ذہنی غلاظت اور اخلاقیات کا فقدان۔۔رابعہ احسن

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ بڑا افسوسناک ہے اور وہ ہے ذہنی غلاظت  کی زیادتی اور اخلاقیات کا فقدان! کہ ایک تو ذہن کے گوشے گوشے میں صرف گند ہے اور سٹور ہوتا رہتا ہے اور زبان اس کی ترجمانی کرنے میں ذرا نہیں جھجھکتی ۔ یا تو ذہنوں میں پلنے والا گند اُبلنے لگتا ہے جیسے کہ گندی نالیاں یا گٹر۔۔ یا زبان زہر اُگلنے سے باز نہیں آتی ۔ اور کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا۔ دوسروں کی زندگی میں مشکلات بڑھتی جاتی ہیں ۔ کاش لوگ اپنے ذہن کے گند یا زبان کی چبھن پر قابو پاسکیں تو کتنی آسانیاں ہوں۔ ایسے ہی لوگوں کیلئے کہاجاتا ہے “ خاموشی ہزار نعمت ہے”۔

ایسے ہی گندے ذہنوں اور اخلاقی طور پر گرے ہوئے لوگوں کی وجہ سے مثبت کام کرنے والوں کی بہتیری دل شکنی ہوتی رہتی ہے۔ حالانکہ معاشرے کیلئے ایسی باتیں روزمرہ کی وارداتوں میں شمار ہوتی ہیں مگر جن پہ بیتتی ہے وہی جانتے ہیں کہ کس اذیت سے گزرے ہیں ۔ جب باپ کی عمر کے لوگ فیمیلز کے ساتھ انتہائی cheapness کی آڑ میں کوئی بھی بات کرتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ ان کے دماغوں میں پوری سینیٹائزر کی بوتل انڈیل دی جائے ،شاید صفائی ہوسکے یا کوئی سینیٹائزر ان فیمیلز کے اندر سے وہ disgusting والی feeling کو ختم کرسکے جو ناچاہتے ہوئے بھی ان کی یادداشت سے نکل نہیں پارہی ہوتی ۔

کاش دماغ کی بھی الٹی ہوتی تاکہ ایسی فالتو سوچیں کہیں باہر پھینکی جاسکتیں ۔ مگر افسوس۔۔جب کوئی اپنی فضول گوئی کرتے ہوئے یہ بھی خیال نہیں کرتا کہ اگلا کس حالتِ اذیت میں سن رہا ہوگا یا سہہ رہا ہوگا۔ کچھ لوگ تو آجکل ڈیجیٹل معافی مانگ لیتے ہیں اور کچھ اپنے کئے پر ڈھیٹ  ہی بن  جاتے ہیں ۔

ایسے ہی لوگوں کی filth کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ کسی نہ کسی طور ہراسمنٹ کے زیر اثر ہے ۔ ہمارے معاشرے کے مردوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ اپنے گھروں کی خواتین چاہے جیسے مرضی لباس زیبِ  تن کرکے جہاں مرضی گھومتی رہیں لیکن وہ بیچارے دوسری خواتین کے قبلے سیدھے کرنے کو ثواب اولین سمجھتے ہیں حالانکہ انھیں چاہیے کہ پہلے اپنے قبلے گھروں کی طرف سیدھے کریں تاکہ اصلی والے ثواب کے راستے کھل سکیں ۔ اور دوسروں کو ان کے حال پہ جینے دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پر ایسا اگر ہوہی جائے تو ہمارا معاشرہ سرے سے بدل ہی نہ جائے ۔ ہماری بد بختی یہ ہے کہ انسانی حقوق کو بری طرح پامال کرنے والے انسانی حقوق کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ اور اس سب کی آڑ میں کیا ہوتاہے کوئی بھی نہیں جان پاتا۔ سمجھتے سب ہیں پر کوئی بولنا نہیں چاہتا اور غلط کا غلط نہ بولنا سب سے بڑی بزدلی ہے اور اس کا صرف یہی مطلب ہے کہ محض ایک دنیا داری کے مفاد کی خاطر آپ بزدل بن جائیں اور غلط کو غلط نہ بول سکیں پھر چاہے جتنے مرضی بہادری کے تمغے سجائے پھریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے مفاد کی خاطر بزدل بن جاتاہے اور اس کے بعد لفظوں کی آڑ میں سب سے بڑا خیر خواہ ۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply