• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈیل کی افواہیں ن لیگ کیخلاف سازش کیوں ؟-ڈاکٹر ابرار ماجد

ڈیل کی افواہیں ن لیگ کیخلاف سازش کیوں ؟-ڈاکٹر ابرار ماجد

ڈیل کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں اور نواز شریف کو جن مقدمات میں ضمانتیں ملیں یا گرفتاری کے آرڈرز معطل ہوئے ہیں ان کی حقیقت کو کوئی خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔ لوگ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کی عدالتی مخبریوں کو بھی بھول گئے ہیں کہ ان کے ان فیصلوں اور سزاؤں بارے کیا انکشافات تھے۔
پاکستانی سیاست میں کچھ سیاسی اصطلاحات کا استعمال بڑی فراخدلی سے ہوتا ہے جن میں ڈیل، مک مکا، دھاندلی اور لاڈلا بہت ہی معروف ہیں۔ اگر دو سیاسی جماعتیں کسی ریاستی معاملے میں اکٹھی ہو جائیں تو ان کے لیے مک مکا کی اصطلاح پکی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر انتخابات سے پہلے خاص مہربانیاں کسی پر ہونی شروع ہو جائیں تو اس کی جیت دھاندلی، ڈیل اور لاڈلے پن کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کئی خوش نصیب ایسی مہربانیوں کے اہل تو ٹھہرے مگر ان کو ہضم کر لینے کی ابھی تک کوئی بھی مثال موجود نہیں۔
ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہے جب عمران خان پر مہربانیاں ہوئیں جن سے انہوں نے لاڈلے کا لقب پایا جو ان کو ہضم نہ ہو پایا اور 2022 تک ان کی مقبولیت انتہائی کم ہو چکی تھی۔ بعد میں ان کی حکومت ختم ہونے اور پی ڈی ایم کے مہنگائی کنٹرول نہ کر پانے سے ان کی مقبولیت پھر سے جاگ اٹھی جس کو وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے سنبھال نہ پائے اور آج پھر سے نواز شریف اور ان کی جماعت کی مقبولیت اوپر جا رہی ہے جس کی بنیاد ان سے وابستہ بہتر معیشت کی امیدیں ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کو بھی اگلی حکومت میں ان کے مناسب حصے کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف چونکہ 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے قانون کی زد میں ہے اور اس کی سینیئر قیادت جماعت کو چھوڑ چکی ہے جس سے ان کے ساتھ ناروا سلوک کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ اسی طرح نواز شریف کی آمد اور مقدمات میں ضمانتوں اور سزاؤں کی معطلیوں سے یہ تاثر بھی ابھارا جا رہا ہے کہ ان کو خاص مہربانیاں حاصل ہیں۔ اس طرح کے تاثرات انتخابات کے پراسیس کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور غیر جانبداری و شفافیت مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان اس وقت جس معاشی امتحان سے گزر رہا ہے ایسے میں اس طرح کی افواہوں اور لغزشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے ملک کی باگ ڈور منتخب حکومت کو سونپی جانی چاہئیے تا کہ جمہوریت کو نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔ ادارے نیوٹرل ہونے سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے تو اس سے اس طرح کا تاثر پیدا کرنا اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے کے متبادل ہے۔ اس طرح کی افواہوں پر حکومت اور الیکشن کمیشن کو بھی ایکشن لینا چاہئیے اور اگر ضروری سمجھیں تو تحقیق بھی کروانی چاہئیے۔ میڈیا کو بھی اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے بے بنیاد الزامات سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ عوام اور ریاست کے اداروں کو مل کر اس طرح کی سازشی تھیوریوں سے نمٹنا ہو گا۔
نواز شریف بھی اس تاثر کو قطعاً اپنے حق میں نہ سمجھیں، یہ ان کے خلاف کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازش بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے ان کے ساتھ کی گئی تمام زیادتیاں جن پر ان کو عوام سے ہمدردیاں ملنی تھیں ان سے مکمل توجہ ہٹتی جا رہی ہے۔ گویا لوگ ان سے کی گئی زیادتیوں کو تو بھول ہی گئے ہیں۔ ہر کوئی ضمانتوں اور آرڈرز کی معطلی کی بات تو کرتا ہے مگر جن مقدمات میں ضمانتیں ہوئیں یا آرڈرز معطل ہوئے ہیں ان کی حقیقت کو کوئی خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔ لوگ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کی عدالتی مخبریوں کو بھی بھول گئے ہیں کہ ان کے ان فیصلوں اور سزاؤں بارے کیا انکشافات تھے۔
وہی مقدمات ہیں، وہی عدالتیں ہیں مگر صرف اداروں کے سربراہان بدل جانے سے ملکی حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اور اس کا فائدہ نواز شریف کو ہی نہیں، ہر ایک کو ہو رہا ہے۔ نیب قوانین میں ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد سے اب تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ دراصل پہلے حالات خاص سوچوں کے زیر عتاب تھے اور ان کو جیسے ہی آزادی ملی تو اس سے تبدیلی واقع ہونے لگی۔ ان حالات کا اثر ہی تو ہے کہ اختیارات کے محور تک بدل گئے ہیں اور ججز اور جرنیلوں کے احتساب کی باتیں ہونے لگی ہیں اور انہی تبدیلیوں سے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے بھی کالعدم ہوئے۔ نیب کی سربراہی بدلنے سے وہ پہلے والی نیب کے کارناموں کا وزن اٹھانے سے معذرت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب بڑی بڑی فائلیں ثبوتوں سے خالی ہوں تو محض ان کے وزن کو تول کر تو کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی اور نا ہی سابقہ لوگوں کی وفاداریوں کی تاب کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر ان فائلوں میں ثبوت ہوتے تو پچھلی حکومت اپنے دور میں ہی سزائیں دلوا چکی ہوتی جب ساری انگلیاں گھی میں تھیں اور سب ان کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔
ماضی کی سیاسی ثقافت اور تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابات میں جس رہنما کی حمایت میں ہمدردیوں کی ہوا چلی اس کو فائدہ ہوا مگر جس پر مہربانیوں کی خبریں چلیں وہ متنازع بن گیا۔ اس لئے اس طرح کے تبصروں سے سیاسی جماعتوں اور عوام میں تشویش سے نواز شریف کو فائدہ عارضی اور کم ہو گا مگر نقصان زیادہ پہنچنے کا خدشہ ہے بلکہ جمہوریت کے مستقبل کے لئے بھی اچھا نہیں۔
لہٰذا جیسے بھی ہو نواز شریف صاحب کو اپنے بارے ایسی خبروں یا تجزیوں سے ابھرنے والے ڈیل کے تاثر کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ ایسے ماحول میں انتخابات کو متنازع ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔ ہماری سیاسی ثقافت کی ریت بن چکی ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ آ جائے وہ اس کو ماننے سے انکاری ہو جاتا ہے اور جو انتخاب میں ہار جائے وہ دھاندلی کی رٹ لگانا شروع کر دیتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply