گندم/ناصر خان ناصر

ہمارا صوبہ پنجاب متحدہ ہندوستان میں نہ صرف پورے ملک کے لیے اناج پیدا کیا کرتا تھا بلکہ اس کی سونا اگلتی زمینوں کی بدولت ہی ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔
ملکی تقسیم کے بعد بھی ہمارا پنجاب پورے پاکستان یعنی مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کے علاوہ افغانستان اور دیگر ممالک کو بھی گندم سپلائی  کرنے لگا تھا۔
بھارت نے اس زمانے سے ہی پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ پنجاب اور سندھ میں آنے والے دریاوں کے رخ بدل کر اور ان پر ڈیمز بنا کر ہمارے ملک میں پہنچنے والے پانی کی مقدار میں بہت کمی کر دی گئی  تھی۔

اس امر کی بدولت پاکستان جو ایک مکمل زرعی ملک تھا، بہت تیزی سے پستی کی طرف سفر کرنے لگا۔ گندم کی کمی پہلی بار خواجہ ناظم الدین صاحب کے زمانے میں ہوئی ۔ اس زمانے میں گندم کی فصلیں تباہ ہونے سے ملک بھر میں قحط جیسی خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی  تھی۔ لوگ جناب خواجہ ناظم الدین صاحب کو “خواجہ ہاضم الدین” کہنے لگے تھے اور جناب لیاقت علی خان صاحب کے لقب قائد ملت کے مقابلے میں انھیں “قائد قلت” کا لقب عنایت فرمایا گیا تھا۔

اس زمانے میں ملکی حالات اتنے دگرگوں ہو گئے تھے کہ کئ جگہوں پر عوام کو گھاس اور جڑیں ابال ابال کر کھانی پڑی تھیں۔ بے شمار شہروں قصبوں میں ہنگامہ آرائی  اور ہڑتالوں میں حکومت وقت اور وزیر آعظم کے علامتی جنازے نکلنا شروع ہو گئے تھے۔تب امریکہ بہادر نے ترس کھا کر اپنی دس ہزار ٹن گندم کی بوریاں بطور امداد دو قسطوں میں 1953 میں پاکستان کو بھجوائیں تھیں۔

یاد رہے کہ امریکہ لاکھوں ٹن گندم ہر سال سمندر میں پھینک دیتا ہے تاکہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت چڑھی رہے اور انھیں اس مصنوعی قلت کی بدولت عالمی منڈی میں اپنی گندم کی اچھی مناسب قیمت مل سکے۔

یہی حال چینی کا بھی ہے۔ امریکہ میں بننے والی سرپلس چینی کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔

خیر قصہ مختصر امریکن صدر کینیڈی صاحب کی امریکن خیر سگالی نے پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے قرضے اور امداد بھی دی ۔
جناب خواجہ ناظم الدین صاحب نے خود کراچی بندرگاہ پر جا کر اس امریکن امداد کا خیر مقدم کیا تھا اور جن اونٹ گاڑیوں کے ذریعے یہ گندم جہازوں سے باہر شہر میں لائی  گئی  تھی، ان کے اونٹوں کے گلے میں “تھینک یو امریکہ” کی تختیاں ڈال دی گئی  تھیں۔
امریکن جریدے ٹائمز نے اونٹ گاڑیوں کی یہ تصاویر اپنے سرورق پر شائع کی تھیں۔

پھر ایوب خان صاحب کے زمانے میں پاکستانی محکمہ زراعت کو امریکہ کی طرف سے میکسی پاک گندم کے بیج تحفے میں دیے گئے۔ یہ نئی  قسم فی ایکڑ پیداوار تو زیادہ دیتی تھی مگر اس کی روٹی نہایت بدذائقہ اور سخت بنتی تھی۔ پکتے ہی ربڑ کی طرح سخت ہو جاتی اور اسے چبانے میں دشواری ہوتی۔ خیر لوگوں نے رو دھو کر اسے کھانے کی عادت بھی ڈال لی مگر اس گندم نے تمام زرخیز زمینوں کی ساری توانائی  نچوڑ لی اور آہستہ آہستہ پیدوار کم ہوتی چلی گئی ۔

برسبیل تذکرہ امریکن نائب صدر لنڈن بی جانسن صاحب جب پاکستان دورے پر تشریف لائے تو ایک اونٹ گاڑی والے ساربان کو سڑک پر روک کر اس سے ہاتھ ملایا اور اسے امریکہ آنے کی دعوت دی جو اس نے فورا بخوشی قبول کر لی۔

ان بشیر ساربان صاحب کو پاکستانی حکومت نے عمدہ کپڑے پہنا کر1961 میں امریکہ بھجوایا جہاں ان کی وی آئی  پی پذیرائی  کی گئی ۔ انھیں امریکہ کے بہت سے مقامات کی سیریں کروائی  گئی   اور ہر جگہ انھوں نے پریس کو نہایت عقلمندی سے دانشمندانہ جواب دیتے ہوئے لاجواب کیے رکھا۔

آج کل پاکستان میں گندم کی چھوٹے قد کی ایک ایسی قسم اگائی  جاتی ہے جو سال میں تین بار فصل دیتی ہے۔ مصنوعی کھادوں کے بے دریغ استعمال نے پاکستانی زمینوں کو بنجر کر دیا ہے۔ سیم اور تھور کے مسائل بڑھتی ہوئی  آبادی، شہروں کا دیہاتوں تک پہنچ جانا چند ایسے مسائل ہیں جن کی بنا پر پاکستان کی سونا اگلنے والی زرعی زمینیں اب دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مشکل صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے شاید پاکستان کے محکمہ زراعت کو نئی  منصوبہ بندی، ریسرچ اور نئ اچھوتی پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔ آج کل جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے ایسے پودے بنائے جا چکے ہیں جو زمین کے اوپر گندم اور نیچے آلو اگا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا بھر میں جگہ بہ جگہ چاول کے کھیتوں میں مچھلی کے فارم کے کامیاب تجربے بھی کیے جا چکے ہیں۔
پاکستانی زرعی یونیورسٹیوں کو اس سلسلے میں اپنے اپنے کردار ادا کرنے ہوں گے۔ نئ اقسام کے آوٹ آف باکس تجربات ہی ہمیں آنے والی قحط سالی اور غذائی  قلت سے بچا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply