اولاد کا احتساب اور قرآن مجید۔۔اعظم سلفی مغل

اولاد کی تربیت والدین کی مستقبل کی حیات مستعار کی آسودگی کے لیے ازحد ضروری ہے۔
کیونکہ اولاد وراثت میں والدین کا رنگ و روپ، قدو قامت، انداز نشست و برخاست اور طرزِ تکلم ہی نہیں اپناتی بلکہ والدین کی اچھی بری، مثبت اور منفی عادات و اطوار اور رویے بھی ان میں منتقل ہوتے ہیں۔

ہمارے پاس قرآن و حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ موجود ہے۔ اللہ نے جہاں والدین کے حقوق سب سے زیادہ رکھے ہیں وہیں اولاد کے حقوق بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

اولاد کے حقوق اچھا کھلانا   پلانا ہی نہیں بلکہ دینی تعلیمات و ہدایات سے روشناس کروانا اور اچھے کاموں کی تلقین کرنا اور برے کاموں سے بچنے کے لیے اولاد کو سمجھانا جس طرح قرآن مجید میں حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو چند آیات میں نصیحتیں فرمائی ہیں۔
ملاحظہ ہوں۔
اللہ تعالیI  قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔
وَاِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٝ يَا بُنَىَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّـٰهِ ۖ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِـيْمٌ (13)
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔
دوسری جگہ فرمایا۔
يَا بُنَىَّ اَقِمِ الصَّلَاةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِـرْ عَلٰى مَآ اَصَابَكَ ۖ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (17)
بیٹا نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور تجھ پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کیا کر، بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہیں۔
وَلَا تُصَعِّـرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِى الْاَرْضِ مَرَحًا ۖ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (18)
اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیر اور زمین پر اترا کر نہ چل، بے شک اللہ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
وَاقْصِدْ فِىْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ اِنَّ اَنْكَـرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَـمِيْـرِ (19)
اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر، بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے۔

غور کیجیے حضرت لقمان علیہ السلام کا اپنے لختِ جگر کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترغیب کا انداز کس قدر خوبصورت ہے۔

ہر والدین اپنے پھولوں کو زمانے کی   گرم سرد  ہواؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ بچے کے مستقبل کے ساتھ ظُلمٌ شَدیدٌ ہے۔ کیونکہ اگر آپ کے بچے کو آپ کے پیار و محبت کی وجہ سے زمانے کی لڑکھڑاتی سختیوں کا اندازہ نہ ہو پائے تو وہ بڑا ہو کر وہی آسائشیں طلب کرے گا ،نہ  ملنے پر بچے کا ردِ عمل یقیناً ہٹ دھرم اور منفی اثرات کا اظہار ہو گا۔

یاد رہے دین صرف نماز روز زکوٰۃ حج ہی نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بھائی کی دل آزاری نہ  کرنا بھی اسلام ہے آپکے اخلاق اور معاملات بھی دین ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات اور اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے بچوں کی اچھی تربیت آپکے مستقبل میں بڑھاپے میں سکون کا باعث بنے گا۔
ورنہ پچھتاوا تو مقدر میں ہے ہی۔
اور اس کے قصور وار والدین خود ہونگے کیونکہ اللہ تعالیٰ  نے اپنے آپ کو آخرت کی بہتری کے لئے متنبہ کر دیا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم 6)
اے ایمان والو
اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کو آگ سے بچاؤ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں
اللہ تعالیٰ تمام والدین کی اولاد کو انکی آنکھوں ٹھنڈک بنائے اور والدین کے لیے باعث سکون اور اطمینان و نجات بنائے۔
آمین ثم آمین!

Facebook Comments

اعظم سلفی مغل
حافظ قرآن مطالعہ کا شوقین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply