؤزساڑھی،اونچی ایڑھی والی سینڈل پہن کرلچک لچک کر چلتا۔اماں کی بندیاں ،نیل پالش، لِپ اسٹک لگاتا خود کو آئینے میں نہارتا اور اپنے ہی عکس پر عاشق ہوجاتا۔”(۸)

اس اقتباس سےجہاں شیکھرکااپنےادھورےجسم کو پورےکرنےکی خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری طرف آئینےمیں خودکوسنگار کرکےخود پراس قدرفدا ہوجاتاہےکہ اسےاپنا فطری وجودہیچ لگتاہے۔وہ اپنےحسن کی وجہ سے ہروقت خوش فہمی میں رہتاہےاور اسی وجہ سے خُنثٰی طبقے میں جانےکےبعدان کی مقبولیت میں آئےروز اضافہ ہوتارہتاہے۔ان کامشہوراوربڑےلوگوں سےتعلقات بن جاتےہیں اور یہی تعلقات اسےزندگی کا مقصد حاصل کرنےمیں معاون ثابت ہوجاتےہیں۔
خُنثٰی کےنفسیات کاجائزہ لیتےہوئےتیسرانہایت اہم اورمغلوب جذبہ نمائشیت(Exhibitionism) کاسامنےآتا ہے۔نمائشیت سے مراد کسی انسان کاخود کو بناؤسنگھارکرکےیا ویسےنازنخروں سےاپنےآپ کو دوسروں کی نظر کامرکزومِحوربناکر پیش کرنا ہے۔نمائشیت کا شکار انسان دوسروں کی توجہ سے لذت حاصل کرتاہے۔وہ خود کو ایک شے کی طور پر پیش کرتا ہے جس طرح کسی بازار میں تاجر نمائش کے تحت خوب صورت چیزوں کو سامنےرکھ کر لوگوں کو اپنےدکان کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ انسانوں میں خصوصاًعورتیں مردوں کےلئےپُرکشش بن کر اپنی نُمائشیت کا اظہار کرتی ہے۔جدیددورمیں مرد بھی نمائشیت کے جذبےسے مغلوب ہوگئے ہیں ۔پروفیسرساجدہ زیدی نمائشیت کی وضاحت اس طرح کرتی ہے:
“نمائشیت کے تحت انسان خود کو دوسروں کی نظروں کا مرکز بناکرخوش ہوتا ہے۔خودنمائی کےاس عمل میں اسے جو لذت ملتی ہے وہ انفعالی لذت ہے یعنی خود کو معروض یاشےکی حیثیت سےدیکھنے کی لذت،عام زندگی میں اسے عورتوں کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔”(۹)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

اظہر حسین
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بی ایس اسکالر ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply