فیض ؔ: اندیشوں کا شاعر(دوم،آخری حصّہ) شاہد عزیز انجم

تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیجیے کہ یہ آپا دھاپی کی صدی ہے۔ جہاں رفاقتوں کی طلب، کچی کلیوں کی مہک، لہو کی تپش، موت کے نوحے، سہاگ کے گیت، جمالِ یار کی بوالعجبیاں، ویتنام کا امن، کشمیر کا مسئلہ، فلسطین کی مظلومی، ولز اور سیزرس سگریٹ کے پیکٹ، سب کچھ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ دنیا ابلاغ کی سطح پر جتنی قریب آئی ہے، ستاروں کا طلسم جس آسانی سے ٹوٹا ہے، بشر کے درمیانی واسطے اتنے ہی کمزور، ناقص اور بودے ہوتے چلے گئے ہیں۔مشرق، مغرب پر حملہ کرنے کی خواہش لیے ہوئے ہے اور مغرب، مشرق پر مسلسل شب و خون مار رہا ہے۔ گویا وہ ہماری کلاسیکی شاعری، ہمارا روایتی لباس، ہماری کلاسیکی اور علاقائی موسیقی، ہمارا تاج محل اور ہماری شاہی مسجد، یہ سب ہمارے پیچھے ہے اور جدید شاعری، ولایت سے درآمد کی ہوئی فلمیں، گانوں کی دھنیں، ٹیڈی اور کارڈ بوائے پتلون، شیوخ شہر کی یس نو انگریزی میں چھپے ہوئے عید کارڈ اور امریکا کے اسکائی اسکریپر یہ سب ہمارے آگے ہیں۔

اگر اس جذباتی انتشار کو تھوڑا سا اور پھیلایا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سامنے کوئی متعین راستہ نہیں۔ قومی شعور اور انفرادی اضطراب کا ٹکراؤ نئی اور پرانی روایتوں کا جوار بھاٹا، یہ سب ہمارے براعظم کے ذہین طبقے کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔گویا ہم 1857ء سے لے کے آج تک ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں اور اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں کہ ہماری گزشتہ سے پیوستہ نسلیں بھی اسی قلبی انیٹھن اور بے یقینی کو تلاش کر رہی ہیں جن سے ہم آج گتھم گتھا ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ایک ایسے اندیشے کے مرض میں مبتلا ہے جسے تیسری آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ مگر بڑے محسوس انداز سے وہ ہمارے رگ و پے میں سرایت کرتا جاتا ہے۔اس موقع پر فیض کی ایک نظم “ہم لوگ” کا حوالہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جو کافی پرانی ہے مگر اس ماحول میں اس سے زیادہ نئی چیز بھی کوئی نہیں۔
دل کے ایوان میں لیے گل شدہ شمعوں کی قطار
حسنِ محبوب کے سیال تصور کی طرح
غایتِ سود و زیاں صورت آغاز و مآل
مضمحل ساعتِ امروز کی بے رنگی سے
تشنہ افکار جو تسکین نہیں پاتے ہیں
ایک کڑوا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں
اور ایک الجھی ہوئی موہوم سی درماں کی تلاش

نورِ خورشید سے سہمے ہوئے ساعتِ امروز کی بے رنگی سے مضمحل، یادِ ماضی سے غمیں اور دہشت فردا سے نڈھال نسل کیا کوئی پرانی نسل ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ اندیشوں اور حسرتوں سے چور چور، عضو عضو، نڈھال نسل ہمارے عہد کے باشندوں پر مشتمل ہے۔اب ائیے دیکھتے ہیں کہ اندیشہ کیا ہے؟ امید و بیم کی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں قوتِ فیصلہ مسلسل جھٹکوں کا شکار ہوتی رہے۔ ایماں مجھے رو کے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر والی مسلسل الجھن۔ ہونی اور انہونی کا خدشہ، اپنے آپ سے بھاگ جانے والی کیفیت، اعتماد اور اعتقاد کے بت ٹوٹ جانے کا خوف، کروں نہ کروں، کاش، اللہ کرے ایسا نہ ہو، اگر ایسا ہو گیا تو، کہیں ماضی کی طرح مستقبل بھی، قدم اٹھاؤں تو مگر۔ اور یہ سب نفسیاتی ضابطے گومگو اگر مگر والی کیفیت کے سلسلہ اندیشے کا پیش خیمہ ہے۔

اندیشہ کن حالات میں جنم لیتا ہے یہ خالص نفسیاتی مسئلہ ہے اور ہو سکتا ہے نفسیات دانوں نے اس کی بہت ساری جنسی، شعوری، لاشعوری اور سماجی توجیہات بیان کی ہوں۔ لیکن اندیشے اور خوف کے بارے میں عمومی طور پر بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ خاموشی، اندھیرا اور تنہائی یہ سب اندیشے کی جنم گاہیں ہیں گاہیں ہیں۔ کرب کی یہ ساری واردات بوند بوند وقت اور آدمی کا لہو پیتی رہتی ہے۔:
درد آئے گا دبے پاؤں
اور کچھ دیر میں جب پھر سے
میرے تنہا دل کو فکر آئے گی
کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے

فیض کی شاعری میں جو چیز ابتدا سے کھٹکتی ہے وہ اس کی روح کی تنہائی ہے۔ خواہ وہ ایک نظم ہو یا پورا مجموعہ۔ اس کو پڑھتے ہوئے قاری اس کی روح کی تنہائی کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس لیے فیض کی شاعری میں ایسا حزن و ملال، ایسا درد و الم اور ایسی غم انگیزی ہے جس میں ہارڈی اور فانی کی قنوطیت کی خنکی نہیں بلکہ جو حسین ہے، جو پراسرار ہے، جو جمالیاتی لذت سے چور ہے۔ فیض کی آنکھ فکر مند بھی ہے لیکن جس چیز کا ہمیں شدت سے احساس ہوتا ہے وہ یہ کہ ان کی آنکھیں منتظر بھی ہیں۔ یہ انتظار کبھی ختم نہیں ہوتا اور اس سے اس کی تنہائی ہر لمحہ بوجھل ہوتی جاتی ہے۔ فیض کے نظم “تنہائی” کی عظمت کے بارے میں کچھ کہنا میرے لیے جسارت ہی نہیں بلکہ حماقت ہے کیونکہ وہ خود بولتی ہے اور اپنا لوہا آپ منواتی ہے۔ وہ سو فیصد ہمارے عہد کی نظم ہے جہاں ہر نارمل شخص بھی اپنی مختصر سی زندگی میں ایسی سینکڑوں شاموں کا تجربہ کر چکا ہے۔ تنہائی کا لب و لہجہ بے حد مانوس میٹھا اور دھیما ہے۔ جیسے ہمارے اندر ہی کوئی شخص سنبھل سنبھل کر ان لفظوں کا ورد کر رہا ہو۔ انتظار کے اس گوشے میں ماضی کی شاندار ریت، حال کی محکومی و مجبوری اور مستقبل کی بے یقینی سب کچھ موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فیض کا مکمل مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فیض کے ہاں ابھی یہ شکستگی کی منزلیں نہیں آئیں۔ ابھی تو وہ اس ریزہ ریزہ ہو جانے والی ساعت کے خوف سے کانپ رہا ہے۔ اس کے دیدہ دل کی نجات والی گھڑی ابھی نہیں ائی ہے اور اس کا سفینہ غمِ دل کی منجدھار میں چکر کھا رہا ہے۔ اس کی بے تعبیر خوابوں کا سرخ سویرا ابھی طلوع نہیں ہوا۔ اس لیے تو فیض کے اندیشوں میں کمی ممکن نہیں۔ آخر میں فیض کی ایک ایسی ہی نظم نقل کی جاتی ہے جو آج سے کئی سال پہلے کی نظم ہے مگر اس کی ماوریت میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply