انسان فطرتی طور پر تجسس کی نفسیات لے کر پیدا ہوا ۔ وہ کیوں اور کیسے سے کبھی جان چھڑا ہی نہیں سکتا ۔ بالکل اس بچے کی طرح ، جو جیسے ہی دنیا میں آتا ہے تو جو کچھ اس کے مشاہدے میں آتا ہے اسے چُھو کر اُلٹ پلٹ کر ، اس چیز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ اپنے بس کی حد تک معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسی طرح جب اس انسان نے آسمان کی طرف نگاہوں کو پھیرا ، تو اس کی وسعت اور رنگینی اس کی آنکھوں کو خیرہ کر گئی ۔ اور اپنے اردگرد کی زمین کو دیکھا تو اس میں تنوع بھی اسے بہت بھایا ۔ لیکن جہاں وہ اپنے اردگرد خوبصورتی اور تنوع کا مشاہدہ کر رہا تھا ، وہیں سب کی ابتداء اور اختتام کو بھی دیکھ رہا تھا ۔ سب سے پہلے تو اس کے اپنے جیسے تھے جو پیدا ہوتے، جوان ہوتے اور پھر ختم ہو کر کہیں چلے جاتے ۔ سوال یہ تھا کہ یہ مادہ جو جسم کی شکل میں ہے زندگی اور شعور لے کر کہاں سے آتا ہے اور پھر اس میں سے کیا چیز ہے جو نکل جاتی ہے جو اس مادے کو بے جان بنا دیتی ہے ۔ اور وہ زندگی اور شعور کیا کسی اور جہاں میں باقی رہتے ہیں یا صرف ہماری نظروں سے اوجھل ہو کر یہیں اردگرد موجود رہتے ہیں ۔
یعنی پہلا سوال یہ اٹھا کہ اس زندگی کا مفہوم کیا ہے ۔
اور دوسرا یہ کائنات کیا چیز ہے ۔
ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر یہ سب کچھ ان جھوٹی چھوٹی اشیاء کے ساتھ ہو رہا ہے تو یہ آسمان پر موجود مجموعہ اجسام جنہیں کائنات کا نام دیا گیا کیا یہ اس کے ساتھ بھی معاملہ ہوا ہے یا ہوگا ۔ یعنی کیا کوئی اس کی بھی ابتداء اور انتہاء ہے ۔ اگر ان سوالات کو سمیٹیں تو یہ بنیادی طور پر دو ہی سوال ہیں
اس کائنات کی ابتداء کیا ہے ؟
اس کی انتہاء کیا ہے ؟
کائنات اس طرح کہ جب میں انسان بھی اسی کائنات میں موجود ہوں اور اسی کا حصّہ ہوں ، تو جو معاملہ اس کے اندر باقی اشیاء کے ساتھ میری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے وہ میرے ساتھ بھی تو ہوگا ۔
یعنی جہاں میں نظروں کے سامنے موجود چیز کی ابتداء اور ان کا ختم ہو جانا دیکھ رہا ہوں ، وہاں یہ کائنات بھی تو ابتداء اور انتہاء رکھتی ہو گی۔
ارسطو نے ان دو سوالوں کے متعلق کہا تھا کہ کائنات ایک پرانی کتاب ہے جس کا پہلا اور آخری صفحہ گم ہے ۔ یوں کہہ لیں کہ انسان انہی دو گمشدہ صفحات کی تلاش میں ہے ۔ ان گمشدہ صفحات کی تلاش کےلیے اس نے اپنی طرف سے دو طریقے اختیار کیے
اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر کچھ جوابات وضع کرنے کی کوشش کی جسے فلسفہ کہا جاتا ہے ۔ یوں سمجھ لیں کچھ عقلی مقدمات قائم کر کے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش ۔
کچھ سوالات کی توجیہ کرنے کے بعد ایک بڑا سوال فلسفے کے سامنے کھڑا ہو گیا کہ ابتداء کےلیے مادہ کہاں سے آیا ۔ فلسفے نے کچھ بے بسی کے عالم میں کہیں یہ جواب بھی دیا کہ سب سے پہلے ( confusion ) کنفیوژن تھی جس نے اکٹھا ہو کر انڈے کی شکل اختیار کی ۔ اس انڈے کے اندر سے زندگی کی ابتداء ہونا شروع ہو گئی ۔ جہاں وہ مادہ کے آنے کو بیان نہ کر پایا ، وہاں اس لاعلمی کو کنفیوژن کا نام دے دیا ۔
دوسرے انسان کے خیال میں اگر وہ خود ( روح ) کو اس فانی بدن سے نکال لے ، تو وہ وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جسے ماورائی دنیا کہا جاتا ہے ۔ اور اس ماورائی دنیا تک پہنچ کر وہ ان دو گمشدہ صفحات کو ڈھونڈ لے گا ۔ اسے تصوف کا نام دیا گیا ۔ اس مروائی دنیا کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے یہی کہتے ہیں کہ ہمارا اس کائنات کو وجود اور اختتام دینے والے سے رابطہ ہو گیا ہے اور اس کائنات کے انجام کی کچھ جھلکیاں ہم خود بیداری کے عالم میں دیکھ کر آئے ہیں ۔ کچھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ کائنات کو آغاز اور انجام دینے والے نے کچھ اختیار بھی ہمیں اس مادی دنیا کے متعلق سونپ دیے ہیں ۔ وہ مادہ جس سے اس کائنات کی ابتداء ہوئی اسی ماورائی ہستی کا حصہ ہے ۔ وہ پہلے سے موجود نہیں تھا ، اس نے خود اپنے وجود سے وہ مادہ لیا اور اس کائنات کو تخلیق کر دیا ۔
بہرحال انسان کے بس میں ان دو گمشدہ صفحات کو تلاش کرنے کے یہی دو طریقے تھے ۔ ان دو طریقوں سے جو تصورات پیش کیے جاتے کچھ عرصے ان کی دھوم رہتی پھر جوابات پیش کرنے والے خود ہی غیر مطمئن ہو جاتے اور جھنجھلا کر کہتے کہ یہ دو صفحات تھے ہی نہیں جو کچھ ہے وہ یہی درمیان والے صفحات ہیں ۔ اور یہی مکمل کتاب ہے ۔
جب یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ، کہ انسان کے پاس بے بسی کی انتہاء ہو جاتی ، تو خالق اپنے پیغامبر ان دو صفحات کو بتانے کےلیے بھیج دیتا ۔ اور وہ ساتھ یہ دعویٰ کرتا کہ دیکھ لو تمہارے دیے جوابات کوئی وزن رکھتے ہیں یا یہ جوابات جو خدا کا پیغمبر دے رہا ہے ۔ کیونکہ انسان شروع کے صفحہ سے کچھ زیادہ آخری صفحے کے متعلق فکر مند ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے روزانہ اس جیسے انسان اپنے آخری صفحے کی جانب بڑھ کر نظروں سے اوجھل ہو رہے تھے تو موجود انسان یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ نظروں سے اوجھل ہو کر کہاں چلے گئے اور ان کے ساتھ وہاں کیا معاملات پیش آ رہے ہوں گے ۔
جہاں پیغمبر آ کر صرف بتا رہے تھے کہ وہاں یہ اور یہ معاملات یہاں کئے گئے کاموں کی بنیاد پر پیش آئیں گے ، وہاں انسان کے احاطہ ادراک میں اسے لانے کےلیے چھوٹی سطح پر وہ انجام برپا کر کے دکھا دیا گیا اور باقی رہ جانے والوں کےلیے اسے اسٹیبلشڈ ہسٹری بنا دیا گیا ۔ جو اس خدا کے پیغامبر کی بات کو تسلیم کر لیتا اسے بچا لیا جاتا اور جو انکار کرتا اسے عذاب کے حوالے کر دیا جاتا ۔
اس واقعہ کے اثرات جب تک باقی رہ جانے والوں کے ذہنوں میں رہتے وہ خدا کے بھیجے پیغمبر کی باتوں پر یقین اور عمل کرتے رہتے ۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انسان ان واقعات کی توجیہات کرکے غیر مطمئن ہو جاتا ۔ اور اثرات مدھم ہونا شروع ہوتے تو پھر سے انسان اپنے بس میں موجود انہی دو ذرائع سے ، یعنی فلسفہ اور تصوف سے گمشدہ دو صفحات کی تلاش شروع کر دیتے ۔ آخری مرتبہ خدا کی طرف سے ان دو صفحات کی تفصیلات آئیں ،انہیں خدا نے محفوظ کرنے کا وعدہ کر لیا اور مخاطبین کو چیلنچ دے دیا کہ تم اپنے ذرائع سے جو جوابات حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہو اور کرتے رہو گے میرے پیش کردہ سے چیک کر کے خود فیصلہ کر لینا کہ کسے قبول کرنا ہے ۔ اور ہم کتاب ختم ہونے کے بعد تمہارے انجام کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں