جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق/ڈاکٹر عمران آفتاب

لمز کے طلبا کے ساتھ نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب کی نشست آج کل سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہی ہے۔ طلبا نے وزیر اعظم سے بعض چبھتے ہوئے سوالات بھی کیے جن کے نگران وزیراعظم نے بردباری اور متانت سے جوابات دئیے۔ مگر اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے اسے حق و باطل کا معرکہ بنا دیا ۔ حالیہ سیاسی حالات کے باعث پروپیگنڈہ کی دھول میں اس پروگرام کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی۔ یہاں تک کہ لمز کے سامنے سے گزرتی پنجاب پولیس کی گاڑیوں کی وڈیوز سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ گویا لمز کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب کہ حقیقتاً  ایسا کچھ نہیں ہوا۔

اس سیشن سے 2005 کے سٹوڈنٹس کنونشن کی یاد تازہ ہو گئی جس میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے سامنے جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے طالب علم سید عدنان کاکا خیل ( جو اب مفتی اور ادارہ البرہان کے روح رواں ہیں) نے ایک شاندار تقریر کی تھی۔ میں اس زمانے میں میڈیکل کالج کے سال آخر کا طالب علم تھا اور جناح کنونشن سنٹر میں منعقدہ اس سٹوڈنٹس کنونشن کا افتتاحی سپیکر تھا۔ اس وقت کے وزیر تعلیم اور چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے کئی انقلابی اقدامات میں سے ایک ان سٹوڈنٹس کنونشنز کا انعقاد بھی تھا۔ جن میں پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں اور مذہبی جامعات سے، ضلعی، ڈویژنل، اور صوبائی مراحل کے کڑے مقابلوں کے بعد فائنل مرکزی کنونشن کے لیے طلبا کا چناؤ ہوتا تھا۔ اس سلسلے کا پہلا کنونشن 2004 میں منعقد ہوا تھا جس میں پہلی پوزیشن سید عدنان کاکا خیل کے ہی بنوری ٹاؤن مدرسے کے طالب علم نے حاصل کی تھی جن کا نام غالباً سعید الرحمٰن تھا اور صدر مشرف نے ان کی انگریزی تقریر کی بطور خاص تعریف کی تھی۔

دوسرے سہ روزہ کنونشن کا انعقاد اپریل 2005 میں ہوا تھا۔ اس کے مختلف سیشنز کے لیے تین موضوعات چنے گئے تھے ۔ تینوں موضوع جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی مشہور زمانہ اصطلاحات ، enlightened moderation ، ماڈریٹ اسلام، اور حقیقی جمہوریت کے ارد گرد گھومتے تھے۔ پہلے سیشن کا افتتاح معروف محقق اور قائد اعظم کی سوانح حیات لکھنے والے مشہور مصنف سٹینلے والپرٹ نے کیا تھا۔ دیگر سیشنز کی صدارت اور “کو چئیر” کرنے والوں میں ملک کے بڑے بڑے دانشور شامل تھے۔ ان میں سے چند نام یہ تھے۔  ڈاکٹر شیریں مزاری ، فہد حسین، ڈاکٹر عطا الرحمٰن ، مولانا حنیف جالندھری ، طلعت حسین، نسیم زاہرا، ڈاکٹر مختار ( موجودہ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن) ، مشاہد حسین سید ، عالیہ صلاح الدین ، ڈاکٹر میری فیلبوس، وغیرہ وغیرہ۔

تین روز بہت کھل کر تقریریں  ہوئیں۔ کُل 73 یونیورسٹیوں اور دینی جامعات سے 97 طلبا نے اپنے اپنے سیشنز میں اظہار خیال کیا۔ اور حیران کن طور پر چند ایک کو چھوڑ کر اکثر طلبا نے جمہوری حکومت کا بوریا بستر گول کرنے، بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال ، بلوچستان کے خراب ہوتے حالات اور ان سب کے باوجود راگ رنگ کے دلدادہ ہونے پر آمر جنرل پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیا۔

آخری دن کے اختتامی سیشن کی صدارت خود جنرل پرویز مشرف نے کی۔ اس سیشن کو پی ٹی وی ٹو پر براہ راست نشر کیا گیا۔

کنونشن کے تینوں موضوعات میں سے ہر ایک پر جنرل مشرف کے سامنے تقریر کے لیے تین تین طلبا کو منتخب کیا گیا۔ مگر ہم لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب عدنان کاکا خیل کے علاوہ باقی آٹھوں طلبا اور طالبات کو میرٹ پر چننے کی بجائے ان لوگوں کو سلیکٹ کیا گیا، جنہوں نے پہلے دو روز مشرف کے حق میں تقریریں  کی تھیں۔

تاہم دینی مدارس میں سے ایک طالب علم کا انتخاب کرنا لازمی تھا   اور پہلے راؤنڈ میں سید عدنان کاکا خیل کی مخالفانہ تقریر کے باوجود ان کا مقابل دور دور تک کوئی نہیں تھا لہذا منتظمین کی مجبوری تھی کہ کنونشن کے آخری روز انہی کو بادل نخواستہ موقع دیا جائے۔ ابتدائی سیشنز میں مشرف کے خلاف تقریر اور بحث کرنے والے طلبا میں سے وہ واحد سٹوڈنٹ تھے جنہیں مشرف کے سامنے تقریر کا موقع دیا گیا۔
اور انہوں نے جس خوبصورت طریقے سے مشرف کو کٹہرے میں کھڑا کیا وہ آپ سب یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ مگر جو چیز پی ٹی وی کا سرکاری کیمرہ کور نہیں کر سکتا تھا، وہ ہال میں موجود حاضرین کی بھرپور داد اور مشرف اور اس کے وزیروں ،مشیروں، سفیروں اور ساتھیوں کی بدلتی ہوئی رنگت تھی۔ سیشن کے ماڈریٹر مشاہد حسین سید کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر شوکت سلطان بے چینی سے اپنی نشست پر پہلو بدل رہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم ( اب پروفیسر) عمران سعید قریشی کو کہا کہ اتنی جاندار اور بے باک تقریر تو نواز شریف اور بے نظیر بھی مشرف کے سامنے نہ کر پاتے جتنی آج عدنان کاکا خیل نے کر دی ہے۔

وہ تقریر سطحی طعنے بازی کی بجائے معروضی حالات اور پاکستان کی جمہوری تاریخ کا مکمل احاطہ کرنے والی ایک شاندار تقریر تھی۔ مشرف کا چہرہ غصے اور حیرت سے سیاہ ہو رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ایک جوابی تقریر کی اور وہ بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔ تاہم عدنان کاکا خیل کی جانب سے اٹھائے گئے اکثر سوالوں کے جواب دینے کی بجائے مشرف صاحب نے طنز و مزاح کا راستہ اپنانے میں ہی عافیت سمجھی۔

ایک دلچسپ بات اب بھی یاد ہے کہ عدنان کاکا خیل نے کہا کہ ” جنرل صاحب آپ کی نشست کے پیچھے لگی قائد اعظم کی   تصویر آپ سے یہ سوال کرتی ہے کہ جنرل تمہیں تو میں نے ملک کی سرحدوں کا محافظ مقرر کیا تھا تمہیں اقتدار کا راستہ کس نے دکھایا ۔؟”

اس کے جواب میں مشرف نے فرمایا کہ ” میں قائد کو کہوں گا کہ مجھے اقتدار کا راستہ نواز شریف نے دکھایا ” ۔ اس پر  اگلی صفوں میں بیٹھے درباریوں نے ایک خوشامدی قہقہہ بلند کیا ۔اور یہ قول زریں اگلے دن کے اخبارات کی آٹھ کالمی ہیڈ لائن بن گیا۔

موجودہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے سامنے سوال جواب کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سمجھنے والوں کو یاد دلاتا چلوں کہ اس زمانے میں جنرل مشرف کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ وار آن ٹیرر کے طفیل جنرل مشرف نا صرف پاکستان کے طاقتور ترین انسان تھے بلکہ عالمی رہنماؤں میں بھی نمایاں قد کاٹھ رکھتے تھے۔ اس زمانے میں پرائیویٹ میڈیا چینلز ، سیاست دانوں اور دینی رہنماؤں سمیت کسی میں جرات نہیں تھی کہ مشرف کے منہ پر تو دور کی بات، نجی محافل میں بھی اس طرح کھل کر تنقید کر سکے۔ لال مسجد اور وکلا تحریک اس کے بہت بعد کی بات ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت پر گفت و شنید بھی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی۔ مشرف کی گرفت اپنے ادارے اور حکومت پر ناقابل یقین حد تک مضبوط تھی ۔ سیشن کے اختتام کے بعد چائے پر میں نے جب ایک وزیر صاحب سے میرٹ کے بر عکس طلبا کے چناؤ پر اعتراض کیا اور کہا کہ سارے لوگ حکومت کے حمایتی چن  لیے  گئے  جب کہ 70 فیصد سے زائد تقاریر میں اختلافی نکات اٹھائے گئے تھے۔ تو وہ فرمانے لگے کہ جو ایک میرٹ پر آ گیا ، وہی کافی ہے۔ اب دعا کریں وہ خیریت سے گھر پہنچ جائے۔

اس کے بعد کئی سالوں تک یہ افواہ مشہور رہی کہ عدنان کاکا خیل کو تقریر کے بعد غائب کر دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ میری ہاؤس جاب کے دوران 2006 میں ایک روز مجھے ایک ساتھی ڈاکٹر نے کہا عمران صاحب آپ کو ایک مزے کی تقریر سنواتا ہوں۔ مشرف کے خلاف۔ پر بندہ اب مارا جا چکا ہے۔

میں نے مسکراتے ہوئے اس کے موبائل پر وڈیو کے تھمب نیل پر سید عدنان کاکا خیل کی تصویر دیکھی اور اپنے موبائل سے عدنان صاحب کا نمبر ڈائل کر کے کہا ، لیجیے ، جنت میں اس بندے سے ڈائریکٹ بات کر لیں !

Advertisements
julia rana solicitors

پراپیگنڈہ اس وقت بھی ہمارا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا ۔ اور آج بھی ہمیں اس میں سنسنی محسوس ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply