ایک شام فلم انڈسٹری کے نام

پاکستان کلب آف کینیڈا کے زیر اہتمام فلم انڈسٹری کے ساتھ گزاری گئی اس شام میں رنگ و نور کی ایک کہکشاں تھی ۔نامور سماجی اور فلمی ہستیوں سے مزین اس شام کو یادگار بنانے کا سہرا سب کے ہر دلعزیز بدر منیر چوہدری کو جاتا ہے۔ ساؤتھ مل وے کمیونٹی ہال ،مسی ساگامیں منعقدہ اس محفل میں لوگوں کی بھرپور شرکت اس بات کی غمازی ہے کہ دیس سے دور بسے لوگ اپنی مٹی ،اپنی تہذیب و ثقافت سے ہر قیمت پر جڑے رہنا چاہتے ہیں ۔اس قسم کی سماجی تقریبات نا صرف مل بیٹھنے کا ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہیں بلکہ کمیونٹی کو آپس میں جوڑے بھی رکھتی ہیں۔تقریب کے باقاعدہ آغاز سے پہلے جب ابھی مہمانانِ خصوصی تشریف نہیں لائے تھے ایک اچھی روایت کی طرح بدر منیر چوہدری نے ڈالی وہ ہال میں موجود تمام شرکا کا اپنا تعارف پیش کرنا تھا ۔معروف سماجی ورکر بھٹی صاحب نے بدر منیر سے کہا ،کہ ذیادہ تر لوگوں سے آپ واقف ہیں تو آپ ہی تعارف پیش کردیں ۔بذلہ سنج اور کمال کے حاضر جواب بدر منیر نے بات کو ہنسی میں اڑاتے ہوئے کہا جی میں سب کو جانتا ہوں اور اگر جو کچھ میں جانتا ہوں اس طرح سے تعارف کرواؤں تو شائد آپ اپنا وہ والا تعارف سننا پسند نہ کریں ۔فلک شگاف قہقہے بلند ہوئے۔ سب کے تعارف پر کوئی نہ کوئی مزے کا شگفتہ جملہ چوہدری صاحب کی طرف سے عنایت ہوا اور لوگوں نے ہنسی خوشی ایک دوسرے کے بارے میں مختصراََ جانا۔
یہ تقریب پاکستان سے تشریف لائے ہوئے معروف فلمساز اور ایک فلمی گروپ چوہدری فلمز سے وابستہ جناب اعجازکامران کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی جو کینیڈا میں فلم سازی کے موجود مواقع اور مستقبل میں شروع کیے جانے والے پراجیکٹس کے متعلق تھی۔تقریب کی صدارت نامور موسیقار اور پاکستان کی پہچان اور پچھلی کچھ دہائیوں سے کینیڈا کو اپنا دوسرا گھر بنائے ہوئے جناب سہیل رعنا نے کی ۔دیگر مہمانان میں قونصل جنرل عمران صدیقی ،ممبر پارلیمنٹ اقرا خالد ، معروف گلوکار شوکت علی کے صاحبزادے محسن شوکت علی شامل تھے جبکہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو اپنی اپنی فیلڈ میں بہت نامور ہوچکے اور اس تقریب کو چار چاند لگانے کے لئے تشریف لائے تھے سب کے نام فرداََ فرداََ لکھنا توممکن نہ ہو مگر ان ان تمام لوگوں نے اس شام کو خوبصورت بنایا جس کے لئے ان تمام مہمانان کا تہہ دل سے شکریہ۔
سب سے پہلے اظہار خیال کی دعوت نوجوان گلوکار محسن شوکت علی کو دی گئی جو اپنے والد شوکت علی کی طرح اونچے سروں اور بلند گلے کا مالک فنکار ہے ،محسن نے پاکستانی فلم انڈسٹری کا مختصر احوال اور اپنے خاندان کی فلمی خدمات کا تذکرہ کیا ۔شاہ نور اسٹوڈیو اور ایورنیو اسٹوڈیو میں بیتے اپنے بچپن کے دنوں کی باتیں جب وہ ملکہ ترنم اور صبیحہ خانم جیسی نامی گرامی آرٹسٹس کی گود میں کھیلا کرتا تھا اور ساری فلم انڈسٹری ایک فیملی کی طرح کام کرتی تھی ۔ محسن شوکت علی کی آواز میں کلام میاں محمد بخش ، چھلاــ اور جاگ اٹھا ہے سارا وطن اور وہ بھی بنا ساز کے صرف اپنی آواز کے بل بوتے پر ایک خاصے کی چیز تھی۔
تقریب کے مہمان خصوصی جناب اعجاز کامران نے مختصراََ پاکستانی فلم انڈسٹری ماضی کے آئینے میں اوراسکی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالی۔چوہدری فلمز سے تعلق رکھنے والے اعجاز کامران اپنے اس خاندانی پروڈکشن ہاؤس کی اگلی نسل کے نمائیندہ ہیں جو ۱۹۵۸ سے پاکستان انڈسٹری کو یکے بعد دیگرے اردو اور پنجابی ہٹ فلمیں دے چکی ہے ۔ آج کل پاکستانی فلم انڈسٹری کی دوبارہ بحالی میں کوشاں اعجاز کامران اور ان کے دیگر ساتھی پروڈیوسرحضرات پاکستانی فلم بینوں کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ جیتنے کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ نئی نسل کو اپنے کلچر اور اپنی تہذیب سے جوڑے رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ معیاری تفریح اور ساری فیملی کے ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھنے والی فلمز پر کام کرنا ان کا مطمع نظر ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور مشرقی اور مغربی پنجاب میں رہنے والے پنجابیوں کو ذہن میں رکھ کر یہاں فلموں کی شوٹنگ اور ریلیز یقیناََ پاکستانی فلم انڈسٹری کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کرسکتی ہے۔ اور ہمارے فنکاروں کو کام اور نام کی تلاش اورفکر ِمعاش کے لئے ان لوگوں کا دست نگر نہ بننا پڑے جہاں کبھی کبھی جان کے لالےبھی پڑ جاتے ہیں ۔ پاکستانی گلوکار ہمسایہ ملک میں جاکر ان کی فلمز کو سپر ہٹ بنا رہے ہیں اگر یہی لوگ ایک مضبوط کہانی اور معیاری موسیقی اور ہدایت کاری کے ساتھ میدان میں اتریں تو آج بھی پاکستانی ڈراموں کی طرح ساری دنیا میں جہاں جہاں ادب کے چاہنے والے موجود ہیں،پاکستانی فلمیں سب کا دل جیت سکتی ہیں اور پچھلے کچھ عرصہ میں پیش کی جانے والی فلمز دیکھ کر آنے والے دنوں میں اس صنعت میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی فلمی میلوں میں باقاعدگی سے شرکت کی جائے اور اپنی تخلیقات پیش کی جائیں اور اس کے ساتھ فلم فیسٹیول منعقد کرکے ماضی قریب وبعید کی سپرہٹ فلموں کی نمائش کی جائے ۔
قونصل جنرل عمران صدیقی صرف کیرئیر ڈپلومیٹ ہی نہیں بلکہ آرٹ اور ادب کے دریا کے بھی شناور ہیں۔تاریخ کے معتبر و موقر حوالوں پر نہ صرف آگاہی رکھتے ہیں بلکہ اپنے تبحر علمی سے ہر بار حیران کر دیتے ہیں ۔بہت کم سفارت کار اتنی عمدہ معلومات تقریباََ ہر موضوع پر بلا تکان موثر طریقے سے اپنے سامعین تک ابلاغ کر سکتے ہیں۔ فلم اور صوفی میوزک کے حوالے سے ان کا خطاب پر مغز تھا۔ امیر خسرو ، میاں تان سین ،اور برصغیر کے نامور موسیقی گھرانوں پر مشتمل ایک تابناک اور شاندار ماضی ہے جس ورثہ پر ہر پاکستانی کو بجا طور پر فخر کرنا چائیے ۔اس سلسلے میں مزید مغربی ممالک تک اپنی تاریخ و ثقافت کو پرمووٹ کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ انہوں نے ایک پرانی پاکستانی فلم ہمراز کا بھی ذکر کیا جس میں شیزوفرینیا کے مریض کے اوپر ایک پیچیدہ موضوع کو بہت عمدگی سے فلما کر پردہ سیمیں پر پیش کیا گیا ، انہوں نے حاضرین کو اس فلم کو دیکھنے کی دعوت دی ۔ٹورنٹو شہر اور گرد و نواح کے رہائشی پاکستانی بہت خوش قسمت ہیں کہ انہیں اتنا متحرک اور فن سے محبت کرنے والا قونصل جنرل ملا ہے۔
تقریب میں ایک اور اچھی روایت اپنے مہمانوں کی ادبی و ثقافتی خدمات کا سرکاری سطح پر اعتراف کرنا تھا۔ اقرا خالد ممبر پالیمنٹ بطور خاص تقریب میں شریک ہوئیں اور اونٹاریو گورنمنٹ کی طرف سے مجاہد کامران کو اعزاری شیلڈ اور سرٹیفیکیٹ دیا گیا ۔اقرا خالد نے جس تیزی سے کمیونٹی کا اعتماد جیتا ہے اور بطور خاص جس جرات سے تمام ملنے والی دھمکیوں کے باوجود اسلام فوبیا پر اپنا بل ۱۰۳ اسبلی سے منطور کروایا ہے اس شاندار کارنامے پر ان پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ۔بقول بدر منیر چوہدری کے اس بل سے حاصل ہونے والے ثمرات کا اندازہ آج سے دس بیس سال بعدہوگا جو اس بہادر عورت نے انجام دیا ہے۔
سہیل رعنا صاحب پاکستان فلم انڈسٹری کے ان چند ممتاز موسیقاروں میں شامل ہیں جن کی بنائی ہوئی دھنیں نہ صرف اپنے دور میں مقبول عام ہوئیں بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سدا بہار گیتوں کی شکل میں آج بھی اسی وارفتگی اور وفور شوق سے سنی جاتی ہیں۔ بقول محسن شوکت علی ،سہیل رعنا صاحب کا کام اور شخصیت اب اتنی بلند ہوچکی ہے جہاں لفظ لیجنڈ بھی ان کے آگے چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔سہیل رعنا جنہوں نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پرورش پائی جہاں بچپن سے ہی شعر و شاعری کی باتیں ان کو گھٹی میں ملی تھیں وہیں موسیقی سے لگاؤ نے ان کو اپنی کشش سے باندھ لیا اور وہ اس میں کمال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ماسٹر فیروز نظامی جیسے اساتذہ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنا والا انسان موسیقار اعظم نوشاد صاحب کو اپنا روحانی استاد مانتا ہے اور نوشاد صاحب بھی انہیں بن ملے اپنا شاگرد مانتے تھے ۔ فن کی سچی طلب رکھنے والا انسان اپنے استاد سے نسبت کو ہر جگہ فخر سے بیان کرتا ہے اور ہمیشہ اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنا اپنی سعادت ۔ حاضرین میں سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں کہ آپ نے کس کس گلوکار کوتربیت دی تو زیر لب مسکراتے ہوئے سہیل رعنا صاحب نے استاد سلامت علی خان صاحب کا اس سے ملتا جلتا جواب دہرایا جب ان سے بھی کچھ ایسا ہی سوال کیا گیا ۔ کہنے لگے دیکھئے میں آپ کو بتا تو دوں کہ کون کون سے لوگون نے میری شاگردی اختیار کی اور اس فن کے عروج پر پہنچے مگر ایسا نہ ہو وہ ہمیں اپنا استاد ماننے سے انکاری ہوجائیں تو بہتر نہیں آپ کو میں نے اپنے اساتذہ کے بارے میں بتاؤں ،اسی طرح اگر میرے شاگرد سعادت مند ہوں گے تو ضرور اس کو چھپانے کی بجائے ہر جگہ فخریہ بیان کریں گے۔
سہیل رعنا صاحب کا فلمی سفر جو کئی دھائیوں پر مشتمل ہے اس دوران لا تعداد ہم عصر نامور لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اس کی دلچسپ روداد میں سے ان کا فیض صاحب کا ایک واقعہ جو انہوں نے سنایا یہاں آپ کے ساتھ شئیر کئے دیتے ہیں ۔ کہنے لگے فیض صاحب کے ساتھ نشست رہتی تھی ، ایک دن فیض صاحب آئے اور حیرانی سے بولے ،رعنا صاحب آپ کیسے موسیقی ترتیب دے لیتے ہیں بنا بنت عنب کے جب کہ آپ کے دیگر جملہ ساتھی اس کے بنا ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے ۔ میں نے کہا دیکھئے فیض صاحب یوں ہے کہ مجھے موسیقی سے ہی اتنا خمار چڑھ جاتا ہے کہ کسی اور نشے کی طلب اور ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
۱۹ سال تک پی ٹی وی پر بچوں کے لئے موسیقی کا پروگرام کرنے والے سہیل رعنا ہمارے بچپن کی سنہری یادوں کا ایک انمٹ حصہ ہیں جب صرف ایک ٹی وی چینل ہی دستیاب ہوتا تھا اور اس پر چند پروگرام ہی ایسے تھے جو بچوں کی دلچسپی مدنظر رکھ کر بنائے اور پیش کئے جاتے تھے ۔ ہر ہفتے شدت سے ان کے پروگرام کا انتظار کیا جاتا اور پیش کئے گئے نغمے اگلے ایک ہفتے تک گنگنانے کی سعی ناکام کی جاتی ۔فلمی موسیقی کے ساتھ ساتھ ملی اور قومی نغموں کی ایک مالا ہے جو سہیل رعنا صاحبکی لازوال دھنوں سے پروئی ہوئی ہے ۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے ، اور جیوے جیوے پاکستان ایسے قومی گیت ہیں جو ہر قومی تقریب کا جزو لا ینفک بن چکے ہیں۔انہوں نے ایک خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ بہت جلد ان شا اللہ اسی معیار اور پائے کا ایک اور گیت بہت جلد لوگوں کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔
تقریب کے اختتام پر سہیل رعنا صاحب نے اپنی اورہال میں موجود دیگر گلوکاروں کے ساتھ کورس میں بنا کسی ساز کے ہاتھ کی تالی کا سم دیتے ہوئے اپنا مشہور زمانہ گیت اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم گنگنایا اور اس کے بعد سب حاضرین محفل نے با جماعت اپنی دھرتی اپنے وطن کو سلام پیش کیا جیوے جیوے پاکستان گا کر ۔ آخر میں لذت کام ودہن کا انتظام بھی بہت عمدہ تھا ۔ اس خوبصورت شام کا کریڈٹ بدر منیر چوہدری اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے جس نے انتھک محنت سے اسے ایک کامیاب ایونٹ بنا دیا ۔ جس کے لئے تمام مینیجمنٹ کو ڈھیروں مبارکباد۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply