شہزادی سچی تھی/گل بخشالوی

شیر آرہا ہے شیر آرہا ہے کی آوازیں تھم گئیں ، شیر آگیا لیکن مسلم لیگ ن کا شیر کمزور ہے عدالت تک نہیں جا سکا، اس لئے فنگر پرنٹ کے لئے انہیں خان کی طرح ہر حالت میں عدالت میں اس لئے نہیں بلایا گیا کہ اس کی گرفتاری مقصود نہیں تھی ،اس لئے بھی کہ 9  مئی کے ڈرامے کے ڈرامہ نگار جانتے تھے کہ میاں صاحب پریس کانفرنس کر کے آرہے ہیں جہا ز میں بیٹھنے سے پہلے ان کے بازو پر کبوتر بٹھا دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ میاں کے لئے عدالت ایئر پورٹ پہنچی ، فنگر پرنٹ ہوئے عدالتی مفرور کی ضمانت کنفرم ہوئی اور میاں صاحب پاکستان بھر سے آئے ہوئے اپنے چاہنے والو ں کے ہجوم میں مینار پاکستان چلے آئے، جلوس کے پس منظر میں چور آیا چور آیا کی آوازیں آتی رہیں ۔ ، پٹواریوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب اپنے خطاب میں کوئی دھماکہ کریں گے ، لیکن وہ تو امن کا پیغامبر بن کے آئے ہیں ، نہ آواز میں گرج تھی نہ کسی کو آ نکھ دکھائی اور نہ کسی کو دھمکی دی۔

بڈھا شیر پاکستان آیا توکیسے آیا ہر کوئی جانتا ہے اگر کوئی نہیں جانتا تو وہ بھی چند دنوں میں جان جائے گا ،ہر پاکستا نی جانتا ہے کہ سعد کون ہے اور چور کون ہے ،اگر نہیں جانتے تو پاکستان کے وہ جج ، جو درباری ہیں یا دربار یوں کے غلام ہیں یا وہ پھر اپنے حلف کی قیمت ، اپنے مقام کی عظمت اور عدلیہ کے وقار کو جانتے ہوئے بھی نہیں جانتے کیونکہ وہ درباری سرکار کے غلام ہیں ، جو کل صادق اور امین نہیں تھا آج اس پر گلپاشی ہو ر ہی ہے اور جو صادق اور امین تھا وہ جیل میں ہے ۔ آگے کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا اگر جانتے ہیں تو یہودی دربار کے درباری ، جنہیں پاکستانی جان گئے ہیں ۔رہی بات مخالفین کی تو ان کا یہ کہنا کہ میاں صاحب کا جلسہ ناکام ہو ا ، تو وہ صرف   دل پشوری کر رہے ہیں ، بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ سیاسی چشم پو ش ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے بے روز گارمزدور وہ رقاص ہیں جو جیب خرچ اور بریانی کی پلیٹ پر ہر کسی کے حضور رقصاں ہوتے ہیں۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے جلسہ عام میں اپنے مخا لفین کا نام لیا اور نہ وہ زبان استعمال کی جو ” مجھے کیوں نکالا ؟” کے دور میں استعمال کیا کرتے تھے ، شاید اس لئے کہ   ا گر اس زبان میں بات کرتے تو جلسہ عام سے گھر نہیں سیدھے ادھر جاتے جہاں سے 50 روپے کے سٹام پیپر پر انگوٹھا لگا کر نکلے تھے ، وہ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر عوام کے رد ِ عمل کو بھی جان گئے ہیں، پاکستانی عوام تو ہاتھی کے دانت ہیں کھا نے کے اور  دکھانے کے اور ۔ لیڈر سا منے ہو تو اس کے حضور رقص کرتے ہیں، لیڈرجیل جائے تو گھروں میں بیٹھ کر ماتم کرتے ہیں ، اور لیڈ ر پھانسی گھاٹ میں لٹکا دیئے جاتے ہیں ،میاں صاحب ا ب کھاؤ اور کھلاؤ  کی پالیسی اپنا ئیں گے کسی کو ناراض نہیں کریں گے۔

میاں صاحب نے جلسہ عام میں کہا کہ میں انتقام پر یقین نہیں رکھتا ، بات ہو گی تو صرف آئین اور قانو ن کی ہو گی ، لیکن میاں صاحب نے یہ نہیں بتا یاکہ کون سے آئین کی ، رجیم چینج سے پہلے والے یا رجیم چینج کے بعد اپنے بھائی کے بنائے ہوئے آ ئین اور قانو ن کی ، اگر رجیم چینج سے پہلے وا لا آئین اور قانو ن زندہ ہوتا تو میاں صاحب پاکستان کیسے آ سکتے تھے، وہ یہ بھی جان گئے ہیں کہ ایک خان کی مقبولیت سے خائف امریکی غلاموں کا پورا نظام ہی ننگا ہو گیا ہے ، لیکن شاہین کے پَر نہیں کاٹے جا سکے ،آج بھی اس کی پرواز بلندیوں پر ہے ، جیسے جیالوں کا بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسلم لیگ ن کی شہزادی مریم نواز کہتی رہی ہیں کہ جب تک نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے عام انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں  ، شہزادی کا کہنا درست تھا ، کہ ایک قومی جماعت کا قائد انتخابی اکھاڑے میں نہ ہو تو عام انتخابات کیسے ہو سکتے تھے، اب تو میاں صاحب خیر سے پاکستان میں ہیں ، قاضی بھی ان کا ہے درباری بھی ان کے ہیں البتہ خان جیل میں ہیں ، اور جب تک خان جیل میں ہیں اس وقت تک نہ تو قاضی کچھ کر سکے گا اور نہ درباری ، لیکن اگر کچھ کر بھی لیں ، تو انتخابی عمل پر اربوں روپے ضائع کریں گے ، کیونکہ انتخابات کے بعد عو ام دھاندلی دھاندلی کی تال  پر پھر سڑکوں پر شیطانی رقص کریں گے، اور پاکستان میں وہی کچھ ہو گا جو یہودی چا ہتا ہے  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply