’’زرد موسم کی یادداشت (علامتی خودنوشت)‘‘ – ارشد رضوی …تحریر:فیصل عظیم

ارشد رضوی کی تصنیف ’’زرد موسم کی یادداشت‘‘ (علامتی خودنوشت) ایک منفرد کتاب ہے۔ یہ بات مجھ سے ناول نگار، خاکہ نگار، کالم نگار اور معلّم، محترمہ نوشابہ صدّیقی نے اپنے کینیڈا قیام کے دوران کہی تھی۔ اور اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں ان سے متّفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ یہ غیر روایتی تصنیف ہے، جو ایک یا دو صفحے کی یادداشتوں اور داخلی وارداتوں پر مشتمل ہے جن کو کوئی عنوان نہیں دیا گیا۔ ان میں سے غالباً کوئی تحریر دو صفحوں سے زیادہ طویل نہیں ہے۔

کتاب کا زیریں عنوان تو ’’علامتی خودنوشت‘‘ ہے مگر یہ خودنوشت مروجّہ صنفی معنی میں خودنوشت نہیں ہے۔ اسے آپ خودنوشت سوانح عمری یا واقعاتی خودنوشت سے مختلف پائیں گے کیونکہ یہ نگارشات خود نوشت کے اسلوب میں نہیں ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ خودنوشت کا کون سا اسلوب ہوتا ہے۔ تو وہ بھی ٹھیک ہے، نہیں ہوتا، مگر غیرمتعیّن انداز اور اسالیب کے باوجود، خودنوشت کا ایک بیانیہ انداز تو ہوتا ہے۔ اگر بیانیے نہیں تو فکشن یا کسی اور انداز میں بھی خودنوشت لکھی جاتی ہے مگر خودنوشت کا ہر ٹکڑا اپنے اندر بہرحال ایک واقعاتی تسلسل رکھتا ہے، چاہے ان ٹکڑوں کا آپس میں ربط ہو یا نہ ہو۔ اس سے آپ کو کسی شخص، واقعے، ماحول، حالات یا تاریخ وغیرہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات حاصل ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ ورنہ کم سے کم کسی کے نقطۂ نظر سے ہی آگاہی ہو جاتی ہے اور آپ اُسے ڈائری کی طرح ذاتی ایف آئی آر بھی کہ سکتے ہیں۔ لیکن زیرِ نظر تصنیف میں ایسا کچھ نہیں ملتا سوائے زندگی کے المیے کے جو کسی افسانے، ناول، نظم یا شعر کا خلاصہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اسے خودنوشت کے بجائے صرف یادداشت کہنا زیادہ بہتر ہوگا جو اس کا بنیادی عنوان بھی ہے۔

یہ کتاب دراصل ڈائری یا نثری بیاض کے اوراق جیسی یادداشتوں کا مجموعہ ہے اور اس ’’علامتی خودنوشت‘‘ میں علامتوں کا ایک عجائب خانہ ہے۔ اسے علامتی افسانے کے انداز میں لکھا گیا ہے جس کا مزاج کہانی یا افسانچے کے علاوہ کہیں کہیں نثری نظم جیسا بھی ہوجاتا ہے۔ شعور کی رو میں لکھی ان تحریروں میں دیگر موضوعات بھی ہیں مگر زیادہ تر کسی کی جدائی کے دکھ اور ذاتی المیوں کا اظہار ہے اور متواتر ان لوگوں سے مکالمہ ہے جو مصنّف کی زندگی سے جا چکے ہیں۔ یعنی بنیاد یادِ ماضی پر ہے جس میں موت، یاسیت اور ان سے جڑے احساسات کا اظہار ہے بلکہ اچھا خاصہ جنسی کیتھارسس بھی ہے۔ اس میں واحد متکلّم خود کلامی کے ساتھ ساتھ، تصوّر میں ان لوگوں سے استعاروں اور علامتوں کی زبان میں گفتگو کرتا ہے جو بچھڑ چکے ہیں، مثلاً کوئی دوست، محبوب، ماں، بچّہ جو پیدا نہیں ہوا یا نوزائیدہ دنیا سے چلا گیا۔ بعض اوقات یاد آنے والے ’’جو غم ہوا اسے غمِ جاناں بنا دیا‘‘ کے مصداق کسی ایک مخاطَب میں جمع ہوجاتے ہیں اور یہ جاننے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ روئے سخن کس کی طرف ہے۔ بچے، ماں، شریکِ حیات، مرد یا کسی اور شناسا کی طرف! یہ حسنِ اظہار ہے جو پیچیدہ بھی ہے اور سحرانگیز بھی۔ اس میں بہت تکلیف اور اذیّت کے ساتھ پیاروں کی موت اور اس سے پیدا اندرونی کیفیات کو تخلیقی پیرائے میں لکھا گیا ہے جس میں گزری باتوں کے ساتھ فرضی یا تصوّراتی یادیں بھی آگئی ہیں۔

 

ان تحریروں میں آپ کو لفظوں کی جاندار مصوّری ملے گی۔ جیسے بہت سی چھوٹی چھوٹی تصویریں مل کر مونتاج بنائیں اور پھر منظر پھیلتا چلا جائے۔ مگر یہ سب ایک داخلی مشاہدے کی حدود میں ہوتا ہے۔ یہاں صرف منظر اور پس منظر ہی داخلی مشاہدے کے دائرے میں نظر ہیں بلکہ پوری تحریر ہی داخلی کیفیات کے حلقے میں مقیّد ہے اور لکھنے والا ایک سحرزدہ مگر دکھ بھری فضا میں اپنے خیالات کا پیچھا کرتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی کبھی کہانی سناتا شخص اپنے ہی گھر کو اجنبی کی طرح دیکھتا نظر آتا ہے۔ مگر انِھیں داخلی احساسات کی دنیا میں یوں بھی ہوا کہ وہ خواب خرام اچانک اردو بازار اور بندر روڈ پہنچ گیا (صفحہ ۱۱۹) یا ایک جگہ پامال ہوئے تین ہٹّی جیسا منظر دکھا گیا (جو میرا پرانا محلّہ تھا)۔

لگتا ہے کہ مصنّف نے اپنے خوابوں کو من وعن رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی اپنے لاشعور میں جھانکنے اور اس کی تصویریں بنانے کی ایک کامیاب شعوری کوشش جس میں جنسی تجربے، واردات اور ان کے نفسیاتی پہلو حاوی ہیں۔ ایک مسافر پے جو شہر اور دیہات کے درمیانی راستے میں ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے، اس کی لذّت کو جاننے اور اذیّت کے ملے جلے تجربے کرنے میں مگن ہے۔ خیالات کا سلسلہ ایسا ہے کہ بات سے بات نکلتی ہے، لفظ سے لفظ اور خیال برآمد ہوتے ہیں اور خیال سے لفظ ہاتھ بدلتے جاتے ہیں، جملے بنتے جاتے ہیں اور یوں کوئی تصوّر میں ڈوبا، اپنی بے ربط کہانی سناتا چلا جاتا ہے۔

ارشد رضوی کے ہاں زبان کے استعمال میں دانستہ بغاوت کا عنصر ملتا ہے۔ کچھ تو نسبتاً مستعمل روز مرّہ ہیں جیسے نظر آتا کو نظر پڑتا، سنائی پڑتا، دکھائی پڑتا وغیرہ کا استعمال لیکن ان کے علاوہ کچھ قابلِ ذکر مثالیں بھی ہیں جیسے بوڑھے یا عمر رسیدہ کو بُڑھایا ہوا، گونگے کو گونگیایا ہوا، نارنجی کو اورنجی اور خشک سالی کی جگہ سوکھا یا سوکھا لگی زمین لکھنا۔ ان کے ہاں علامتوں اور استعاروں کی ایک زنجیر ہے مگر یہ ان کے اپنے استعارے اور اپنی علامتیں ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اور یہی وہ انداز ہے جو ان کی نثر کو جدید نثری نظم کے قریب لے جاتا ہے۔ ان کے ہاں ہر چیز، ہر خیال، ہر مظہر اور ہر احساس ایک شخصیت، ایک کردار کی طرح نظر آتا ہے، جیسے دکھ، آسمان، خوشی، دھوپ اور خاموشی۔ اس کی ایک مثال صفحہ ۹۹ پر دھوپ کی شخصی تجسیم اور منظرکشی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ارشد رضوی کے بہت سے پسندیدہ استعارے اور علامتیں ہیں مگر ان کے معنی متعیّن نہیں بلکہ بدلتے رہتے ہیں، جیسے ندّی، پرندوں کی چہچہاہٹ، ہونٹوں کی دبازت اور رنگ، خصوصاً زرد اور سرخ رنگ اور عورت اور اس کا جسم، اعضا کی حرکت کی مچھلیوں سے مشابہت، بُو، کیڑے، سیڑھیاں، کیکٹس، دھبّے، باغ، بارش وغیرہ۔ یہ سیال معنویت ان کی تحریر کو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے آس پاس خراماں رکھتی ہے جس میں یاسیت سے لایعنیت تک بلکہ لغویت (absurdity) تک کا سفر بھی موجود ہے اور زندگی کا فریب در فریب جبر بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مصنّف نے فطرتاً اداس اور زندگی کی یکسانیت سے چڑے ہوئے، اکتائے ہوئے بلکہ عاجز آئے دل کی ترجمانی کی ہے جو ہر ممکن شے، جذبے، رویّے اور زندگی کے مظہر سے باغی ہے۔ جو ہمیں اپنی قنوطیت اور المیوں کی تصویرکشی سے شوپنہار کی یاد دلاتا ہے کہ ان تصویروں میں سفّاک اذیّت پسندی کی لہریں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ کتاب پڑھیے تو لگے گا کہ پورے ماحول پہ دھواں چھایا ہوا ہے جسے آپ خواب ناکی بھی کہ سکتے ہیں اور قبرستان کا سوگ بھی۔ یوں بھی شاید موت ہی ان تحریروں کا اصل محرّک ہے جس کا قریبی تعلّق خون اور جگر سے ہے۔ شاید اسی لیے خون کا رنگ پوری تحریر پہ چھایا ہوا ہے۔ حتّٰی کہ ان کے حسن اور جنس کے استعاروں میں بھی ہمیں خون کا تیز سرخ رنگ دکھائی دیتا ہے۔ یا پھر زردی مائل اور تنہائی کا ڈسا ہوا یرقان زدہ رنگ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے۔

اس یادداشت کے موضوعات میں معاشرے کے المیے بھی ہیں اور جبر کے ماحول یا تہمتوں کی نذر ہونے والی عورت بھی۔ ہونٹ اور ہونٹوں کی سرخی ان کے ہاں شدید جنسی جذبے کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے اور بیزاری کا بھی۔ ان کے ہاں عورت جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ وہ اکثر کسی عورت کو مرد کا منتظر پاتے ہیں اور بعض اوقات خود اپنی جنسی تشنگی کو عورت کی جنسی تشنگی کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ اس خودکلامی میں علامتوں اور استعاروں کے ذریعے درمیانی عمر کے جنسی، ازدواجی مسائل کا اظہار بھی ملتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود ان کی تحریروں میں آپ کو جنسی تلذّذ نہیں ملے گا۔

ارشد رضوی کی تحریروں کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ بغیر تکلّف اور جھجھک کے، سب کچھ عریاں کرکے لکھ دیتے ہیں، کسی کی پروا کیے بغیر اور شاید کسی مصلحت کے بغیر۔ صفحہ ۸۶ پر وہ معاشرے کے ٹھیکیداروں پر ممنوعہ سوالات اٹھاتے نظر آئیں گے تو کسی جگہ ایک مختلف انداز سے جسم فروشی کی علامتوں کی منظرکشی کرتے ملیں گے بلکہ بار بار ملیں گے۔ وہ پھیلتے شہروں کے فشار کو رقم کرتے ہیں اور فطرت کی اس پامالی پر شہروں سے نالاں ہیں۔ انھیں شہری زندگی کے شور میں انسان کے ہاتھوں زخمی فطرت اور آلودہ مستقبل کا نوحہ سنائی دیتا ہے اور مادّیت پرستی کے نیچے دبی انسانی زندگی اور کچلے ہوئے رومان کی سسکیاں بھی۔ مگر وہ یہ سب کچھ بغیر شور مچائے لکھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک جگہ تخلیقی بنجرپن کا ذکر کرتے ہیں تو ایک اور جگہ تخلیقیت کا ذکر ایسے کرتے ہیں کہ یونانی اسطورہ کے کردار Philoctetus کی یاد دلا دیتے ہیں (صفحہ ۱۱۷) جس کے پیر کے زخم کی بدبو لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھی مگر اس کی تیراندازی کی وجہ سے اسے برداشت کیے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔

اگر آپ کو میرے تاثرات سے وحشت ہو رہی ہے تو بھی یقین کیجیے کہ آپ کتاب پڑھ کر اس سے لطف اندوز ہی ہوں گے کیونکہ اس کا اسلوب اور تخلیقی وفور دل گرفتہ بھی ہے اور دلکش بھی جس میں کہیں کہیں آپ کو خلیل جبران کی فکرانگیزی کا احساس بھی ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صفحہ ۴۱ پر وہ یاسیت اور لایعنیت سے اچانک زندگی کی طرف جست بھی لگاتے ہیں جو ان کے اندر کی روشنی کی چغلی کھاتی ہے۔ اور تو اور، کتاب کے اختتام پہ لکھنے والا خوشبودار باغ میں ایک کھلتے پھول پہ آکر اپنی بات مکمّل کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ تخلیقی قوّت کسی بیمار ذہن کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک باضابطہ شعوری اظہار ہے۔ یعنی بالآخر یہ سلسلہ رجائیت پہ آکر ختم ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات طویل ہوگئی ہے اس لیے میں کتاب سے کچھ نقل نہیں کر رہا۔ میرے خیال میں صفحہ ۱۲۷ کی ابتدائی سطریں ان کے فکری پس منظر کا خلاصہ ہیں۔ آخر میں یہ کہتے ہوئے کہ اس کتاب کو پڑھ کر آپ ارشد رضوی صاحب کی تخلیقی وسعت کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اس کتاب کا ترجمہ ہونا چاہیے اور اسے دیگر زبانوں کے پڑھنے والوں تک پہنچنا چاہیے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply