کل کے مظلوم آج کے ظالم یہود/منصور ندیم

حالیہ فلسطینی قضیے پر مجھے معلوم ہے کہ آپ سمیت ہر شخص دکھی ہے، جس طرح 8 اکتوبر کے بعد سے فلسطین میں معصوم انسانوں پر بمباری ہورہی ہے، بچے بوڑھے خواتین عام شہری مررہے ہیں، زخمی ہیں، ان کے گھر برباد ہوگئے ہیں، ان تک بنیادی ضروریات کی زندگی کی اشیاء تک موجود نہیں ہیں۔ اس کا الزام کسے دیا جاسکتا ہے، یہی سب کچھ ایک دن پہلے 7 اکتوبر میں تھوڑا پرے اسرائیلیوں پر بھی ہوا تھا، مگر اس دن ایک کثیر تعداد جشن منارہی تھی، ان کے پاس اس کی تاویل موجود تھی کہ ہم اس لئے خوش ہیں کہ صیہونی ریاست وہاب قابض ہے، اس سے پہلے کی تاریخ دیکھیں، جنہیں آپ پہلے کی تاریخ دکھانا چاہتے ہیں، انہیں واقعی دو اطراف کی تاریخ دیکھنا کتنا ضروری ہے، میری پوسٹ میں نیچے دئیے گئے تاریخ کے واقعات سے دیکھ لیں۔ اس سے پہلے کی تاریخ کے لئے یہی تاویل و دلیل موجود ہے کہ یہودی نہیں بلکہ صیہونیوں کا خواب ہے اور صیہونیوں کی قابض ریاستی پالیسی کا یہی منصوبہ ہے، تو چلیں ذرا ماضی کے کچھ اوراق دیکھ لیں جو یہودیوں کا دعوی بھی ہے اور تاریخ میں یہ واقعات محفوظ بھی ہیں۔ بالکل اسی خطے میں اسرائیلی ریاست کا منصوبہ جب حقیقت کی سطح پر موجود نہیں تھا۔ ان کے پاس بھی اسی خطے کی ایک خونی تاریخ موجود ہے۔ یہ سب طاقت کا کھیل ہے۔

سنہء 1517 کے آس پاس جب ہیبرون (جو یروشلم سے تیس کلومیٹر دور ایک قصبہ ہے جسے عربی میں الخلیل بھی کہتے ہیں) اور صفد (جو آج کے موجود اسرائیل کے شمالی ضلع کا ایک شہر ہے) اس وقت فلسطین میں شامل تھا) میں یہودیوں کا پہلا عرب قتل عام ہوا۔ یاد رہے کہ یہ صیہونیت کے تصور سے بہت پہلے کی بات ہے۔ یہ آج سے قریب پانچ سو برس پہلے کا واقعہ تھا اس کے بعد ایک تسلسل موجود ہے، جب عربوں نے صفد اور حبرون میں یہودیوں کو قتل کیا تو فلسطین میں عربوں نے کون سی قابض ریاست کی “مزاحمت” کی تھی؟ پھر سنہء 1660 کے صفد قتل عام میں جب مقامی مسلمانوں نے معمولی اختلافات پر یہودیوں کو قتل کیا اور صفد کو جلا دیا تھا، پھر سنہء 1834 میں بھی صفد اور حبرون میں یہودیوں کو قتل کیا تھا، ایک بار پھر یہی فسادات یہودیوں کے خلاف انہی شہروں میں سنہء 1837 میں بھی ہوئے تھے، جس میں سینکڑوں یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا، حتی کہ سنہء 1920 میں بھی یروشلم میں یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا تو فلسطین میں یہودیوں نے کونسی صیہونی ریاست کا قبضہ قائم کیا تھا، اور کونسی بستیاں بنائی تھیں جس کے لئے مزاحمت ہوئی تھی؟ سنہء 1921 میں تو یہودیوں کے خلاف فسادات کا سلسلہ ایسا پھیلا تھا، جو یروشلم، جافا، تبریاس، صفد اور ہیبرون میں ہر جگہ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ ایک بار سنہء 1929 میں بھی دہرایا گیا تھا۔ فلسطین میں ہی مقامی عربوں کی طرف سے سنہء 1936 اور سنہء 1939 کے فسادات میں جب پورے فلسطین کے مینڈیٹ پر یہودیوں کو قتل کیا تھا، اس وقت کونسی صیہونی ریاست تھی؟ ان تمام واقعات کا ریفرنس یہودی اپنی ان کتابوں میں دیتے ہیں۔ نیچے پوسٹ کے آخر میں ریفرنسز موجود ہیں۔ یہ سب واقعات فلسطین کے خطے میں یا تو صیہونیت سے پہلے تھے یا اسرائیل کی سرکاری ریاست کے وجود سے پہلے کے ہی ہیں۔ یہ خطے میں ہر طاقت کے ارتکاز کا محور ہی ہیں کہ اس وقت یہودی کمزور تھے تو ہر ایسے فسادات کی قیمت یہودیوں نے ہی بھری تھی۔

یہی نہیں بلکہ پوری مسلم ریاستوں میں جہاں جہاں یہودی رہے انہیں اس کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس سے ہٹ کر کہ مسلمانوں کے اسپین کے عروج میں یا عثمانی عہد میں یہودیوں کو بہت مراعات ملی، یہودی یہاں تک کہ وزرائے عظمی کے عہدوں تک پہنچے، اس وقت کی صنعت و حرفت، تجارت اور زراعت میں انہیں خوب مواقع نلے اسی وجہ سے اس وقت کی موجود دوسرے مذاہب کی ریاستوں کے مقابل ان کے لئے یہ بہترین ادوار رہے تھے، حالانکہ جب یہودیوں کے بارے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اسلامی معاشرے میں بہت آرام دہ مقام حاصل کر چکے ہیں، تو یہود دشمنی سامنے آتی رہی، اکثر بہت زیادہ تباہ کن نتائج کے ساتھ، جیسے 30 دسمبر سنہء 1066 کو غرناطہ، اسپین کے یہودی وزیر جوزف ہانگیڈ کو مسلمانوں کے ایک ہجوم نے مصلوب کر دیا تھا اور پھر شہر کے یہودیوں کی آبادی کو مسمار کرنے اور اس کے 5,000 باشندوں کو ذبح کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اس وقت ان فسادات کو مسلمان مبلغین نے بھڑکایا تھا، جنہوں نے غصے سے اس بات پر اعتراض کیا تھا، جسے وہ یہودیوں کی سیاسی طاقت کے طور پر دیکھتے تھے۔ اور اسی کی وجہ سے یہ فسادات ہوئے، سنہء 800 کی دہائی میں، مراکش کے ادریس اول نے اسلام کے نام پر نسلی طور پر عرب سرزمینوں میں یہودیوں کا ایک بڑا اجتماعی قتل کیا تھا، جو 8ویں صدی میں مراکش میں ہوئے، جہاں مسلم حکمران ادریس اول نے پوری یہودی آبادی کا صفایا کر دیا تھا۔سنہء 854 میں عراق میں یہودیوں کے خلاف ہونے والے فسادات میں عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا تھا، سنہء 1014 میں بھی ایسے ہی فسادات مصر اور شام میں یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ سنہء 1066 میں مسلمانوں کے شہر گریناڈا میں یہودیوں کے خلاف ہونے وال فسادات میں 5000 زائد یہودی شہری مارے گئے۔ سنہء 1165 میں یمن میں یہودیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا مرنے پر مجبور کیا گیا، اس کی پوری تاریخ موجود ہے،

سنہء 1200 کی دہائی میں، شمالی افریقی یہودیوں کی مختلف چھوٹی برادریوں جہاں الموحدوں نے یا تو زبردستی مذہب تبدیل کیا یا متعدد برادریوں کو ختم کر دیا گیا۔ سنہء 1275 میں مراکش میں بھی یہودیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا مرنے پر مجبور کیا گیا۔ سنہء 1293 میں مصر اور شام میں یہودی عبادت گاہوں کو تباہ ریاستی احکامات پر کیا گیا۔ سنہء 1301 میں مصر اور شام میں یہودی عبادت گاہوں کو جلایا گیا۔ اسی طرح سنہء 1333 میں عراق میں یہودیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا مرنے پر مجبور کیا گیا، یہ تسلسل فسادات کا سنہء 1344 میں بھی رہا جہاں عراق میں یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا اور یہودیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا مرنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ اسی طرح، 1465 میں، مراکش کے شہر فیض اور ماراکیچ میں مسلمانوں کے ہجوم نے ہزاروں یہودیوں کو ذبح کر دیا، صرف 11 افراد زندہ بچ سکے، جب ایک یہودی نائب وزیر نے ایک مسلمان خاتون کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا تھا، ان ہلاکتوں نے پورے مراکش یہودیوں کے لئے بہت مشکالات کردی تھیں، سنہء 1676 میں عراق میں یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا، سنہء 1678 میں یمن میں ایک بار پھر یہودیوں کو مذہب تبدیل کرنے کی مہم چلی یا تو وہ مذہب تبدیل کریں یا انہیں مرنے پر مجبور کیا گیا۔ سنہء 1785 میں لیبیا کے جہاں علی برزی پاشا نے سینکڑوں یہودیوں کو قتل عام کیا، سنہء 1790 میں مراکش میں یہودیوں کو مذہب تبدیل کرنے کی مہم چلی اور اسی بنیاد پر یا تو مذہب تبدیل کریں یا پھر مرنے پر مجبور کیا گیا۔ سنہء 1805 میں الجزائر میں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ الجزائر میں جہاں ان تین مواقع پر سنہء 1805، سنہء 1815 اور سنہء 1830 میں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور مراکش،میں بھی اسی صدی میں سنہء 1864 سے سنہء 1880 کے درمیان 300 سو سے زیادہ یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ سنہء 1840 میں دمشق کے یہودیوں پر خونریزی کا الزام لگا اور ان کو قتل عام کیا گیا۔ ان کے ریفرنسز کئی جگہ پر مل جائیں گے ویسے ممتاز مستشرق جی ای وان گرونبام نے بھی اسے اپنی کتاب میں لکھا ہے: یہودیوں کی تاریخ میں یہ تمام قتل عام کے نمونے مسلمان ریاستوں کے حوالے سے موجود ہیں۔ یہ سب سنہء 1948 کی جنگ سے پہلے کے ہیں، اور سنہء 1948 کی جنگ کے بعد عرب لیگ کی ریاستوں نے اپنے زیادہ تر یہودیوں (850,000) کو بے دخل کیا۔

آمین الحسینی جو واقعہ نکبہ کے عہد میں فلسطینی جدوجہد کی علامت رہے، امین الحسینی فلسطین کی جدید ترین تاریخ کا حصہ ہیں، کالونلزم کا عروج کا عہد تھا جب جلاوطن ہونے والے امین الحسینی یورپ چلے گئے وہاں ہٹلر سے انہوں نے ملاقات کی، اور ایک انٹرویو کیا، اس انٹرویو کے بارے میں آمین الحسینی کا تاثر تشویشناک تھا، جس کے بارے می۔ امین الحسینی کا موقف تھا کہ
“ہٹلر کے ساتھ میرا انٹرویو ایک گھنٹہ پینتیس منٹ پر محیط تھا، جب میں نے اسے الوداع کہا اور وہاں سے چلا گیا، تو میں پریشان تھا کیونکہ ہٹلر کو کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا, موجودہ حالات میں عربوں کو اس خوف سے کہ اس سے بعض دوسرے ممالک میں رد عمل پیدا ہو جائے گا، جو کہ جرمنی اب اس کو نہیں اٹھانا چاہتا… اس لیے میں نے ان کی تقریر میں اس مقام پر کوئی اطمینان محسوس نہیں کیا، حالانکہ ہمیں بین الاقوامی صیہونیت اور اس کے استعماری حامیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کے لحاظ سے اس کے بنیادی منصوبے کے ذریعے یقین دہانی کرائی گئی تھی”.

ایک سال بعد، امین الحسینی، ہٹلر اور مسولینی کی طرف سے صرف عرب مقاصد کی حمایت کا واضح اور عوامی اعتراف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ امین الحسینی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ
“جرمنی عرب ممالک کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ برٹش جبر کے دکھ جھیلنے اور ان کی خودمختاری اور آزادی کو تسلیم کرنے کے لیے اس کے اتحاد پر متفق ہوں۔

اس سے کچھ پہلے سے ہی سلطنتیوں کا پوری دنیا میں زوال شروع ہوگیا تھا اور قوم پرستی کی بنیاد پر نئے ممالک بننے لگے۔ سلطنت عثمانیہ نے بھی اس سرزمین پر قبضہ ہی کیا جو کسے معلوم تھا کہ اسرائیل بن جائے گا، حالانکہ یہودی عثمانی سلطنت کے علاوہ بھی کچھ ممالک میں اچھی طرح ضم ہو چکے تھے۔ مگر اس وقت جرمن صحافی تھیوڈور ہرزل نے یہ نیا مقدمہ پیش کیا اور محسوس کیا کہ یہودی چاہے جتنے بھی الحاق شدہ کیوں نہ ہوں، ان کے میزبان ممالک انہیں کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اس نے اعلان کیا کہ یہودیوں کو محفوظ رہنے کے لیے اپنے وطن کی ضرورت ہے، ہرزل نے قیصر سے ملاقات کی، جس نے اس کا مذاق اڑایا: صیہونیت اس وقت تک پنپ نہیں سکتی جب تک کہ 3 سلطنتیں نہ گریں۔ بہرحال آج اسرائیل کا وجود موجود ہے، یہودی رعایا یا اسلامی علاقے کے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ناموں کو سرچ کرنا اتنا مشکل نہیں ہوگا جنہوں نے اعلیٰ عہدہ، اقتدار، زبردست مالی اثر و رسوخ، اہم اور تسلیم شدہ فکری کامیابی حاصل کی ہے۔ اور عیسائیوں کے لیے بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ظلم و ستم، من مانی ضبطی، جبری تبدیلی کی کوششوں، یا قتل و غارت کی ایک لمبی فہرست مرتب کرنا پھر مشکل نہیں ہوگا، اور یہ سب کچھ کسی ایک مذہب یا خطے میں نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہر خطے میں رہا ہے۔

یہ ان لوگوں کی بدقسمتی ہے، جو گزری تاریخ کے ہر خطے اور ہر عہد کو اپنی من چاہی تعبیرات سے دیکھنا چاہتے ہیں، ہم اپنی من چاہی تفہیم یا پسندیدہ مورخین کی تاریخ کو پڑھتے ہیں، جو ہمارے پہلے سے طے شدہ خیالات کے موقف کے نمائندہ ہوتے ہیں، ایک مزید بدقسمتی یہ ہے کہ تاریخ کے ہر ورق سے ہم سیاہ و سفید کے نتائج نکالنا چاہتے ہیں، حالانکہ تاریخ کا ہر عہد اتنی متنوع جہتیں بیان کر رہا ہوتا ہے کہ سیاہ اور سفید کے درمیان میں کئی ایسے گرے ایریاز رکھتا ہے جس کے بھی کثیر شیڈ موجود ہوتے ہیں۔ عرب سماجیات کے کئی پہلوؤں پر لکھنا میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ہے، میں کسی ایک واقعے یا کسی بھی سماجی روئیے یا تاریخ سے جڑے کسے نشان یا مظہر پر ایک محدود زاوئیے سے مگر تفصیلی پوسٹ لکھتا ہوں، اس میں مذکور واقعے کی تفصیلی جائزہ مگر اسی واقعے کی محدودیت سے جڑا ہوتا ہے، اس میں آپ مجھے تاریخ کے دوسرے پس منظر یا اس سے پہلے یہ ہوا تھا کی تکرار پر متوجہ کرتے ہیں۔ جو یقینا غیر ضروری ہوتا ہے۔ کسی واقعے میں فلسطین کے کسی پکوان کا ذکر ہے تو وہاں کسی اور بحث کی ضرورت نہیں، کسی پوسٹ میں عثمانیوں کے عہد میں یہودیوں کو مراعات دینے کی بات ہے تب بھی وہاں پر فلسطین قضئیے کے مباحث کا آغاز نہیں بنتا۔

ہم نے انسانی خون کو بھی اپنی مرضی سے طے کیا ہوا ہے ہمیں افسوس یکطرفہ خون کا ہوتا ہے دو طرفہ خون بہنے کا افسوس جس دن ہو جائے گا تو شاید حالات ٹھیک ہو جائیں گے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے مگر کبھی ماضی میں جا کر عرب میں ہونے والی یہودیوں کی نسل کشی کی بھی ہزار سالہ تاریخ پڑھ لیں۔ آپ کی تاویلات میں جب آپ تاریخ بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کے مخالفین کے پاس آپ کی نسبت سے بھی ایک تاریخ موجود ہے، مزید ستم یہ ہے کہ جب آپ ان یہودیوں کا ریفرنس دیتے ہیں، جنہوں نے اسرائیل یا صیہونیت کے مظالم کی داستانیں لکھی ہیں تو آپ واہ واہ کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے صیہونیوں کے مظالم کی داستان بالکل درست لکھی ہے لیکن اس کے مقابلے میں جب تاریخ کے ایک دوسرے رخ کے مظالم کی داستان سنائی جاتی ہے تو آپ کو منافق و لبرل وغیرہ جیسے الزامات کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

مجھے شدید غم ہے کہ کوئی بھی انسان بے گناہ مرے، چاہے وہ یہودی ہو یا مسلمان، میرے پاس بہنے والے خون کے لئے کوئی تاویل نہیں ہے، آپ کو ھماس سے ہمدردی ہوسکتی ہے، مگر یاد رکھیں جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ہسپتال پر یااسکول پر حملہ ہوا ہے تو یقین کریں مجھے دکھ ہوتا ہے مگر کبھی سوچا کہ یہ بات حماس خود ماضی میں قبول کر چکے ہیں کہ وہ ہسپتالوں اور بچوں کے سکولوں کو اپنا بیس کیمپ بناتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں، فلسطین کے لیے جو سب سے بڑی تنظیم بین الاقوامی سطح پر امداد جمع کرتی ہے اس کا نام UNRWA ہے، چند ماہ پرانی ان کی ٹویٹس دیکھ لیں تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ وہ فلسطین اتھارٹی کے حصے میں امداد کا ایک بڑا حصہ حماس کو دیتے ہیں جو وہ لوگ عوام کے اوپر خرچ کرنے کے بجائے عسکریت پر خرچ کرتے ہیں، اسی لئے UNRWA کو ماضی میں امریکہ کی جانب سے اور کئی معاملات میں مخالفت کے علاوہ بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔

میرے لئے یہ جنگ یہ بہتے خون، یہ فساد ہر حالت میں بغیر کسی تاویل و دلیل کے قابل مذمت ہے، یہاں طاقتور کا زور چلتا ہے، ہر طاقتور اپنی طاقت سے جبر کرتا ہے ظلم کرتا ہے، آج صیہونی ریاست یہی کام کررہی ہے۔ مجھ سے ناراض ہونے کے بجائے یہ سمجھ لیں کہ تاریخ ایسی ہی بے رحم ہے۔ اس میں صرف وہی جذبے جیتتے ہیں، جو رحم اور انسانیت کی بنیاد پر ہوتے ہیں، مسلمانوں نے بھی کئی جگہ قرآن کے احکامات سے ہٹ کر ذاتی ریاستی فیصلوں پر ماضی میں یہودیوں کی عبادت گاہیں جلائی تھیں ۔اسرائیلی یہودی جو کل کے مظلوم تھے وہ آج ظالم بن کر فلسطینیوں پر جبر و زیادتی کررہے ہیں، مگر بہتے خون میں مجھ سے ظالم و مظلوم کی تخصیص تو ہوسکتی ہے مگر صرف مذہب کی بنیاد پر یا ماضی کی تاویلات پر خون بہانے کو میں درست نہیں سمجھ سکتا۔ میرا بھی دل اتنا ہی افسردہ ہے جتنا شاید کسی اور کا ہوسکتا ہے، مگر میرے پاس کوئی تاویل بھی نہیں ، مجھ سے حل بھی مت پوچھیں کہ میں صرف ایک عام انسان کی طرح صرف صحیح و غلط دیکھ سکتا ہو۔ مگر میں کوئی جذباتی باتیں کرکے پاکستان یا پوری دنیا کے ستاون اسلامی ملکوں کو آپ کی طرح مطعون بھی نہیں کرسکتا۔ نہ ہی بے گناہ فلسطینیوں کے بہتے خون کو گلیمرائز کرسکتا ہوں، وہ جنت میں جارہے ہیں۔ عام فلسطینی شہری کا کیا قصور ہے جو وہ مررہا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو ایک اچھی تعلیم اور اچھی زندگی دینا چاہتے ہیں۔ مگر تف ہے یہودیوں پر بھی کہ اتنی ذلتوں کے سفر کے بعد وہ آج طاقت میں ہیں تو وہی کررہے ہیں اور خود بھی انسان بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

نوٹ : یہ نیچے ریفرنسز موجود ہیں ۔

میں نے یہاں صرف یہود کے قتل عام میں مسلم ریاستوں کا ہی ذکر کیا ہے، دوسری ریاستوں یا یورپ میں جو ہوا وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
یہاں میں نے خصوصاً عرب میں کالونلزم کے ادوار میں بھی یہود کے قتل عام کا بالکل تذکرہ نہیں کیا ہے، یہ سب اس سے پہلے جب مکمل ریاستی اقتدار بغیر کسی غلامی کے مسلمانوں کے پاس تھا۔
موجود پوسٹ کی تصویر فلسطینی رہنما آمین الحسینی کی ہے جو ہٹلر کے یہودیوں کے خلاف معاملات کی ملاقات میں کھینچی گئی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

1. Vamberto Morais, A Short History of Anti-Semitism, (NY: W.W Norton and Co., 1976), p. 11; Bernard Lewis, Semites & Anti-Semites, (NY: WW Norton & Co., 1986), p. 81.
2. Bernard Lewis, “The Pro-Islamic Jews,” JudaismJudaism, (Fall 1968), p. 401.
3. Bat Ye’or, The Dhimmi, (NJ: Fairleigh Dickinson University Press, 1985), pp. 43-44.
4. Bat Yeor, pp. 30, 56-57; Louis Gardet, La Cite Musulmane: Vie sociale et politique, (Paris: Etudes musulmanes, 1954), p. 348.
5. Bat Yeor, pp. 185-86, 191, 194.
6. Norman Stillman, The Jews of Arab Lands, (PA: The Jewish Publication Society of America, 1979), pp. 59, 284.
7. Maurice Roumani, The Case of the Jews from Arab Countries: A Neglected Issue, (Tel Aviv: World Organization of Jews from Arab Countries, 1977), pp. 26-27.Tel Aviv: World Organization of Jews from Arab Countries, 1977), pp. 26-27.
8. Bat Ye’or, p. 61
9. G.E. Von Grunebaum, “Eastern Jewry Under Islam,” Viator, (1971), p. 369.
10. Bernard Lewis, The Jews of Islam, (NJ: Princeton University Press, 1984) p. 158.
11. Middle Eastern Studies, (1971), p. 232.
12. New York Times, (February 19, 1947).
13. Roumani, pp. 30-31

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply