ثمرِ محبوب: ہان کینگ (ترجمہ: عاصم بخشی)قسط4

لفٹ کے دروازے کھڑاک سے کھل گئے۔ اپنا بے ڈھب سوٹ کیس اٹھائے اندھیری راہداری میں چلتے ہوئے میں آخر کار دروازے تک پہنچا اور گھنٹی بجائی۔کوئی جواب نہیں آیاْ۔

میں نے اپنا کان دروازے کے برفیلے فولاد سے لگاتے ہوئے کچھ سننے کی کوشش کی۔ پھر دوبارہ گھنٹی بجائی، دو ، تین ، چار بار کہ آیا وہ کام کر بھی رہی تھی۔ گھنٹی ٹھیک تھی، فلیٹ کے اندر اس کے بجنے کی آواز سنی جا سکتی تھی، گو دروازہ بند ہونے کی وجہ سے آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوتی تھی۔ سوٹ کیس دروازے کے ساتھ لگا کر میں اپنی گھڑی دیکھنے لگا۔ شام کے آٹھ بج رہے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میری بیوی کی نیند گہری تھی ، لیکن یہ تو کچھ زیادہ ہی تھا۔

بہت تھکا ہوا تھا۔ کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا۔ کاش چابی آرام سے مل جائے اور زیادہ تلاش کرنے کی پریشانی میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔

شاید میری بیوی نے اپنی ماں کو فون کر دیا ہو اور میرے کہنے کے مطابق ہسپتال چلی گئی ہو یا پھر میری غیر موجودگی میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں کچھ دن گاؤں میں ٹھہرنے۔ لیکن نہیں۔۔۔جونہی میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو وہی جانے پہچانے سلیپر، ورزشی اور دوسرے زیبائشی جوتوں کا ڈھیر میرے سامنے تھا۔

میں نے غیر شعوری طور پر فلیٹ کی عمومی سردی اپنے اندر اتارتے ہوئے جوتے اتار کر سلیپر پہن لیے۔ ابھی چند ہی قدم بڑھا تھا کہ ایک شدید بدبو کا احساس ہوا۔ فریج کھولا تو اندر حلوہ کدو اور کھیرے کا گلا سڑا پکوان ایک بدبودار مادے میں تبدیل ہوا پڑا تھا۔

سلگتی برقی دیگچی میں کوئی آدھا پیالہ چاول بچے ہوں گے جنہیں واضح طور پر اتنی دیر ہو چکی تھی کہ وہ سوکھ کر اندرونی حصے میں چپک چکے تھے۔ڈھکن اٹھاتے ہی کئی دن کے باسی چاولوں کی بو گرم بھاپ کے ساتھ میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔ آب گیر میں گندے برتنوں کا ڈھیر لگا تھا، واشنگ مشین کے اوپر موجود پلاسٹک کی ٹوکری سے گلی سڑی نمی کی بدبو اٹھ رہی تھی جہاں سرمئی صابن والے پانی میں گندے کپڑے موجود تھے۔

میری بیوی نہ تو بیڈروم میں تھی ، نہ ہی غسل خانے یا اس فالتو کمرے میں جسے ہم مختلف کاموں کےلیے استعمال کرتے تھے۔بیٹھک میں صبح کا اخبار اسی طرح پھیلا تھا جیسا میں پچھلے ہفتے چھوڑ گیا تھا، آدھ لیٹر دودھ کے ڈبوں کا ایک کنستر، جمے ہوئے دودھ کے قطروں والا ایک شیشے کا کپ، میری بیوی کی ایک الٹی سفید جراب اور ایک سرخ چرمی پرس اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔

باہر شاہراہ پر تیزی رفتاری سے سفر کرتی کاروں کے انجنوں کا شور فلیٹ میں موجود خالی پن کے ٹھوس حجم کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ رہا تھا۔

چونکہ تھکن سے چور او ربھوکا تھا، تمام برتن ہی آب گیر میں موجود تھے اور میرے لیے ایک بھی صاف چمچ نہیں تھا کہ کچھ چاول ہی نکال لیتا، مجھے شدید اکیلے پن کا احساس ہوا۔ شاید تنہائی اس لیے محسوس کر رہا تھا کہ اتنے طویل سفر کے بعد ایک خالی گھر میں آن پہنچا تھا، وہ تمام چھوٹے موٹے قصے سنانا چاہتا تھا جو طویل ہوائی پروازوں پر پیش آتے ہیں، ان تمام مناظر کے بارے میں گپ شپ لگانا چاہتا تھا جو کسی اجنبی ملک کی ریل گاڑیوں کی کھڑکیوں سے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی تو ہوتا جو یہ پوچھتا کہ ‘کیا تم تھکے ہوئے ہو؟‘ اور میں اُس مردم بیزار سوفسطائی کے سامنے یہ جواب دے کر اپنی برداشت کے جوہر دکھا سکتا کہ ’میں ٹھیک ہوں‘۔ یہ سب کچھ سوچ کر مجھے غصہ آ گیا۔ اس احساس کی وجہ سے کہ میرے بدن کی بے وقعتی مجھے کائنات میں ضم ہونے سے روک رہی تھی، اس سردی کی وجہ سے جو اچانک میرے ڈھیلے ڈھالے لباس میں سرایت کر رہی تھی اور اس خیال کی وجہ سے کہ میں نے ساری زندگی خود کو کامیابی سے بہلانے میں گزار دی، مجھے غصہ آ گیا۔ بالکل تنہا ، کسی چاہنے والے کے بغیر میری ہستی شاید پہلے ہی فراموش کی جا چکی تھی۔

عین اسی لمحے ایک مدھم سی آواز سنائی دی۔

میں آواز کی جانب مڑا۔ یہ یقیناً میری بیوی ہی کی آواز تھی۔ بالکونی سے ایک بہت ہلکی اور ناقابلِ فہم سرگوشی کی سی آواز آ رہی تھی۔

تنہائی کا وہ شدید احساس اچانک اطمینان میں بدل گیا۔ جونہی میں اپنے پیر تھپ تھپ زمین پر مارتا بالکونی میں پہنچا مجھے اپنی زبان کے سرے پر جھلاہٹ کی ایک لہر سی محسوس ہوئی ۔ ’اگر تم اس وقت سے یہیں موجود تھیں تو مجھے جواب کیوں نہیں دیا؟‘ میں نے برآمدے کا دروازہ زور سے کھولتے ہوئے کہا۔ ’ یہ گھر کا کیا حال بنا رکھا ہے؟ اس گند میں تم زندہ سلامت ہی کس طرح ہو؟‘

اپنی بیوی کے برہنہ وجود پر نظر پڑتے ہی میں ٹھٹک کر رک گیا!

وہ بالکونی کی کھڑکی کے ساتھ چلتی سلاخوں کی جانب منہ کیے جھکی ہوئی تھی، دونوں بازو ہوا میں یوں بلند تھے جیسے خوشی سے لہرا رہی ہو۔ تما م بدن گہرا سبز تھا۔ سیاہ ہوتا چہرہ اب کسی سدابہار پتے کی طرح چمک رہا تھا۔ سوکھے ہوئے مولی کے پتوں جیسے بال اب جنگلی جڑی بوٹیوں کے تنوں کی طرح منور تھے۔

سبز چہرے میں دو چمکدار آنکھیں ذرا زرد محسوس ہوتی تھیں۔ پیچھے ہٹا تو وہ میری جانب اس طرح مڑی جیسے کھڑا ہونا چاہتی ہو۔ لیکن اس کی بجائے اس کی ٹانگوں میں اوپر نیچے بس ایک ارتعاش سا پیدا ہوا۔ وہ کھڑے ہونے یا چلنے کے قابل نہ لگتی تھی۔

اس کی لچکدار کمر تھرتھرا رہی تھی۔ گہرے نیلے ہونٹوں کے  درمیان ایک لاغر سی سوکھی ہوئی زبان کسی آبی پودے کی طرح لہرا رہی تھی۔ دانتوں کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔

ان زرد، شکن دار ہونٹوں کے بیچ سے ایک ہلکی سی آہ نکلی جو کراہنے کی آواز سے ذرا سی ہی زیادہ تھی ۔

’۔۔۔پااااانی۔‘

میں بیسن کی طرف بھاگا اور فوراً پورا نلکا کھول دیا،پلاسٹک کا پیالہ لبالب بھر گیا۔ بالکونی کی طرف اس طرح واپس بھاگا کہ تیز رفتار قدموں کے ساتھ پانی چھلک چھلک کر بیٹھک کے فرش پر گر رہا تھا۔ جونہی میں نے اپنی بیوی کی چھاتی پر چھڑکاؤ کیا تو کسی بہت بڑے پودے کے پتے کی طرح اس کا پورا جسم کپکپاتے ہوئے زندہ ہو نے لگا۔ واپس گیا اور دوبارہ برتن بھر کر اس کے سر پر انڈیل دیا۔ بال یوں اچھل کر کھڑے ہونے لگے جیسے کسی نادیدہ بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ میں اپنے بپتسمہ کے زیرِ اثر اس کے چمکدار کھلتے ہوئے بدن کو تکتا رہا۔ سر چکرا رہا تھا۔

آج سے پہلے میری بیوی کبھی اتنی خوبصورت نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں۔

میں اب مزید خط لکھنے کے قابل نہیں رہی۔ نہ ہی تمہارا چھوڑا ہوا وہ سویٹر پہننے کے قابل ہوں۔ وہ نارنجی اونی سویٹر جو تم پچھلی سردیوں میں غلطی سے یہاں بھول گئی تھی۔

اُس کے کاروباری دورے پر نکلنے سے اگلے روز میں نے وہ پہنا تھا۔ تم جانتی ہی ہو کہ مجھے کتنی سردی لگتی ہے۔

وہ دُھلا ہوا نہیں تھا اس لیے اس میں ان دُھلے برتنوں کی بُو اور تمہارے جسم کی مہک رچی بسی تھی۔ کوئی اور دن ہوتا تو شاید میں اسے دھو لیتی لیکن اس دن بہت سردی تھی اور میں اسی مہک میں سانس لینا چاہتی تھی، لہٰذا اسے پہنے پہنے ہی سو گئی۔ اگلی صبح ابھی کُہر کی جکڑ قائم تھی اور شاید یہ میری پیاس اور سردی کا احساس تھا کہ بیڈروم کی کھڑکی سے سورج کی روشنی اندر آتے ہی میرے منہ سے ایک دبی دبی چیخ نکل گئی ’ماں‘۔اس گرم روشنی میں خود کو چھپا لینے کی تمنا تھی کہ میں بالکونی میں نکل گئی اور تمام کپڑے اتار دئیے۔ میری برہنہ جلد میں پیوست ہوتی سورج کی کرنیں تمہاری مہک سے کتنی ملتی جلتی تھیں! وہیں جھکے ہوئے میں ماں ماں پکارتی رہی۔ کوئی بھی اور لفظ نہیں۔

نہ جانے کتنا سمے گزر گیا۔ دن، ہفتے، مہینے؟ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہوا اب کچھ خاص گرم محسوس نہیں ہوتی مجھے بس حدت میں تھوڑا سا چڑھاؤ اور پھر ایک اطمینان بخش اتار ہی یاد ہے۔

اب کسی بھی لمحے چونگ نینگ ندی کے اس پار موجود فلیٹوں کی کھڑکیاں نارنجی روشنیوں سے جگمگائیں گی۔

کیا وہاں رہنے والے لوگ مجھے دیکھ سکتے ہیں؟ وہ کاریں جو اپنی روشنیاں بہاتی شاہراہ پر تیزرفتاری سے دوڑتی چلی جا رہی ہیں؟ میں اب کیسی لگتی ہوں؟

ماں یہ سب کچھ بہت عجیب ہے۔ دیکھے، سُنے،سونگھے اور چکھے بغیر بھی سب کچھ بہت تروتازہ، پہلے سے زیادہ زندہ محسوس ہوتا ہے۔ میں تارکول پر گھسٹنے والے کار کے ٹائر کی کھردری رگڑ محسوس کرتی ہوں ، وہ داخلی دوازہ کھول کر میری طرف بڑھتا ہےتو اس کے قدموں کی چاپ میں موجود ہلکا سا ارتعاش ، زرخیز خوابوں کو نمی بخشتی بارش سے بھری ہوا، صبح صادق کی سرمئی نیم روشن منور فضا۔

نزدیک ہوں یا دور ، میں کلیوں کا پھوٹنا اور پتیوں کا کھلنا محسوس کر سکتی ہوں، زرگونوں سے لارووں کا نکلنا، کتوں اور بلیوں کا بچے پیدا کرنا، ساتھ والی عمارت کے بوڑھے آدمی کی نبض کا اتار چڑھاؤ، اوپر رسوئی میں ابلتا ہوا سلاد، نچلے فلیٹ میں گرامو فون کے پیچھے پڑے گلدان میں باہر سے توڑے گئے گل داؤودی کا گلدستہ۔ رات ہو یا دن، ستارے ایک ٹھہری ہوئی قوس معلوم ہوتے ہیں۔ سورج جب بھی طلوع ہوتا ہے تو شاہراہ کےکنارے پر لگے انجیرِ توت اپنے خمیدہ جسم مشرق کی سمت جھکا لیتے ہیں۔ میرا اپنا بدن بھی بالکل یہی کرتا ہے۔

کیا تم سمجھ سکتی ہو؟ میں جانتی ہوں کہ بہت جلد یہ یادوں کا سلسلہ بھی معدوم ہو جائے گا، لیکن میں ٹھیک ہوں۔ میں بہت عرصے سے یہی خواب دیکھ رہی تھی، صرف اور صرف ہوا، سورج کی روشنی اور پانی پر زندہ رہنے کا خواب۔

یاد ہے جب میں بچی تھی: دوڑتی ہوئی رسوئی میں آتی اور اپنا سر تمہارے دامن میں رکھ دیتی ، وہ لذیذ مہک، تلوں کے تیل، تلے ہوئے بیجوں کی وہ اشتہا انگیز خوشبو۔ تمہیں یاد ہو گا کہ میں ہمیشہ مٹی میں ہی کھیلتی رہتی تھی۔ گیلی مٹی سے لتھڑے میرے ہاتھ تمہارے دامن کو آلودہ کر دیتے تھے۔

میری عمر اس وقت کیا ہو گی؟ بہار کا وہ دن جب ہلکی پھوار کے باعث دھند سی چھائی تھی، ابا نے مجھے اٹھا کر ٹریکٹر پر بٹھایا تھا اور ہم سب ساحل کی سیر کو چلے گئے تھے۔ بارش میں سب بڑوں کی کھلکھلاتی ہوئی ہنسی کی آواز، بچوں کی پیشانیوں پر چپکے ہوئے گیلے بال، یہاں وہاں اچھلتے کودتے ہنستے کھیلتے چہرے، سب دھندلا رہا ہے۔

سمندر کے کنارے وہ غریب سا گاؤں تمہاری کُل کائنات تھا۔ تم وہیں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی۔ وہیں بچے جنے، کام کیا اور بوڑھی ہو گئی۔

ایک دن وہیں ہمارے آبائی قبرستان میں ابا کے پہلو میں پہنچ جاؤ گی۔

تمہارے جیسے انجام کا ڈر تھا ماں جس نے مجھے گھر سے اتنا دور ہونے پر مجبور کیا۔ سترہ سال کی عمر میں گھر کو خیرباد کہتے ہوئے، بوسان، دائیگو، گینگ نیونگ کے وہ تمام شہری اضلاع جہاں میں بے مقصد ایک ماہ سے بھی زیادہ گھومتی پھرتی رہی میری یاداشت کا حصہ ہیں۔ ایک جاپانی ریستوران میں اپنی عمر کے بارے میں جھوٹ بولنا، تن تنہا اپنا بوجھ اٹھانا، شام کو جنینی حالت میں مڑ تڑ کر اس چھوٹے سے کتب خانے میں پڑے رہنا۔۔۔مجھے وہ جگہ بہت پسند تھی۔ شہری علاقوں کی وہ چکا چوند کر دینے والی روشنیاں، وہاں کے باسیوں کی وہ دمکتی اٹھان۔

یاد نہیں کب مجھے ادراک ہوا کہ میرا انجام انہی اجنبی گلیوں میں آوارہ گردی کرتے ضعیف و لاچار ہوجانا ہے۔ گھر میں بھی ناخوش تھی اور گھر سے دور بھی اتنی ہی ناخوش، تو پھر تم ہی کہو میں کہاں جاتی؟

میں کبھی خوش نہیں ہو سکی۔ کیا میرے عقب میں ازل سے کوئی زخمی روح موجود ہے، میرا گلا دباتی، میرے جسم کو جکڑتی کوئی بدروح؟ میں نے ہمیشہ بھاگ جانا چاہا ، ایک شدید بنیادی سی جبلت، ایک کرب جو رونے پر مجبور کرے، ایک چٹکی جو چیخ کو دعوت دے۔ کوئی بھی مجھے بس کے پچھلے حصے میں گھٹنے اوپر کیے دیکھے تو یہی محسوس ہو کہ یہ لڑکی مکھی تک نہیں مار سکتی، لیکن یہ تمام وقت میں اپنے اندر ایک زوردار مکے سے کھڑکی کو چٹخ دینے کی شدید خواہش سے برسرِ پیکار رہی۔ اپنی ہتھیلی سے بہتے خون کو دیکھنے کی حرص، میں اسے اس طرح چاٹ لیتی جیسے کوئی بلی دودھ چٹ کر جاتی ہے۔ میں کس چیز سے بچ کر بھاگنا چاہتی تھی؟ میرے اندر کرب کی وہ کون سی آگ تھی جو مجھے دنیا کے دوسرے کنارے جانے پر اکساتی تھی؟ پھر وہ کیا تھا جو مجھے روکے ہوئے تھا، وہ دبدھا جو مجھے معذور کیے دے رہی تھی؟ اس جست کو ناممکن بنانے والی یہ کیسی بیڑیاں تھیں جو گردشِ خون کو روک رہی تھیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply