اصولی مزاحمت سے شہبازی مصالحت تک/ارشد بٹ

ملک میں انتخابی دنگل کا بگل بجنے میں زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا۔ سیاسی کروکشیتر کا میدان برپا ہونے کو تیار نظر آ رہاہے۔ مرئی اور غیر مرئی قوتیں اپنے سیاسی و غیر سیاسی ساز و سامان اور ہتھیاروں کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اقتدار کی سیاسی جنگ پنجاب کےکروکشیتر میں لڑنے کی تیاریاں زوروشور سے شروع ہونے والی ہیں۔ کیونکہ پنجاب میں انتخابی کامیابی سے تخت اسلام آباد کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں۔

کرشن بھگوان اپنے غیر مرئی رتھ پر سوار ہو کر پنجاب کے کروکشیتر میں اترنے کو تیار ہو چکے ہیں۔ انتخابی دنگل میں کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے انہوں نے اپنا بھگت اور مرد آہن ارجن کو بھی درآمد کر لیا ہے۔ رتھ پر سوارکرشن بھگوان کی دائیں جانب نہتا مگر عظیم فاتح ارجن کھڑا ہے۔ یاد رہے ہندو دھرم میں کرشن بھگوان غیر مرئی قوتوں کےمالک اور عقل و دانش کا سر چشمہ سمجھے جاتے ہیں۔طاقتور سے شکتی چھین کر شکست سے دو چار کر دینا، کمزور کو ناقابل شکست شکتی عطا کرکے مرد آہن اور فاتح کے مرتبے پر فائز کر دینا، کرشن بھگوان کی انگلی کی ایک جنبش سے ممکن ہوتاہے۔ بھگوان کرشن جسے اپنا بھگت چن لیں تو اقتدار کی دیوی اسکے قدم چوم لیتی ہے اور دشمن ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اپنے بھگت کے ذہن میں دانش کا سر چشمہ رواں دواں کر دینا انکی جنبش ابرو کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پنجاب کے سیاسی کروشیتر میں ارجن بدلتے رہتے ہیں مگر کرشن بھگوان امرقوت ہے۔ تمام تر شکتیوں کے منبع کرشن بھگوان ارجن سے اختیار و اقتدار واپس لینے اور نیا ارجن مقرر کرنے کی شکتی کے مالک ہیں۔ ارجن کو کتنی شکتی عطا کرنی ہے اور عطا کردہ شکتی کب واپس لینی ہے، سب کرشن بھگوان کی مرضی و رضا پر منحصر ہوتا ہے۔ کل کا ارجن آج کا دریودھن یعنی ولن کب بنے گا، کل کا دریودھن آج کا ارجن کب اور کیسے بنے گا، یہ شکتی صرف اور صرف کرشن بھگوان کا کلی اختیار ہے۔

غیر مرئی طاقت کی کرپا سے کل کا ارجن آج کا دریودھن بن چکا ہے۔ تخت اسلام آباد پر براجمان اور اقتدار کے نشہ میں بد مست کل کا ارجن، بھگوان کرشن کی نظروں سے گر کر آج کا ولن یعنی دریودھن بن چکا ہے۔ مرئی و غیر مرئی طاقتیں چھن جانے کے بعد آج کا دریودھن بے بسی، بے چارگی اور شکست خوردگی کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ نئے ارجن کو تخت اسلام آباد پر براجمان کرانے کے لئے پرانے ارجن کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کا مکمل بندوبست کر لیا گیا ہے۔ لگتا ہے پرانے ارجن یعنی آج کے دریودھن اور اسکے حواریوں کو الیکشن سے قبل اقتدار کی جنگ میں شکست سے دوچار کر دیا گیا ہے۔

نئے ارجن کے لئے تخت اسلام آباد تک رسائی کی تمام رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور کی جا رہی ہیں۔ ممکنہ طور پر چند مہینوں کے بعد نئے ارجن کو مرئی و غیر مرئی شکتیوں سے آشنا کرا کے تخت اسلام آباد سوپنے کا بندوبست ہونے والا ہے۔ نیا ارجن اس کھیل کا نیا کھلاڑی نہیں ہے۔ ماضی میں وہ کئی بار ارجن اور دریودھن کا کردار ادا کر چکا ہے۔ ماضی میں وہ کرشن بھگوان کا چہتا بھی رہا ہے مگر کئی بار دریودھن بھی بنایا جا چکا اور غیر مرئی قوتوں کے عتاب کا شکار بھی رہا۔ نیا ارجن مضبوط اعصاب کا مالک ہے اور سیاسی زندگی کا آخری کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ نیا ارجن بخوبی جان چکا ہے کہ عوام کا ووٹ ابھی تک غیر مرئی شکتی کا متبادل نہیں بن سکا۔ اسے بخوبی علم ہے کہ غیر مرئی شکتی کے تعاون کے بغیر اقتدار کا حصول ممکن نہیں ہے۔ وہ اصولی مزاحمت ترک کرکے شہبازی مفاہمت اپنا چکا ہے۔ اس نے دریودھن کو سبق چکھانے کے لئے غیر مرئی شکتی سے تعاون کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ غیر مرئی شکتیوں کا مالک نئے ارجن کو کتنی شکتی عطا کرتا ہے اور انکا ساتھ کتنا طویل ہو گا۔ آج اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیا ارجن چوتھی بار اقتدار پر براجمان ہو کر کس قدر ملکی ترقی، عوامی خوشحالی، آئین و قانون کی حکمرانی ، سویلین بالادستی اور ہمسایہ ملک سے دوستی ممکن بنا سکے گا ،یا دریودھن کو سبق چکھانے کے راستے پر چل پڑے گا ، یا دو تین سال کے بعد ایک بار پھر نعرہ لگائے گا کہ مجھے کیوں نکالا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply