ذہانت (49) ۔ پہنچ/وہاراامباکر

مئی 2015 کو نیویارک میں ایک شخص نے ہتھوڑی سے ایک بیس سالہ نوجوان کے سر پر وار کیا۔ اس سے چھ گھنٹے بعد پارک میں بیٹھی ایک خاتون کو ہتھوڑا دے مارا۔ اس سے چند منٹ بعد راہ چلتی 33 سالہ خاتون کو نشانہ بنایا۔ کیمرہ کی فوٹیج اس کو شناخت کیا گیا۔ چہرہ پہچاننے والی ٹیکنالوجی نے اس کو ڈیوڈ بارل کے طور پر پہچانا۔ اس کو بائیس سال کی قید کی سزا ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پرانے غیرحل شدہ کیس بھی اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حل ہوئے ہیں۔ 2014 میں الگورتھم ایک مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جو کہ پندرہ سال سے جعلی نام کے ساتھ روپوش تھا۔ اغوا اور ریپ کے جرم کا ارتکاب کر کے اس نے فرار ہو کر جعلی پاسپورٹ بنوایا تھا۔ پاسپورٹ ڈیٹابیس میں سے الگورتھم نے اس کی شکل کو میچ کر کے معلوم کر لیا کہ وہ ایک مختلف نام کے ساتھ نیپال میں رہائش پذیر ہے۔
لندن میں 2017 میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں لندن برج پر آٹھ لوگ مارے گئے تھے۔ یہ حملہ کرنے والا یوسف زغبہ اٹلی میں مشتبہ افراد کی فہرست میں تھا۔ اگر چہرے پہچاننے والی ٹیکنالوجی زیرِاستعمال ہوتی تو وہ اس حملے سے پہلے ہی پکڑا جاتا۔
لیکن یہاں پر سوال یہ ہے کہ سیکورٹی، انصاف اور پرائیویسی کے درمیان توازن کیسے رکھا جائے؟ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق الگورتھم نے 2015 میں 1700 افراد کی شناخت کی جن میں سے 900 گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پانچ غلط تھیں۔ جرائم کی روک تھام کے لئے کیا یہ تناسب قابلِ قبول ہے؟
جرائم سے نپٹنے میں الگورتھم کئی طرح سے مدد کر سکتے ہیں لیکن ان میں پریشان کن چیزیں بھی ہیں۔ اور اس وجہ سے ریگولیشن، قوانین اور informed مباحث ضروری ہیں۔ الگورتھم کی موجودگی ہی ایسے سنجیدہ سوال اٹھاتی ہے جن کے آسان جواب نہیں۔
کیا ہمیں صرف وہ الگورتھم قبول کرنے چاہئیں جن کو ہم سمجھ سکیں؟ جن کے اندر دیکھ سکیں؟ اس کا مطلب ان کی proprietary حیثیت ختم کرنا ہو گا اور اس کا مطلب ان کی افادیت اور اثر کم کرنا ہو گا۔ کیا ہمیں ایسے ریاضیاتی سسٹم مسترد کر دینے چاہئیں جو کہ کسی بھی طرح کا تعصب رکھتے ہوں؟ یا ان کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ غلطی کا امکان رکھتے ہوں؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کو پرکھنے کا معیار انسانی سطح سے کہیں زیادہ اوپر ہو گا۔ اور کتنا تعصب جائز ہے؟ ایسے جرائم جو روکے جا سکیں، ان میں جرم کا شکار اور الگورتھم کا شکار ہونے والوں میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان جوابات میں فیصلہ اس بنیاد پر ہو گا کہ کامیابی کسے کہتے ہیں؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ جرم کو کم سے کم رکھنا؟ یا بے قصور کی آزادی کو باقی سب پر ترجیح دینا؟ کس چیز کو کتنا قربان کیا جا سکتا ہے؟
پروفیسر گیری مارکس اس کو اپنے انٹرویو میں ایسے بتاتے ہیں۔ “سوویت یونین میں street crime بہت کم تھا۔ لیکن عوام پر جابرانہ کنٹرول اور شخصی آزادی کے حساب سے یہ ایک بدترین معاشرہ تھا۔ جرم کم کرنے کے لئے میں ہرگز اتنی بڑی قیمت دینے کا نہیں سوچ سکتا”۔
الگورتھم کی پہنچ کی حدود طے کرنے میں یہ فیصلے ہیں کہ کس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ الگورتھم ایسا نہیں کر سکتا بلکہ اس لئے کہ کچھ چیزوں کو جذبات سے عاری مشینوں کی پہنچ سے باہر رکھنا چاہیں گے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply