شیزوفرینیا، ڈوپامین اور اینٹی سائیکوٹکس/معاذ بن محمود

شیزوفرینیا کی چند ایک علامات میں فریب نظر یا hallucination اور ڈیلوژن یا فریب خیالی شامل ہیں۔ اردو میں ان کے لیے کئی اصطلاحات ہیں جن میں ہذیان گوئی، شقاق دماغی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم شیزوفرینیا اور ڈیلوژن کی تعریف پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔
رائل کالج آف سائیکیٹرسٹس کے مطابق:
“اگر آپ کو کسی شےیا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو آوازیں سنائی دینے لگیں تواس عمل کو ہیلوسی نیشن کہتے ہیں۔ شیزوفرینیا میں سب سے زیادہ مریض کو جس ہیلوسی نیشن کا تجربہ ہوتا ہے وہ اکیلے میں آوازیں سنائی دینا ہے۔ مریض کے لیے یہ آوازیں اتنی ہی حقیقی ہوتی ہیں جتنی ہمارے لیے ایک دوسرے کی آوازیں ہوتی ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ یہ آوازیں باہر سے آ رہی ہیں اور کانوں میں سنائی دے رہی ہیں، چاہے کسی اور کو یہ آوازیں نہ سنائی دے رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ آوازیں آپ سے بات کرتی ہوں یا آپس میں باتیں کرتی ہوں۔
بعض مریضوں کو چیزیں نظر آنے، خوشبوئیں محسوس ہونے یا ایسا لگنے کہ جیسے کوئی انھیں چھو رہا ہے ، کے ہیلوسی نیشن بھی ہوتے ہیں لیکن یہ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔”
اسی طرح رائل کالج آف سائیکیٹرسٹس کے مطابق:
“ڈیلیوزن ان خیالات کو کہتے ہیں جن پہ مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ خیالات حالات و واقعات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے یا غلط فہمی کا شکار ہو جانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مریض کو اپنے خیال پہ سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن اور تمام لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا خیال غلط ہے یا عجیب و غریب ہے۔”
انگریزی کا ایک لفظ ہے salient جس کے اردو میں معنی “نمایاں” کے ہیں۔ ذاتی حیثیت میں نمایاں سے میں متفق نہیں لیکن چند لغات کے مطابق یہی ہے تو مجبوری ہے۔ خیر، salient کی کچھ مثالیں یہ ہو سکتی ہیں کہ آپ کے لیے عام حالات میں پولیس کی گاڑی اتنی اہم نہ ہوتی ہو جتنا ایک اشارہ توڑتے ہوئے پولیس کی گاڑی سامنے نظر آنے پر ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایک راہ چلتی خاتون کسی بھی غیر ٹھرکی کے لیے اتنی نمایاں یا اہم نہیں ہو سکتی جتنی راہ چلتے کسی حالیہ یا سابقہ محبوبہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح جنگ اخبار میں پاکستان کا سوڈان کے ساتھ معاہدہ آپ شاید نظر انداز کر دیں مگر اسی معاہدے میں اگر آپ کے کسی اچھے دوست کا ذکر ہو تو یہ آپ کے لیے اتنا عام نہ رہے۔ بس salient کا مطلب امید ہے ان مثالوں سے واضح ہو رہا ہوگا۔
یہ salient مناظر ہی انسانی دماغ میں موجود ڈوپامین سرکٹ کو متحرک کر کے ڈوپامین کا اخراج کرتے ہیں جن کے باعث مذکورہ بالا امثال میں مذکور چیزیں آپ کے لیے ذرا ہٹ کے یا الگ ہوجاتی ہیں۔ کم از کم نارمل انسانوں میں ڈوپامین کے اخراج کا طریقہ کار یہی رہتا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی دماغ میں موجود ڈوپامین سرکٹ نمایاں یا معمول سے ہٹ کر مناظر سے متحرک ہوتا ہے اور ڈوپامین کا اخراج کرتا ہے۔
شیزوفرینیا میں ہونے والی ڈیلوژن یا فریب خیالی کی بنیادی وجہ غیر نمایاں مناظر یا خیالات کو دیکھ کر دماغ کے خواہشات سے متعلقہ حصے کا متحرک ہوکر غیر معمولی ڈوپامین پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً شیزوفرینیا یا ڈیلوژن/فریب خیالی کے مریض کا دماغ راہ چلتے بندے کو دیکھ کر اچانک غیر معمولی ڈوپامین پیدا کر دے اور نتیجتاً راہگیر اسے ایف بی آئی کا ایجنٹ نظر آنے لگے جو مریض کے دماغ میں خلائی مخلوق کی جانب سے نصب کردہ chip نکالنے آیا ہو۔
اینٹی سائیکوٹکس وہ ادویات ہوتی ہیں جو دماغ میں موجود ڈوپامین ریسیپٹرز یا ڈوپامین کو متحرک کرنے والے سرکٹس کو غیر متحرک کر دیتی ہیں۔ ڈوپامین ریسیپٹرز کو مکمل طور پر غیر متحرک کرنے سے شیزوفرینیا، ڈیلوژن اور ہیلو سی نیشن کا مکمل تدارک ممکن ہے تاہم ان ریسیپٹرز کو مکمل طور پر غیر فعال کرنے کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں جو مریض کو الٹا نقصان ہونے کے امکان رہتے ہیں۔ انسانی دماغ کے اگلے حصے میں ڈوپامین کنٹرول سرکٹ غیر فعال کرنے سے انسان کسی بھی معاملے پر ارتکاز کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے، پچیدہ منطق اور abstract reasoning سے محروم ہو سکتا ہے اور توجہ دینے سے عاری ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توجہ یا ارتکاز اور منطق بھی کسی نمایاں منظر یا خیال پر صرف کی جاتی ہے جس کے لیے محدود حد تک ڈوپامین کا موجود ہونا یا ڈوپامین کنٹرول سرکٹ کا فعال ہونا لازمی ہوتا ہے۔
ڈاکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ مریض کو اینٹی سائیکوٹکس کی درست مقدار تجویز کی جائے جس سے غیر نمایاں مناظر کو دیکھ کر غیر معمولی ڈوپامین حرکت میں آنا تو تھم جائے تاہم دماغ کے دیگر حصوں خاص کر اگلے حصے میں ڈوپامین کنٹرول سرکٹ پر زیادہ اثر نہ پڑے۔ یوں شیزروفینیا کے نتیجے میں ڈیلوژن یا فریب خیالی اور ہیلو سی نیشن یعنی فریب نظری کو کافی حد تک قابو کیا جا سکتا ہے۔
یہ تمام تر تحقیق آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے میرے بھائیوں اور دوستوں، کہ اہلِ بلا بھی ہمارے بھائی دوست ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ کیسے معاشرے کا فعال حصہ بن پائیں گے؟ کب تک یوں اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑے رہیں گے؟ ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ خان ہمارا مسیحا، خان ہمارا سکندر، بائیس سالہ جد و جہد، چار سالہ کامل ترین حکومت، کپتان کے حق میں نصر من اللہ و فتح قریب، خان ہماری ریڈ لائن، امریکی سازش، سائفر وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ سب ڈیلوژن ہے یہ سب خود فریبی ہے۔ ہمارے تازہ ترین انقلابی اہل بلا شیزوفرینیا میں مبتلا ہیں۔
ہم سب کا سوشل سرکل اچھا خاصہ وسیع ہے۔ مشن مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ آپ نے کرنا بس یہ ہے کہ اپنے ارد گرد کوئی غیر انقلابی سائیکیٹرسٹ ڈھونڈنا ہے، اس سے اینٹی سائیکوٹکس پکڑنی ہے اور اپنے قریب ترین بلے باز انقلابی کو گھول کر پلانا شروع کر دینی ہے۔
مشکل کی اس گھڑی میں ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ کیسے معاشرے کا فعال حصہ بن پائیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:مصنف کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply