اداس انکھیں اور ملکہ کو ہسا ر ۔۔۔

اداس انکھیں اور ملکہ کو ہسا ر ۔۔۔
سو رج کی روشنی آنکھو ں پر پڑ ی تو میں نے د یکھا کہ امی نے کمرے کے پر دے ہٹا دیے تھے جس کی وجہ سے سو رج کی رو شنی سید ھی میر ی آنکھو ں پر پڑ ر ہی تھی ۔۔کا فی دن کی با رش کے بعد چمکتا سو رج بڑ ا پیا را لگ ر ہا تھا۔میں نے معمو ل کے مطا بق کے آ ج جلد ی بستر چھوڑے ہو ئے ہا تھ منہ د ھو کر نا شتہ کا رخ کیا۔۔آج امی خو ش تھیں کہ میں بھی سب کے سا تھ نا شتے پر مو جو د، ورنہ تو میں دو سرے شہر جا ب پر ہو تی ہو ں اور جب گھر آتی ہو ں تو ذ یا دہ وقت سو کر گز ارتی ہوں۔لہذا نا شتے یا کھا نے پر کم ہی میں گھر والوں کے سا تھ پا ئی جا تی ہوں۔آج مو سم بہت اچھا تھااور اتفا ق سے سب گھر پر مو جو د تھے۔۔نا شتے کے بعد میں نے اپنے بھا ئی اور گھر والوں کے ساتھ مر ی جا نے کا پر وگرام بنایا۔کیو نکہ سب گھر پر تھے اور موسم بھی خو شگو ار تھا اس لیے سب آ سا نی سے ما ن گئے۔بس پھر کیا ہم لو گ فو ر اََ تیا ر ہو گئے اور دو گا ڑیو ں میں سوار اپنی منزل کی طر ف چل پڑ ے۔کھا نے پینے کا سا ما ن بھی سا تھ ر کھ لیا۔
آ ج تو مر ی روڈ پر کا فی گہما گہمی تھی۔ہر طر ف گا ڑیا ں ہی گا ڑیا ں نظر آ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر کسی نے آ ج مو سم کا فا ئد ہاٹھاتے ہو ئے مر ی کا رخ کر لیا۔ابھی کچھ ہی سفر طے کیا تھا کہ روڈ کے کنا رے پڑ ی ہلکی بر ف کا سلسلہ شر وع ہو گیا ۔ جسے دیکھ کر ہم بہت خو ش تھے۔ جو ں جوں ہم آ گے بڑ ھ ر ہے تھے بر ف ذیا دہ ہو تی جا ر ہی تھی۔اور ہم نے گا ڑی کے شیشے کھو ل دیے کیو نکہ ہمیں خو شی میں ٹھنڈ کا احسا س ہی نہیں ہو ر ہا تھا۔آ خر کا ر ایک جگہ ہم نے گا ڑی روکی اور بر ف با ری کا مزہ لینے لگے۔کھیل کو د میں میر ی نظر دو ر سے آتی ایک 15 سا لہ لڑکی پر پڑ ی جس کے سر پرپا نی کا مٹکا اور ہا تھ میں ایک لکڑ یوں کا گٹھا پکڑ ا ہو ا تھا ۔ کچھ دور جا کر وہ لڑ کی ایک ڈھلو ان پر بیٹھ گئی وہ لڑ کی بڑ ی اشتیا ق بھر ی نظر وں سے ہمیں دیکھ ر ہی تھی۔ میں اس کے پا س گئی اور پو چھا کہ ادھر کیو ں بیٹھی ہو؟ وہ بو لی اپنی بہن اور با قی لو گو ں کا ا نتظا ر کر رہی ہو ں جو پیچھے سے آ رہے ہیں۔۔ میں نے دو سرا سوال پو چھا کہ ہمیں ایسے کیو ں د یکھ ر ہی تھی اس کے جو اب سے میر ی آ نکھو ں میں آ نسو آ گئے کیو ں کہ اس نے کہا میں سو چ ر ہی ہو ں کہ جو بر ف ہم لوگوں کے لیے کسی عذا ب سے کم نہیں وہی لو گ کے لیے کتنی خوشی کا با عث ہے۔کا ش ہم لو گ بھی اس برف کا ا تنا ہی مزہ لے سکتے جتنا آ پ لو گ لے ر ہے ہیں مگر ہم لو گ تو سا را سا ل اسی کو شش میں لگے ر ہتے ہیں کہ بر ف با ری سے پہلے پہلے ایند ھن جمع کر لیں تا کہ سر د یو ں میں ہمیں کو ئی مسئلہ نہ ہو ۔ مگر بد قسمتی سے ہر سا ل ہما را جمع کیا گیا ایند ھن کم پڑ جا تاہے اور ہمیں اس بر ف با ری میں گھر وں سے نکلنا پڑجا تا ہے۔اس سر دی میں کو ن اپنے گھر وں سے با ہر نکلنا چا ہتا ہےمگر ہما ری قسمت آ پ لو گو ں کی طر ح نہیں ہے ۔۔ ہمیں پیٹ کی آ گ کو بجھا نے کے لیے اس ظا لم مو سم میں بھی گر م بستر وں سے با ہر آ نا پڑ تا ہے۔ ورنہ بی بی ہم لو گ بھو کے مر جا ئیں یہ بھی کو ئی ز ند گی ہے۔
یہ سن کر میر ی آنکھو ں سے آنسو رواں ہو گئے مگر اس کی آ نکھو ں میں مجھے آنسو نہیں ما یو سی نظر آئی وہ سمجھ ر ہی تھی شا ہد ہم لو گ زندگی سے بھر پو ر ہیں ، ہمیں کو ئی مسئلہ نہیں اس کی آ نکھو ں کے اس سوال کو میں نے سمجھ لیا اور میں نے پھر اپنی با ت کو کچھ یو ں آ گے بڑ ھا یا آپ کیا سمجھتی ہو جو لو گ شہر میں ر ہتے ہیں ان کو کو ئی مسئلہ نہیں لیکن گڑ یا حقیقت اس کے بر عکس ہے شہر میں ر ہنے والے لوگوں کے مسا ئل ذ یا دہ ہو تے ہیں۔میر ی اس با ت سے اس کی آ نکھوں میں حیر ت سمٹ آئی۔ میں نے اس کند ھے پر نر می سے ہا تھ ر کھتے ہو ئے کہا ،پا نی اور بجلی کے مسا ئل کا ہم بھی شکا ر ہیں۔شہر میں تو ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ جو پا نی ہم پی ر ہے ہیں وہ صا ف ہے بھی کہ نہیں مگر آ پ لو گو ں کو یہ اطمینان تو ہے کہ جو پا نی آ پ لو گ پی ر ہے ہیں وہ صا ف ہے۔ شہر کی نسبت گا ؤں میں بیما ر یا ں بھی کم ہیں تو اس کی اصل و جہ صا ف پا نی ہے ۔میں نے کہا اگر میر ے بس میں ہو تو میں بھی اسی صاف ہو ا اور صاف پا نی والے گا ؤں میں رہ جاؤں۔میر ی اس با ت سے وہ سنبھل گئی کچھ دیر پہلے جو اس کی حا لت تھی اب ویسی نہیں تھی۔اب وہ خو ش لگ ر ہی تھی۔ شہر اور گا ؤں پر مو ازنہ جا ری تھا کہ اس کی بہن اور با قی لوگ پہنچ گئے ۔۔سب سے میرا تعا رف اس نے یہ کہ کر کروایا کہ یہ با جی ہما رے گا ؤں میں رہنا چا ہتی ہیں۔۔سب بہت خو ش ہو ئے اپنے گھر آ نے کی دعوت دی جسے میں نے بہت سہو لت سے دوبا رہ آ نے پر ٹا ل دیا۔سب کو خدا حا فظ کہ کر جب میں واپس آئی تو دور بر ف میں نے اپنے گھر وا لو ں کو کھیلتے اور مستی کر تے د یکھا تو سو چا کہ اگر یہ حا لا ت ہم پر آ جا ئیں تو ہم کیا پھر بھی ہم ا تنا خو ش ہوں جتنا اس وقت ہیں؟؟ اس لڑکی کو تو میں نے وہ سب کہہ کر اس کی آ نکھوں کی ما یو سی دور کر نے کی کو شش کی جس میں کسی حد تک میں کا میا ب بھی ر ہی۔میر ے بد ن میں ایک جھر جھری سی آ گئی کہ ہم تو شا ہد ایک دن بھی اتنے سخت حالات میں گزارہ نہ کر سکیں۔دل ہی دل میں اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں کو شکر ادا کیا۔اس کے بعد میر ا دل ہر چیز سے اچا ٹ ہو گیا۔سو آگے جا نے کے بجا ئے ہم نے گھر وا پسی کی را ہ لی ۔ میر ے اس بد لے رو یے سے ہر کو ئی حیرا ن اور چپ تھا کیو نکہ یہ پلا ن بھی میرا ہی تھا کہ سب مر ی جا ئیں۔۔
واپسی کا سفر۔۔ پو رے راستے اس لڑ کی کا ایک جملہ میرے کا نو ں میں با زگشت کر تا رہا کہ آ خر یہ بر ف ہم لو گوں کو خو شی کیوں نہیں دیتی؟؟مجھے تو اس سوال کا جواب نہیں ملا اگر آ پ میں سے کسی کو ملے تو مجھے بھی بتا ئیے گا۔۔۔

Facebook Comments

عاصمہ روشن
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ روشن نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کی ڈگری کیساتھ ساتھ اردو میں بھی ماسٹر کیا ہے اور ابھی ایم فل کی طالبہ ہے -پڑھنے اورلکھنے کی کوشش بچپن سے ہیں- غیر سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور اس وقت شعبہ صحافت سے وابستہ ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply