19نومبر:مردوں کا عالمی دن/آغرؔ ندیم سحر

خواتین کے عالمی دن کو جس جوش و خروش سے منایا جاتا ہے،مردوں کے لیے وہ جذبہ اور خوشی کہیں نظر نہیں آتی،عورت اگر زندگی میں اپنے شوہر اورخاندان کے لیے کمپرومائز کرتی ہے،قربانیاں دیتی ہے تو کیا مرد اس معاملے میں عورت سے کم ہے؟کسی بھی معاشرے میں مرد کے کردار اور اس کی تلخ زندگی کو نہ تو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے مقابلے میں کسی کو کھڑا کیا جا سکتا ہے،وہ ایک بیٹا،بھائی، شوہر اور باپ بن کر،جن تجربات سے گزرتا ہے اور زندگی کی حقیقتوں کا جس طرح سامنا کرتا ہے،اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔مرد،بیٹے کے روپ میں اپنے والدین کی خدمت ،بھائی کے روپ میں اپنی بہنوں کی عزت،شوہر کے روپ میں اپنی بیوی کی حفاظت اور باپ کے روپ میں بچوں کے مستقبل کو تابناک بنانے میں وہ مشقت کی جس چکی کو پیستا ہے،شاید عورت اس سے کہیں پیچھے ہے۔عورت یقینا اپنے گھر کو سنبھالنے اور خاندان کو یکجا رکھنے کے لیے سینکڑوں قربانیاں دیتی ہوگی مگر مرد اس معاشرے کا وہ کردار ہے جس کی قربانیوں اور جس کی تلخیوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا،جو اپنی بیوی اور بچوں کی خاطر اپنی ہنسی اور صحت تک قربان کر دیتا ہے،جو معاشرے میں اپنے خاندان کی بہتری اور اپنے بچوں کی خوشی کے لیے ہر وہ قربانی دینے کو تیار ہو جاتا ہے،جو شاید وہ اپنے لیے کبھی نہ دے سکے۔
۱۹ نومبر مردوں کا عالمی دن تھا،جو اسی سے زائد ممالک میں انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا،پاکستان میں بھی اس دن مرد کی لازوال قربانیوں کو یاد کیا گیا مگر صرف سوشل میڈیا کی حد تک،مرد نے کسی طرح کی احتجاجی ریلی کا اہتمام نہیں کیا اور نہ ہی غیر مہذب پلے کارڈز سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میں معاشرے کا ایک معصوم کردار ہوں،مجھے بھی تسلیم کیا جائے،میرے وجود کے لیے بھی ‘‘میرا جسم میری مرضی’’جیسے نعرے ایجاد کیے جائیں۔ایسا نہیں ہوا اور مجھے یقین ہے ایسا ہوگا بھی نہیں،لاہور مال روڈ پر جس سمے مردوں کے عالمی دن کو یاد کیا جا رہا تھا،مرد اس وقت بھی اپنے بچوں کی روٹی کے لیے مزدوری پہ تھا،دنیا مرد کی قربانیاں یاد کر رہی تھی مگر وہ خود اپنے لیے کچھ نہیں سوچ رہا تھا،مرد کی سوچ اپنے ماں باپ سے شروع ہوتی ہے اور اپنی بیوی بچوں پر ختم ہوجاتی ہے،اس کی زندگی میں اس کے اپنے وجود کو تسلیم کرنے کی بھی لگن نہیں ہوتی۔مرد سردیوں میں اپنے بچوں کے لیے جرسیاں خریدتے ہوئے ایک دفعہ بھی یہ نہیں سوچتا کہ سردی تو مجھے بھی لگتی ہے بلکہ وہ دس سال پرانی جرسی سے گزارا کرنے کا سوچتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے ہر سال نئے کپڑے بناتا ہے،عید کے موقع پر اپنے اہلِ خانہ کی شاپنگ کرتے ہوئے وہ یہ کہہ کر اپنے اندر کی خواہشوں کو قتل کر لیتا ہے کہ ‘‘بیٹا ابھی گزشتہ برس ہی تو نیا سوٹ سلوایاہے،میراوہی چل جائے گا’’۔بیوی اور بچوں کی دوائیاں اور شاپنگ پوری کرتے ہوئے وہ خود درجنوں بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے مگر اف تک نہیں کرتا،اسے لگتا ہے کہ میرے بچوں کی زندگی ہی میری زندگی ہے،میری شریکِ حیات کی خوشی ہی میری خوشی ہے،
میرے والدین کی صحت ہی میری صحت ہے۔جیسے یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ہوتا ہے مگر مزدور اس دن بھی دیہاڑی پر ہوتے ہیں،ایسے ہی ۱۹ نومبرمردوں کا عالمی دن تھا اور مرد اس دن بھی اپنی اپنی نوکریوں اور دیہاڑیوں پر تھے۔مرد کے وجود کی تلخیاں بیان کرتے ہوئے میں کہیں بھی عورت کے وجود اور کردار سے انکار نہیں کر رہا ،میرا دکھ تو یہ ہے کہ عورت کے حقوق کی بات کرتے ہوئے میرا معاشرہ مرد کے کردار کو نظرانداز کیوں کر دیتا ہے؟
ایک عالمی سروے کے مطابق ۴۵ سال سے کم عمر کے مردوں میں خودکشی کا رجحان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مرد اپنے خاندان کو چلاتے ہوئے جس اذیت اور جس طرح کے کمپرومائز سے گزرتا ہے،وہ اس کو اپنی موجودگی سے بیزار کر دیتا ہے،مرد اپنے وجود کو تسلیم کروانا بھی چاہے تو ہمارا معاشرہ اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کیوں کہ ہم نے مرد سے نہ صرف اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات چھین لیں بلکہ اسے اپنی مرضی سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری کر دیا،اسے والدین کی طرف سے طعنہ ملتا ہے کہ تم رن مرید ہو،اسے بیوی کی طرف سے طعنہ ملتا ہے کہ تم والدین کی سائیڈ لیتے ہو،اسے بچوں کی طرف سے طعنہ ملتا ہے کہ آپ کے لیے دفتر اہم ہے’ہم نہیں،اسے دوستوں کی طرف سے طعنہ ملتا ہے کہ تم گھر کے ہو کر رہ گئے ہو،اسے دفتر سے طعنہ ملتا ہے کہ تمہارے گھر کے کام ختم ہی نہیں ہوتے لہٰذا تم ملازمت میں سنجیدہ نہیں ہو،مرد بے چارہ پوری زندگی اپنے والدین،بیوی بچوں اور باس کو یہی یقین دلاتا رہتا ہے کہ میں آپ سے بہت مخلص ہوں اور مجھے میری قربانیوں سمیت تسلیم کیا جائے۔
مردوں کا عالمی دن،مردوں کو اپنے مسائل سامنے لانے کے لیے منایا جاتا ہے،اس دن کی بنیاد ۱۹۹۹ء میں ٹریننڈاڈ اور ٹوباگو میں یونیورسٹی آف ویسٹ انڈیز کے تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر جیروم ٹیلکسنگ نے رکھی تھی ،اب یہ دن دنیا کے اسی ممالک میں منایا جاتا ہے،پاکستان میں اس دن کوئی خاص تقریب یا ریلی نہیں ہوتی مگر دنیا کے بیش تر ممالک میں عورت مارچ کی طرح اسے بھی پورے احترام اور جذبے سے منایا جاتا ہے،مردوں کے مسائل کو زیربحث لایا جاتا ہے،معاشرے میں اس کے مٹتے وجود کو اسکی قربانیوں کے ذریعے یاد کیا جاتا ہے،مرد جس کا سفر بیٹے سے شروع ہر کر باپ تک پہنچتا ہے،وہ اس سفر میں کیسی کیسی ٹھوکریں کھاتا ہے اور کس کس ذلت کا سامنا کرتا ہے،اس دن ان سب کو یاد کیا جاتا ہے۔ ذہنی طور پر پس ماندہ معاشرہ جو آج تک ایک مکمل عورت کو تسلیم نہیں کر سکا،اس کے لیے مرد کو تسلیم کرنا کتنا مشکل ہے،ہم جانتے ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ مرد یا عورت کے لیے بات کرنا،ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا،غیر مہذب کام ہے،یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں مادی ترقی کو تو اہمیت دی جاتی ہے مگر مرد اور عورت کی انفرادی حیثیت سے انکار کیاگیا،یہ سچ ہے کہ مرد اور عورت،دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں مگر ان دونوں کا انفرادی وجود بھی ہے اور اس کا انکار،اپنا انکار ہے۔اس کالم کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ میں مرد ہو ں اس لیے عورت کی آزادی کا منکر ہوں،میں عورت کے حقوق کے لیے ہر سال کالم لکھتا ہوں مگر عورت کی ‘‘نام نہاد’’آزادی کی مخالفت کرتا ہوں۔اگر عورت اپنی آزادی کی آڑ میں مرد پر دشنام طرازی کرے گی تو میرا مذہب،میری تربیت اور میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتاکہ میں اس کی حمایت کروں اور میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply