چھوٹا برادرِ بزرگ /کبیر خان

اللہ بڑا بول نہ بلوائے لیکن پِیروں سائیوں کے دھاگے تعویذ ، دم درود کی برکت سے ہم ڈَھیلے ڈوٹے، چمچے، چمٹے،پیڑھے ، کِھیڑے جیسے جدید سائنسی آلاتِ حرب وضرب سے کبھی بہت زیادہ گھبرائے نہیں ۔ مگر نِکّی بے جی بھی نشانے کی کچّی نہیں تھیں۔۔۔  دونوں آنکھیں بند کر کے آوازکی سیدھ میں تپّڑ کھُسڑا فائر کرتیں تو ’’اُکھیتا‘‘ وہیں آن لگتا جہاں کل پڑا تھا۔ لیکن(ایسے)
’’لِتّر‘‘ کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے۔
’’لِتّر‘‘کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے
کبھی کبھی ہمیں تو یوں لگتا تھا جیسے اُن کی اوپر والے کے ساتھ ’’ساج باج‘‘چلتی ہے۔۔۔۔ ’’توُ ہاں کر، میں نہ‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ لین دین پر ہفتے میں دو تین بار خالق اور مخلوق کے بیچ اِٹ کھڑّکا ہو ہی جاتا تھا۔ اِدھر سے توُ تڑاخ کا ریپڈ فائر،اُدھر سے چُپ کے یہ بڑے بڑے گولے۔ اس فتنہ فتور کے باوجود اُوپر والا اُن کی ایسی ایسی اَن کہیاں سُنتا تھا کہ رہے نام سائیں کا۔ لیکن نِکّی بے جی نے ناچیز کا کم و بیش ہرمِنت ترلا گویا کُوڑے کے ڈھیر لائق مارک کررکھا تھا۔  سپردم بتو خویش را ۔ مگرجس کا قلق اب بھی راتوں کو ’’ٹمُ ٹم کر‘‘جگاتا ہے، وہ ہمارا ڈائریکٹ حوالدار بھرتی نہ ہو سکنا تھا۔ آہستہ آہستہ ہم اعزازی لانس نائیک کے عہدے پر منتخب ہونے پربھی اُتر آئے تھے مگر۔۔۔۔۔ کِسے نے میری گل نہ سُنی ۔

اُسی دورِ ابتلا میں کرنی اوپر والے کی یہ ہوئی کہ ہمارے گھر کے مُنّے کو کسی باہر والے کی نظر لگ گئی ۔ اور وہ اِس وِیر وار سے اگلے منگلوار تک سوکھ کرتِیلاہوتا چلاگیا۔ میاں شاہ محمد نے اگربتیوں اور تُنک مرچ کی مشترکہ دھوُنی دی، ساگواڑیاں والی چائے نے پکّا عمل بقلم خود کر کے موسلہ وہیڑے میں وگایا ، کوئی فرق نہ پڑا۔ اپنی سِدّو ماٹی ’’جھانواں‘‘ڈال ڈال آپ جمائیوں سے بے حال ہو ہوگئیں۔ پنساریوں کے ہٹ سے لاکر ڈاکٹر محمد فیروز نےتیر بہدف ’’پھواڑولوجینو‘‘ٹیکوں کا کورس مکمل کیا ۔ یہاں تک کہ  مریض کی بانہیں سُوج کر کُپّا ہو گئیں ۔ علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ۔ پر مُنّا پیلے سے ہرا ہو کر نہ دیا۔ نِکی بے جی چہڑھ والے دیالے کی خدمت میں پکّے بٹّے ڈیڑھ سیر گاوا گھی اور ننگ نڑا کُکڑنچھاور کر آئیں ، کوئی فرق نہ پڑا۔ آخر بڑی مامی نے مُلوانی بھابھی سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اورہم اتوار کے اتوار مُنّے کو’’گھوڑے چڑھا‘‘(کاندھے پر اُٹھا)’’کلّے ویلے‘‘ سے ٹھیک ’اک ڈانگ پہلے‘ تک حسبِ ہدایت مُلوانی چاچی درِ دُربار پہنچنے لگے ۔ وہ بھینسوں کے ’’ڈار‘‘کے سامنے کَھلی، اور’’قاجی سرکار‘‘ (شوہرِ نامدار)کے آگے ڈلی ڈال کر چار کھیت پرے ہمارے نانا کی باڑی سے ایک ’’تروٹ‘‘ (پھانٹ) کاٹ لاتیں اور پھانٹ کے روبرومُنّے کو پیڑھے پر جما کر سیف الملوک کا بند دم فرماتیں:
جِناں در مُرشد دا چھڈیا سدا دے نیں او روگی
جیہڑی بکری اَجڑوں وِچھڑی او بھگیاڑاں جوگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دم درود کا کوئی اور اثر تو ہم نے نہیں دیکھا لیکن واپسی کے راستے میں ’’گھڑ سواری‘‘ کے دوران ہماری قمیض ہی نہیں، پائنچوں تک شلوار بھی ایک زردی مائل مائع سے تربتر ہوجاتی۔ پھر اس پھوارکے ساتھ سوالوں کی بوچھاڑ لگ جاتی: ۔۔۔۔
’’اگر’پِیلیاں‘(چیونٹیاں) رات کو’’کھوڑ‘‘میں گُھس کر سو جاتی ہیں تو فرشتوں کو ’’ادّھے اَشمان‘‘ سے دھرتی کے دُور اندر’’ پِہیچی سی پِیلی‘‘کیسے نظر آ جاتی ہے۔ پِیلی کو غلیل کا گِیٹا ماریں ، یہ بتائیں کہ فرشتوں کو پیلی کے سوہنے سوہنے خواب کیسے دکھائی دیتے ہیں ۔ ؟  سچّی نیں خواب میں جو مراج (دُلہن) آتی ہے، وہ سویرے اُڑ کر کہاں جاتی ہے۔ ؟ آپ کے دوست جھُلّی ٹانڈے کا لقّا جب پنگڑاٹھیاں پھیلا کرغُٹر غوں کرتا ہے تو اُس کی جانگھوں میں باکوڑ(اینٹھن) کیسے پڑتا ہے۔۔۔۔ ؟ جب میں غٹرغوں کرتا ہوں تومجھے باکوڑ کیوں نہیں پڑتا؟ ‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ ہمارے پاس ایسے غیرپارلیمانی سوالوں کا جواب تب تھا، نہ اب ہے۔ تاہم ’’ٹاٹران‘‘کا سبب ہمیں معلوم تھا۔ لیکن ہم اُسے تب بتانا چاہتے تھے نہ اب بتانا چاہیں گے۔

کل کے جس مُنّے کو بستے سمیت بہنیں اٹھا کر اسکول پہنچاتی تھیں ،وہ آج کا ڈاکٹر سردار محمد صغیر خان ہے ۔ اورکوئی مانے یا نہ مانے ، ہر روز ملوانی چاچی کے پڑوس سے بقدم خود گذر کر کالج میں پڑھانے کے لئے جاتا ہے۔ بظاہر یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن آپ کبھی چاچی مذکوریہ کے’’کُھمبے‘‘سے گذرے ہوں تو تب ناں۔ باچھاو ! نصف درجن سے اُوپر بچّے اور کٹیاں کَٹّے تھے اور سب کی پیرہنی کا پچھلا پلّا گانٹھ کی صورت میں محفوظ کیا گیا تھا۔ وہ وہاں سے ہر روزاس طرح گذرتا تھا ، جیسے کوئی بقائمی ہوش و حواس جہاں سے گذرتا ہو۔ مذکورہ مقامِ سخت سے گذرنے سے پہلے وہ جوتے اُتارکرسرپر رکھ لیتا تھا۔ ۔ ’’پَیر تو اگلی کسّی میں دھوئے جا سکتے ہیں ، جوتا دھونا۔۔  ؟ چھی چھی چھی‘‘۔ یہ اُس کا فلسفہ تھا۔ جس پر وہ آج بھی سختی سے کاربند ہے۔
وہ دیگر بچّوں کی طرح پوچھتا بہت تھا لیکن دیگر بچّے اُس کی طرح نہیں پوچھتے تھے۔۔۔۔
* ’’مُردار دیکھ کر چِیل کا ہاسا کیوں نکلتا ہے۔۔۔۔؟۔ ‘‘۔
*جب ہماری بلادری کے سارے جنے اک دوجے کا خیال رکھتے ہیں تو دادا جی رات کو دو ٹوکری کھمبیوں(سِٹّوں) کا پہرا دینے کُھلے آسمان تلے چھت پرلیٹ کر ’’گالی‘‘ کیوں گا تے ہیں :
چنّ ساڑھی وہیلی ناں تھم کِیاں کڑکے ہکے کہلّی جِندڑی اتے جگ سارا چِہڑکے۔
* ’’ سورج دھرمشالہ کے پیچھے سے نکل کر پورے دن میں ایک بار پھنڈیں نی گلی تک پہنچ کے ’’مہیے نیں‘‘(مزے سے؟) سو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں رڑا چاچا پھجڑ کے تین پھیرے لگا لیتا ہے۔ ۔ خود ہفتا ہے نہ اُن کا کھوتا تھکتا ہے۔ آخر کیوں۔ ؟‘
* ’’آپ کانوں کے ڈورے نہیں ، پھر بھی منہ کھول کر کیوں سُنتے ہیں۔۔۔۔؟ِ،،۔
* ’’برف باراں نہ بھی ہو تو داداجی گہل کی بجائے کھیتوں کھلیانوں کی منڈیروں پر کلّہم کلّے پہلک دولک (چِیچاں) کھیلتے بازار کیوں جاتے ہیں۔ ؟‘‘
*’’حاجیالوں کا کُتّا ہمارے پاسے منہ کر کے ہی کیوں ’’رُڑاتا‘‘ ہے، وہ بھی دِن کو۔ ؟  رُسّی ما کہتی ہیں نحس ہوتا ہے۔  بچّے رعایتی پاس ہوتے ہیں ، نہ گائیں بچھیاں جنتی ہیں ۔ جدھر دیکھو بچھڑے ہی بچھڑے، کٹڑے ہی کٹڑے، گدرے ہی گدرے۔۔۔آخر کیوں ۔؟؟ وغیرہ وغیرہ

اب وہ بچّہ نہیں رہا، اُس کے اپنے بچّے بڑے ہو گئے ہیں ۔ لیکن گھر میں گائے بھینس،بکری کُجا کُکڑی تک نہیں پالی۔(خود ہمارے گھر میں چوُزا، مُرغی نہیں ۔ ۔ چنانچہ بوقتِ ضرورت ہمیں خود ہی بانگنا اور’’کاکرانا‘‘پڑتا ہے)۔ لیکن وہ سوال پوچھنے سے اب بھی نہیں کتراتا۔۔۔  :

* ’’صبح کے نکلے آپ اِس وقت گھر لوٹ رہے ہیں ، کوئی دیکھ کر کیا سوچے گا کہ دوہتر پوتر والا مرد جنا ابھی تک کھیتوں کھلیانوں کی منڈیروں پر’’لہوّلاتا‘‘پھرتا ہے ، آخر کیوں؟‘‘۔ وغیرہ وغیرہ

اُس کے تین عدد نہایت خوبصورت معنوی مجموعے اور درجن سے اوپرتصنیفات منظرعام پر آ چکی ہیں ۔۔  آٹھ دس تکیے تلے پال میں لگی پڑی ہیں ۔ اس سامانِ زیست کے علاوہ بھرپور گھر بار میں صغیر نے ایک اچھی اور بھری پُری لائبریری بھی قائم کر رکھی ہے لیکن خود ’’اندرے اندر‘‘ (سرمائی آماجگاہ؟) میں چھِدری اور بے حد جھلنگی کھاٹ ’’میں‘‘ لیٹ کرلکھتا اور پڑھتا ہے۔ اس اہتمام کا ایک ہی فائدہ ہے کہ آنکھیں کاغذ کتاب سے قریب تر ہو جاتی ہیں۔ ہاتھوں اورسر کو زیادہ زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ ) اُس کی زُود نویسی سے متاثر ہو کر ہم نے بھی اُس کی آماجگاہ میں گُھس کر لکھنے کی سعی کی۔ایک سطرنہ لکھ پائے، کُھرک البتّہ اُن مقامات پر بھی ہوئی جوکبھی اس کے لذتّ آشنا نہیں رہے ۔

وہ انتہائی نفاست پسند واقع ہوا ہے۔ اپنی بیگم جان کی عدم موجودگی میں اسے جب بھی موقع ملتا ہے،مکان کو گھر کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ ایسے ہی ایک سہانے دن مُنّے کی مدد سے’’اندرے اندر‘‘اور ’’گواہل‘‘کے بیچ کھینچی لائن آف کنٹرول کو ڈھا کر میدان کر دیا ۔اور اس میدان میں جہاں کبھی ماں کی بھینس بندھی چیونگم چبایا کرتی تھی، وہاں اُسی ماڈل کی ’’مورخ‘‘زدہ سوزوکی رانبھا کرتی ہے۔ باقی ماندہ اندرے اندر اور بسیوے کی داڑھی مُونچھیں چھیل کر وہاں انتہائی خوبصورت کُتب خانہ بنا ڈالا ہے ۔۔ جہاں جب بھی موقع ملتا ہے ہم بیٹھے ’’اغوالا‘‘ (جگالی )کرتے ہیں ۔ لائبریری کے سامنے ایک ہرا بھرا اور خاصا بڑا لان اُگ آیا ہے ۔ جس میں اوس اُڑنے سے پہلے ہم ننگے پیر پھرا کرتے ہیں ۔ اور پوری ہستی میں ماں کا لمس بَھر لیتے ہیں۔ ہمیں جب کبھی سچ لکھنے کا ’’ہفالا‘‘ چڑھتا ہے، وضو کر کے لائبریری میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ اور سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں ۔۔۔۔ کبھی دو سطور سے زیادہ نہیں لکھ پائے۔ چنانچہ ’’ساہنے‘‘ پر چڑھ جاتے ہیں ۔۔۔۔ ، باقی کام وہاں ہو جاتا ہے۔

صغیر کو ہماری طرح ’’کُکروئی‘‘ ہوئی کُکڑی سمان ناک میں اپنا شہ پر ڈلوانے یا تبدیلی آب و ہوا کی خاطر پرائے گھر بھیجے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت ہوا تو گرم دانے کی ایک لپ کافی و شافی ہوتی ہے۔۔   چند دنوں میں انڈوں کا مجموعہ تیار ہو جاتا ہے۔ ہمیں جب بھی گھر جانے کا موقع ملتا ہے، صغیر کی لائبریری میں بیٹھ کر سرسبز و شاداب لان میں ، ڈھاک پر ہاتھ ٹکائے نِکّی بے جی  کو ننگے پیر اوس پربڑاپن لکیرتے دیکھتے ہیں۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے باوجود صغٰر سب سے بڑا بڑا لگتا ہے۔ شاید اُسے بھی ایسا ہی لگتا ہے ۔ چنانچہ دادے اور ابّے کی تھاں پر کھڑا رہتا ہے۔ یوں خاندان کے جملہ معاملات سنبھلے سلجھے رہتے ہیں ۔ اُسے برادری میں رہنے کا ہُنر اور نبھانے کا فن بھی آتا ہے۔ مجموعی طور پر اپنی بولی میں اعتماد کے ساتھ اُسے’’سیانا‘‘، اورہمیں ’’نیانا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ راقم کے عمومی معاملات بھی وہی دیکھتا ہے۔اور ہم دیکھتے ہوئے اُسے دیکھا کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہم کسی خاکے کی عمارت ہی نہیں ، اپنی عبارت بھی اُس کے سامنے ڈال کر فارغ البال ہو جاتے ہیں ۔ سپردم بتو خویش را۔

آپس کی ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ بچّوں کا ابّا کم ،’’ابّا بھائی اوئے‘‘زیادہ لگتا ہے۔ بچّوں کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی دوتین بار دل ہی دل میں اُسے’’ابّا بھائی اوئے‘‘ کہا۔۔۔۔، بڑا مزا آیا۔ پھر شرم آ گئی۔ ضمناً عرض کردیں کہ ہمارے کُنبے قبیلے کی ایک بزرگ خاتون کو کانچ کی شکستہ چوڑیوں سے دیواروں میں نقش و نگار کاڑھنے اور رنگ برنگی بوتلوں سے طاق طاقچے سجانے کا خبط تھا۔ ہمیں کتابیں سجانا اچھا لگتا ہے۔ لیکن کوشش کے باوجود آج تلک بُک شیلف کے ایک خانہ میں کُتب ڈھنگ سے رکھ نہیں سکے۔ چنانچہ اپنی رکھی ہوئی کوئی کتاب بوقت ضرورت مل نہیں پائی۔ اب تو سوچتے ہیں کتب اور علم کا کام بھی برادرِ خرد کے متھّے مار، بزرگی کا استھان پکڑ ،چلم تان کر ’’مہے نیں‘‘(مزے سے) بیٹھ رہیں ۔ ۔۔ کہ لکھنا پڑھنا تو اُسے ہی شوبھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ہمارا پُختہ ارادہ تھا کہ کسی سہانی صبح سامنے بٹھا کر اُسے الفاظ کے برش سے پینٹ کریں گے۔ لیکن نہ وہ نچلا بیٹھتا ہے نہ الفاظ ہمارے قابو میں آتے ہیں ۔ وہ ’’داندیاں‘‘ کرتا اِدھر سے اُدھر نکل لیتا ہے ، اورہمیں پیڑھے ، کھِیڑے، کھاٹیں ٹاپنا،چھاٹیں کاٹنا نہیں آتا۔ وہ ماں بولی میں دُندیں مچا لیتا ہے ، ہمیں اُردو میں گھِیسیاں کرنا نہیں آیا۔ ہم جب بھی اکیلے ہوتے ہیں،گھر میں اُس کے اعزازات کو چُھو چُھو کر دیکھتے ہیں ۔ تب کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے سب ہم نے جیتے ہوں ۔ پھراس سے بھی کہیں بڑا اور ’’مجے دار‘‘ احساس اُمنڈ آتا ہے کہ ہمارے مُنّے کی حق حلال کی کمائی  ۔۔ ربّ کی دین ہے۔ ربّ اپنی دین کو لمبی حیاتی اورمزید اُونچی عزتیں دے ۔ اور ہاں دینے والے نے اُسے تین عدد ورلڈ کپ بھی دیئے ہیں ۔۔۔۔ عدین، بھین اور عبدالرحمٰن۔ یعنی ’’سِتّی بے، میڈم اور ٹالہ(یعنی ڈانگ)۔ ہمارا بڑا جی کرتا ہے کہ کبھی تینوں بچّوں سے کھلم کُھلا ملّہی کریں لیکن تینوں ’’ٹہانڈار‘‘ کی طرح جتنے لمبے ہیں ،اُتنے ہی نازک بھی۔چنانچہ دعا گو ہیں کہ جب تلک وہ ڈاہڈے باٹے ہوتے، ہمیں برقراررکھے۔ ایک ملّہی کے بعد بھانویں۔۔۔۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply