تاریخ فہمی اور عام فکری مغالطے۔۔۔نیّر نیاز خان

بہت سارے لوگ تاریخ کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے سمجھنے کی سعی کرتے رہتے ہیں اور کچھ تو فلسفہ تقدیر کی مانند من و عن ہی اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ اکثر اسے ایک خشک اور غبار آلود مضمون اور کیلنڈری تاریخوں کی بے ربط تکرار سمجھتے ہوئے اس سے لاتعلق رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی تو تاریخ بیزار کن اوربے ربط ہے۔اور نہ ہی اسے جانے بغیر اپنے وجود کے ادراک سے لے کر معاشرتی تانے بانے کی پیچیدگیوں تک ربط کو سمجھنا ممکن- سائنسی طریقہ کار اور عقلی کسوٹی کا استعمال کرنے سے تاریخ کا مطالعہ ہمارے ماضی اور حال کے درمیان ربط اور تسلسل کی وضاحت کرتا ہے اور مستقبل کے تناظروں کی سمت طے کرنے کے لیے معاون و مددگارثابت ہوتا ہے۔

یہاں یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ حقیقی تاریخ یکسانیت سے بھرپور اور اپنے آپ کو دہرانے کی بجائے، ایک مستقل’ بھرپور اور متضاد عمل سے عبارت ہوتی ہے، جس کا نقطہ ماسکہ اور قوتِ محرکہ محنت کش عوام کے ہاتھوں پیدا ہونے والی قدرِ زائد پرچند قوتوں کے کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش ہے۔ اور اسی کشمکش کے نتیجے میں معاشی، سیاسی اور سماجی تغیر، افراد اور گروہوں کا کردار تاریخ کو اس کے اصل تناظر میں سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے- افراد اور گروہوں کے کردار اور کشمکش کے نتیجے میں وجود میں آنے والا نظام دولت کی تقسیم کی سمتیں متعین کرتا ہے- تاریخ کی بہت ساری تشریحات دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں سے اکثر معض مفروضوں پر مبنی قصے کہانیاں ہی ہوتی ہیں – کچھ تشریحات ابسی ہیں جنھیں بنیاد مان کر تاریخ کے حقیقی اور مادی ارتقا کی کڑیوں کو ایک سلسلہ وار زنجیر میں جوڑتے ہوئے  حقائق کا ادراک ممکن ہے-

جیسا کہ بیسویں صدی کے عظیم مفکر کارل مارکس نے ”سیاسی معاشیات پر تنقید‘‘ کے تعارف میں وضاحت کی تھی کہ اپنی پیدا کردہ سماجی پیداوار کے بعد انسان ایسے بندھن میں بندھ جاتے ہیں جو ان کی خواہشات سے آزاد اور راسخ ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری رشتے، مادی پیداواری قوتوں کی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری رشتے مل کر سماج کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ تعمیر ہوتا ہے اور سماجی شعور کی مخصوص کیفیات بھی اس کے مطابق ہوتی ہیں۔ مادی زندگی میں طرزِ پیداوار ہی زندگی کے سماجی، سیاسی اور روحانی پہلوؤں کا تعین کرتی ہے۔ یہ انسانوں کا شعور نہیں ہوتا جو ان کے وجود کا تعین کرتا ہے، بلکہ اس کے برعکس ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ترقی کے ایک مخصوص مرحلے پر پہنچ کر، سماج کی مادی پیداواری قوتیں موجودہ پیداواری رشتوں سے متصادم ہو جاتی ہیں، یعنی قانونی زبان میں، ان ملکیتی رشتوں سے جن کے اندر رہ کر وہ ابھی تک کام کر رہی تھیں۔پیداوار کی ترقی کی شکلوں کی بجائے یہ رشتے اب ان کے پیروں کی بیڑی بن جاتے ہیں۔پھر سماجی انقلاب کے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ معاشی بنیادوں میں تبدیلیاں، جلد یا بدیر سارے بالائی ڈھانچے کو یکسر بدل کر رکھ دیتی ہیں۔

یہ تاریخ کی جانب حقیقی سائنسی نقطہ نظر کا خلاصہ ہے جسے ”تاریخی مادیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔جب ہم تاریخ کوبے معنی اور بے ربط واقعات کے سلسلے کی بجائے لا محدود حد تک پیچیدہ مگر آپس میں جڑے واقعات کی کڑی کے طور پر سمجھنا شروع کرتے ہیں جس میں بڑے پیمانے کی سماجی، سیاسی اور معاشی قوتیں شامل ہوتی ہیں تو بشمول ہمارے اپنے وجود، ہمارے ارد گرد بسی دنیا میں رشتوں کا آپسی تعلق سمجھنا آسان ہو جاتا ہے- پھر یہ بے کار معمولات کا بے محل مجموعہ نہیں دکھائی دیتی بلکہ محنت کش طبقے کی ماضی کی سلسلہ وارجدوجہد کے تجربات زندہ ہو جاتے ہیں، جن میں ہماری آج کی اس دنیا کوجاننے، اور اسے بدلنے کے لیے بہت سے اسباق موجود ہوتے ہیں۔

تاریخ کی ان مختلف النوع تشریحات کی بازگشت کم ترقی یافتہ اور پسماندہ معاشروں میں شوروغل سے سنائی دیتی ہے جہاں مختلف زاویہ فکر کے لوگ گرد آلود اوراق میں اپنے ماضی کی اصل حقیقت کو جاننے کے متمنی ہیں- ترقی یافتہ اقوام کی طرح ترقی پذیرممالک کے عوام کے لیے بالعموم اور متحرک سیاسی، سماجی اور پیداواری عمل میں شریک افراد اور گروہوں کے لیے بالخصوص تاریخ فہمی کا ہنراتنا ہی ضروری اورلازم ہے جتنا کہ زندگی کے لیے آکسیجن۔ کیونکہ درپیش کسی بھی فکری اور سیاسی بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے یہ علم معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وقت سے بچھڑے ہوے معاشروں کے لیے ماضی کی تاریخ، تاریخ سے بڑھ کر ایک المیہ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں ایک دائرے، ایک نقطے کو مرکزی حیثیت دے کر ان سماجی،سیاسی اور معاشی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو مادی تاریخ کی حقیقی اساس ہوتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اس دائرے اور اس مرکزیت کو چھوڑنے پر رضامند ہی نہیں ہوتے۔

بعض دانشوروں نے تو اسے ایک ”مقدس تاریخی نرگسیت” کا درجہ دے کر حقیقی مادی تاریخ کے بنیادی عوامل کی نفی تک کر دی ہے اور یہ عمل تاریخی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ایسے افراد وجدان کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں اسی لیے وہ عقلی دلیل کے بجائے تاریخ کو جذبات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے خرد کے بلیدان کے تمنائی بن جاتے ہیں۔ حقیقی مادی تاریخ محنت کش عوام کی معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں تغیر پذیر سیاسی نظریات اور سماجی ڈھانچے کی ریاست اور اشرافیہ کے ساتھ برابری کے حصول کے لیے  جنگ کے عمل میں وجود میں آتی ہے۔ جو ایک نئے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی اشکال واضع کرتی ہے۔ سماجی،سیاسی اور معاشی کشمکش کے اس پیچیدہ عمل کو جانے بغیر حقیقی تصویر کے حقیقی رنگوں کونہ ہی تو ارضِ  قرطاس پر بکھیرا نہ ہی عوام اور دھرتی کے رشتے کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے-

جذبات کی بھینٹ چڑھی فکری تقسیم بھی کسی المیے اور سانحے سے کم نہیں ہوتی۔ جو قوموں کے وجود کو “ہونے اور نہ ہونے” کی درمیانی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے- اور قوموں کے تاریخی وجود کا کسی جذباتی اور غیر حقیقی انا کی بھینٹ چڑھ جانا ایک ہی دائرے میں بہت سارے سانحات کو جنم دیتا ہے اور ان سانحات کا خمیازہ اکیسویں صدی میں بھی بیشتر اقوام کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اس دائرے کا سب سے بڑا سانحہ فکری تقسیم کے ساتھ سحر انگیز تخیلاتی رومانس اور منظم استحصال کی بدترین شکل میں انسانوں کی اکثریت پر مسلط ہے۔ اور انسانی معاشرہ بدترین سیاسی،معاشرتی اور معاشی تفریق کا شکار ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا جغرافیہ اور تاریخ ہے۔ مکاتب فکر تک مسلکوں اور فرقوں کی طرح عمل کرتے ہیں۔ اور اوپر سے “یوٹوپیائی مفکر” اس تقسیم کے جلتے عمل پر تیل کا کام کرتے ہبں-

یہ بھی سچ ہے کہ خیالات و احساسات کی افادیت جانچنے کے لیے کوئی مجرد اور مطلق معیار کام نہیں دیتا اور آزادیء  اظہار سے لے کر سیاسی مسلکوں کی پوجا پاٹ تک اکثر گروہ صرف ایک پیمانے کوجانچنے کا معیار ماننے اور سمجھنے سے گریزاں ہیں کہ یہ خیالات نسلِ  انسانی کی بقا میں کس حد تک معاون ہوسکتے ہیں؟ حقیقی تناظر میں خیالات اور احساسات ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنے کی شعوری کاوش ہوتے ہیں نہ کہ ماضی کے مزارات کی پوجا پاٹ۔۔ لیکن ہمارے ہاں ان مزارات کی پوجا پاٹ کو ایک مقدس فریضہ گردانتے ہوئے  اصل اہداف سے شعوری اور لا شعوری طور پر صرف نظر کیا جاتا ہے- فکری سانحات کے دائروں کے اندر ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جاننے والے بتانا نہیں چاہتے اور اپنی سوچ کو وقت کی لہروں کے سپرد کر دیتے ہیں اور اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے  بھی کہ انسانی تاریخ میں یا تو انسانوں نے اپنے ارد گرد کے حالات کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی یا پھر اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ دونوں صورتیں زندگی گزارنے کے لیے ہی ہیں لیکن معنی کے اعتبار سے انتہائی مختلف۔ یہ جاننے والے دوسرے راستے کو پہلے راستے پر ترجیح دیتے ہیں-

یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کوئی مقدس صحیفہ نہیں ہوتی کہ جس کو یقین کامل کے ساتھ ایمان کا ایک لازمی جزو مان لیا جا‌ئے اور یہ بھی ایک عام فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ تاریخ حقیقی معنوں میں نہ ہی تو اپنے آپ کو دہراتی ہے ‎‌اور نہ ہی کوئی مقدس صحیفہ ہے۔ بلکہ یہ پُرپیچ دائروں پر مشتمل آگے بڑھتا ہوا متضاد عوامل کا مجموعہ ہے جو ہمیشہ آگے کی جانب محو ِ سفر رہتا ہے، ہاں البتہ اس تسلسل کی ہر اکائی اپنے سے گزشتہ اور آئندہ اکائیوں سے باہم منسلک ہوتی ہے۔ جو واقعات کو ان کے اصل تناظر میں سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے۔‎

دیانتداری کا تقاضا ہے کہ تاریخ کو اس کے اصل تناظر میں پڑھا اور سمجھا جائے تاکہ یہ عمل ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہو نہ کہ اپنی مرضی کی تشریحات کر کے مسخ شدہ تاریخ کے چہرے کو زید کالک زدہ کیا جائے۔ یہ عمل بعض پیچیدگیاں پیدا کرنے کی ایک سعئ لا حاصل تو ہو سکتا ہے لیکن اصل اہداف کی طرف جانے والے رستے کو سہل نہیں بنا سکتا۔

تاریخ کو سمجھنے میں ایک زیادتی اس وقت کی جاتی ہے۔جب تاریخی حقائق کو زمان و مکاں کے دائروں سے الگ کر کے اپنی مرضی و منشا کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ دانستہ طور پر ایک منفی عمل ہے کیونکہ جب تک تاریخی حقائق کو کسی خاص زمانے اور حالات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے – درست نتائج اخذ نہیں کیے جا سکتے- حقیقت یہ ہے کہ تاریخ زمان و مکاں دونوں کے زیر اثر ہوتی ہے اور کسی مخصوص دور کے واقعات کی تشریح اس وقت تک غیر حقیقی ہوتی ہے جب تک کہ ان مخصوص حالات کا ادراک نہ ہو۔

اس لیے کہ اور بہت ساری سچائیوں کے ساتھ تاریخی سچائیاں بھی کوئی ابدی یا حتمی نہیں ہوتیں  بلکہ وقتی اور علاقائی ہوتی ہیں اس لیے حتمی سچائی کو کسی ایک تاریخی واقعے میں تلاش کرنا سعئ لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں- ہاں البتہ بہت ساری وقتی اور علاقائی سچائیوں کے بکھرے ٹکڑوں کو باہم جوڑ کر “سچ” یعنی معاشی’ سیاسی’ فکری یا نظری حقیقت کے قریب ترین پہنچا جا سکتا ہے۔

تا ریخی حقائق کو جاننے کے عمل میں ایک خطرناک رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ تاریخ کو تعصب کی عینک لگا کر اپنی مرضی کے کردار تخلیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو کہ علمی، سائنسی، حقیقی اور مادی نقطہء نظر سے انتہائی نا مناسب رویہ ہے۔ اس عمل سے نہ صرف یہ کہ تاریخی کرداروں کی اصلیت مشکوک ہو جاتی ہے بلکہ یہ عمل علمی بددیانتی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ جس کے سبب سچائی کی تلاش کا سفرمزید کٹھن ہو جاتا ہے۔ دوسرا رجحان جو زیادہ خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ میں حقائق کو سمجھنے کے بجائے اس نقطے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ اصل حقائق کو جھٹلایا کیسے جائے جو نہ صرف سائنسی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اخلاقی گراوٹ کا بھی مظہر ہے-

آگے بڑھنے کے لیے عہد حاضر کی سچائیوں کو جاننا اور تعصب کی عینک کو اتار کر ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ ضروری ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر کو یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ جب عہد حاضر کے چیلنجز کا سامنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے تو ہم ماضی کے کسی من گھڑت قصے کہانی کو اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے کر استعمال کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب کہ  حقیقت یہ ہے کہ جو اقوام صرف ماضی کے گرداب میں الجھ کر رہ جاتی ہیں وہ لمحہ موجود کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اگر رکھتی بھی ہیں تو بھی ان کی توانائیاں عہد ِ موجود پر صَرف ہونے کے بجائے عہد ِ رفتہ اور عہدِ  حاضر میں منقسم ہونے کی وجہ سے باقی اقوام کے مقابلے میں کمزور ہو جاتی ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے  کہ گاڑی چلاتے وقت ڈرائیور کی توجہ کا بڑا مرکز سامنے والا رستہ اور ونڈ اسکرین ہوتی ہے۔ اور بیک مرر اور سائیڈ مرر صرف ضرورت کے وقت استعمال ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مستقبل پر نظر رکھنے والی اقوام بھی ونڈ اسکرین(آگے کی طرف) پرنظر رکھتی ہیں۔ اس لیے کہ بیک مرر (ماضی) پر لگاتار توجہ مرکوزرکھنے کا مطلب ایکسیڈنٹ ہوتا ہے۔

وہ نقطہ جس کی طرف دھیان دینا سب سے ضروری ہے وہ ہے درباری تاریخ اور حقیقی تاریخ میں فرق کرنے کا ہنر۔ ہر عہد میں بالادست طبقات اور اشرافیہ کے درباری مورخین کی ایک فوج پل رہی ہوتی ہے جو ریاستی جبر کا شکار ہو کر یا پھر چند نقرئی سکوں کے عوض متاع لوح و قلم بیچنے پر مجبور ہو جاتی ہے یا بکنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ عمل تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے کا موجب بنتا ہے اور ظالم اشرافیہ کو آنیوالی نسلوں تک ایک ہیرو کی شکل میں پہنچانے کا گھناونا کھیل  انسانی معاشرے کی سماجی تقسیم کی طرح تاریخ کی تشریح بھی تقسیم ہے۔ بالادست طبقات کا تاریخی وژن محلات کے جھوٹے قصیدوں کے سوا کچھ بھی نہیں –حقیقی مادی تاریخ طبقاتی کشمکش کے ایک لا متناعی سلسلے کا نام ہے اور یہ کشمکش شروع سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پیداواری عمل کے نتیجے میں ذخیرہ اندوز دولت کو مساویانہ انداز میں تقسیم کر کے’ استحصالی نظام کا خاتمہ اور غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں نہیں آجاتا۔

تاریخ میں موجود طبقاتی کشمکش کے محرکات کے تانے بانے ہر عہد میں بالا دست طبقے کے بنائے  گئے  استحصالی نظام سے جڑتے ہیں۔ برابری اور سماجی انصاف کے حصول کی جنگ کو ہر عہد کے حکمرانوں نے اپنے طبقاتی مفاد کی خاطر ریاستی طاقت کے بل بوتے پر کُچلنے کی کوشش کی۔ اس عمل میں درباری ملاؤں، پنٌڈتوں اور پادریوں نے ہر عہد میں اپنے مذہبی رتبے کو بادشاہ وقت کے استحصالی نظام کو درست ثابت کرنے کے لیے زیرِ دست طبقے کے خلاف استعمال کیا۔ اور یہ روش آج کے عہد میں بھی جاری ہے۔

اس فکری بحث کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے  کہ ہمیں بحیثیت انسان تاریخ کی ملکیت کا دعویدار بن کر ماضی کے مزاروں کو کھود کر ہڈیوں کے ڈھانچوں کو اپنی پسند کا شاہکار بنانے کی ناکام سعئ کرنے والا گورکن بن جانا چاہیے- بلکہ تاریخی کرداروں کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے  ان کی اصلیت کے ساتھ پہچاننا اور جاننا ضروری ہوتا ہے۔ تاریخ کے غلط کرداروں کا دفاع ایک اور فکری مغالطے کو جنم دبتا ہے اگر ہم اپنی تعفن  زدہ غیر حقیقی تاریخ کی ملکیت کے حق سے دست بردار ہو جائیں اور اُسے قابل یقین سائنسی طریقہ کار کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کریں تو نہ صرف ہمارے بہت سے عقلی و فکری مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ ہم اپنے مستقبل کی بہتر تشکیل کر سکتے ہیں۔تاریخ کو اس کی اصل شکل میں نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کام انسانوں کے اُن گروہوں کے لیے  اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جن کی تاریخ کے دھارے ایک سے زیا دہ تاریخوں سے جُڑے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہا جاتا ہے کہ تاریخ آئینے کا کام کرتی ہے- تو صاحب،جب آئینہ پہلے ہی اتنا دھندلا ہو، اوپر سے چہرے بھی مسخ کر دئیے جائیں تو ایسا مبہم شاہکار تراشنے سے بھلا کیا حاصل؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply