وکلاء:ڈگری‘ ڈگری ہوتی ہے۔۔آغرؔ ندیم سحر

تعلیم‘انصاف اور صحت،یہ تین ادارے کسی بھی ملک کی شناخت ہوتے ہیں۔آپ اگر کسی ملک کی ترقی یا کسی حکومت کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ ان تین اداروں کا سروے کریں‘عوام الناس سے ملیں ان اداروں کی ترقی یا مسائل کا جائزہ لیں‘آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ ملک یا حکومت کہاں سٹینڈ کرتی ہے۔پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ان تینوں اداروں کو کمرشلائز کر دیا‘ان تینوں اداروں کو ٹھیکے پر دے دیا‘یہ تینوں ادارے ہمارے ہاں تجارت کا ذریعہ بن گئے اور یوں پاکستان میں تعلیم‘انصاف اور صحت بزنس بن کر رہ گیا سو آج ان تینوں اداروں کی کارکردگی کیا ہے‘ہم سب جانتے ہیں۔ان تینوں اداروں پر اس سے قبل بھی کئی کالم لکھے اور یقیناً مزید اس پر بات ہوتی رہے گی مگر مجھے آج صرف پنجاب بار الیکشن اور حال ہی میں ہائیکورٹ میں چلنے والے ”وکلاء جعلی ڈگری“کیس پر بات کرنی ہے۔آپ آگے بڑھنے سے قبل یہ سوچیں جس ملک میں وکلاء‘ڈاکٹرز اور پروفیسرز جعلی ڈگریوں والے بیٹھے ہوں‘اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟۔یہ سوال میں آپ پہ چھوڑتا ہوں اور مجھے قوی یقین ہے کہ آپ بہتر فیصلہ کر سکیں گے۔

اٹھائیس نومبر پنجاب بار کونسل کا الیکشن(2020-25ء) تھا‘صرف لاہور سیٹ پر ستانوے ممبرز نے مقابلہ کیا جس میں سولہ لوگ منتخب ہوئے۔اس الیکشن کے حوالے سے گلزار بٹ نامی خاتون نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ (پٹیشن نمبر:45667/2020)دائر کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ جعلی ڈگری رکھنے والے وکلاء کے خلاف کاروائی کی جائے‘یوں ہائیکورٹ نے پنجاب یونیورسٹی کو حکم دیا کہ وہ وکلاء ڈگریوں کی تصدیق کرے۔یونیورسٹی نے جب تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کی حالیہ پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں لاہور سیٹ پر منتخب ہونے والے سولہ ممبرز میں سات کی ڈگریاں ہی جعلی ہیں۔یہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ بار الیکشن تک پہنچنے والے وکلاء کی پریکٹس کم از کم بیس سال تک ہوتی ہے سو ایسے میں اندازہ لگایا جائے تو جعلی ڈگری رکھنے والے وکلاء پچھلے بیس سالوں سے پریکٹس بھی کر رہے تھے اور اپنے اپنے چیمبرز بنا کر خوب دیہاڑی لگا رہے تھے۔کئی ایسے ممبرز بھی سامنے آئے جو پنجاب بار میں اہم ترین عہدوں پر بھی موجود رہے مگر افسوس ڈگری جعلی نکلی۔یہ صرف لاہور سیٹ کی بات ہے‘آپ پورے پنجاب یا پھر پورے پاکستان بار کی سیٹوں اور منتخب ہونے والے ممبرز کا ڈگریوں یا پاکستان بھر میں موجود وکلاء کی ڈگریوں کی تصدیق کروائیں‘یقینا ً پچاس فیصد ایسے لوگ نکل آئیں گی جن کا خیال ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘جعلی ہو یا اصلی۔لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم علی خان نے پنجاب یونیورسٹی کو ہدایت کی کہ وہ تمام وکلاء کی ڈگریوں کو تصدیق کرے۔

آپ کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ پاکستان میں کتنی یونیورسٹیاں اور ادارے لاء کی ڈگری کروا رہے ہیں‘اگر ایسے ہی عدالت ان کو حکم کرے کہ تمام یونیورسٹیاں وکلاء کی ڈگریاں تصدیق کرے‘تو کتنے وکلاء جعلی نکلیں گے۔میں ذاتی طور کئی ایسے وکلاء کو جانتا ہوں جو گزشتہ تین دہائیوں سے لاہور ہائیکورٹ کا حصہ ہیں اور بڑے قدآور وکیل مانے جاتے ہیں مگر افسوس ڈگری جعلی نکلی۔کیا یہ سسٹم ہے؟۔عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد نہ صرف وکلاء برادری پہ سوالیہ نشان اٹھا بلکہ ہمارے تعلیمی سسٹم‘ہماری جامعات‘ہمارے قانونی اداروں سمیت ہمارے حکام پر بھی کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔جس ملک میں قانون کی جنگ لڑنے اور مظلوم کو حقوق دلوانے والے”جنگجو“ہی جعلی نکلیں تو اس ملک میں مظلوم کو نیند کی گولی کھا سو جانا چاہیے۔آپ کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ جب کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ادارہ کالی بھیڑوں سے بھر جائے توکسے مسیحا کہیں‘کس سے منصفی چاہیں۔

اس سے صرف عام لوگ یا ادارہ ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ وہ اکلاء جنہوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کی‘صاف اور شفاف طریقے سے امتحانی نظام سے گزرے اور ڈاگری لیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔میڈیا پر چلنے والی یہ خبر کہ وکلاء بھی جعلی نکلے‘عوام الناس نے اس خبر کو کیسے لیا ہوا گا۔ایک عام آدمی آج کے بعد ہر وکیل کو شک کی نظے سے دیکھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہمی لوگ وکیل کرنے سے پہلے اس کی ڈگری کی تصدیق کرواتے پھریں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ مین بھی ینگ وکلاء برادری نے رٹ دائر کی کہ اسلام آباد کے تمام وکلاء کی بھی ڈگریاں تصدیق کروائی جائیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہاں بھی صورت حال لاہور سے قطعاً  مختلف نہیں ہوگی۔میری عدالت سے گزارش ہے کہ جامعات اور اداروں میں موجود ان کالی بھیڑوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا جائے جو ان سارے معاملات میں ملوث ہیں اور جنہوں نے مختلف ادوار میں وکلاء کو نوازا اور کس کس کے کہنے پر یہ سب ہوا۔

آپ 3دسمبر کی کورٹ کی سماعت دیکھیں۔پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈپٹی کنٹرولر عصمہ خان پیش ہوئیں‘انہوں نے بتایا کہ کہ پنجاب بار کونسل میں کامیاب امیدوار جمیل اصغر بھٹی کے رول نمبر پر جاوید اقبال کا نام رجسٹرڈ ہے۔داخلہ فارم بھی جاوید اقبال کے نام سے ہے لیکن پنجاب یونیورسٹی کے عملے کی ملی بھگت سے اس رول نمبر پر جمیل اصغر بھٹی کا نام ظاہر ہوا اورایل ایل بی کے سال دوم میں جمیل اصغر بھٹی کا رول نمبر رائے خالد بشیر کے نام سے جاری ہوا۔یہاں چیف جسٹس نے ریمارکس پاس کرتے ہوئے نہ صرف یونیورسٹی وائس چانسلر بلکہ رجسٹرار اور اساتذہ کے بارے میں کہا کہ اساتذہ اور خاتون کا احترام اپنی جگہ مگر ان کے روپ میں جرائم پیشہ افراد کا کوئی احترام نہیں۔آپ ظلم دیکھیں کہ چیف جسٹس قاسم علی خان کے بقول جعلی وکیل محمدشاہد رانا کی ڈگری کی تصدیق کے عمل میں ظاہر ہوا کہ گزٹ کا پورا صفحہ پھاڑ دیا گیا ہے‘صرف جعلی ڈگری چھپانے کے لیے۔میرے سامنے اس وقت عدالت کی مکمل کاروائی اور جعلی ڈگری رکھنے وکلاء کی فہرست پڑی ہے اور شدید حیرانی کے بعد یہ کہنا پر رہا ہے کہ واقعی اس ملک میں مظلوم کو انصاف ملنا محض دیوانے کا خواب ہے کیونکہ جب وکیل اپنے پیشے سے مخلص نہیں‘تو مظلوم سے کیسے ہو سکتا ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2016ء میں فیصل آباد میں ایک ایم این اے کی جعلی ڈگری نکلی‘عدالت نے تحقیق شروع کروائی تو اس ایک ایم این اے کی ڈگری جاری کروانے کے سارے  عمل میں یونیورسٹی کے دو سو سے زائد لوگ ملوث نکلے اور اب بھی صورت حال مختلف نہیں ہوگی۔عدالت آج تمام جامعات اور قانون کی ڈگری جاری کرنے والے اداروں سے کہے کہ وہ وکلاء ڈگریوں کی تصدیق کا ریکارڈ پیش کریں اور اس میں ملوث کالی بھیڑوں کا نام ظاہر کریں تو اندازہ کریں کتنے لوگ اس میں ملوث نکلیں گے۔یہ صرف پاکستان کے ایک اہم ترین شعبے کا حال ہے‘باقی شعبوں کے بارے میں آپ خود سوچ لیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply