شعور کیا ہے ؟ (2)-ڈاکٹر مختیار ملغانی

سترھویں صدی عیسوی میں دو مفکرین نے شعور کی مروج تعریف پہ چوٹ لگائی، اس کی شروعات ڈیکارٹ نے کی اور اسے منطقی انجام تک جان لاک نے پہنچایا، یہی وہ وقت تھا جب مابعدالطبیعیات کا دوسرا دور شروع ہوا اور یہاں شعور کو خالص طبیعیات سے جوڑ دیا گیا ۔

ان دو کے نزدیک شخصیت اپنی خودی کو عقل کی مدد سے ہر جگہ ہر وقت پہچان سکتی ہے اور اسے ہی شعور کہتے ہیں ، شعور ہے تو شخصیت بھی ہے، شعور کی عدم موجودگی کا مطلب شخصیت کا نہ ہونا ہے،
” اگر میں زندگی کے مختلف اوقات اور حالات کو ایک تسلسل اور ربط میں جوڑ سکتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں خود کو جانتا اور پہچانتا ہوں “، گویا کہ مختلف اوقات اور حالات اگر ایک مرکز سے جڑے ہیں تو شعور قائم ہے، شخصیت برقرار ہے ، مختصراً شعور زندگی کی تمام سٹیجز کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی قابلیت کا نام ہے ۔ زندگی کے ربط اور تسلسل کا نام شعور ہے۔

جان لاک کے نزدیک، اگر مختلف اوقات اور مختلف حالات کے دوران میری، میں، کا تعلق اس مرکز سے نہیں جڑ پایا یا تسلسل ٹوٹ گیا تو میری شخصیت ٹوٹ گئی، یعنی کہ شعور درہم برہم ہوگیا، ایسے میں نفسیاتی پیچیدگیاں جیسے پرسنیلٹی ڈس آرڈر یا بائی پولر ڈس آرڈر جنم لے سکتی ہیں، ان کے نزدیک ان پیچیدگیوں کا مطلب شعور کے ربط کا ٹوٹنا ہے ۔ جان لاک نے شعور کیلئے consciousness کی اصطلاح استعمال کی، یہ اصطلاح سترھویں صدی کے وسط میں برطانوی فلسفی رالف کیڈورٹ کی ایجاد ہے جو انہوں نے نیوپلاٹونازم کو یونانی سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے وقت پہلی دفعہ استعمال کی۔ رالف کیڈورٹ کی بیٹی نے جان لاک کو اپنے والد کی اصطلاح consciousness سے متعارف کروایا ، جان لاک نے اپنی اگلی تحقیقات میں ہمیشہ اسی اصطلاح کا استعمال کیا ۔ جان لاک اور ڈیکارٹ کی شعور کے متعلق رائے ایک دو صدی تک ہی قائم رہی ،اگرچہ بیج انہوں نے بو دیا تھا ، اس کے بعد جرمن آئیڈیالزم نے شعور کو غیر مادی ثابت کرنے کیلئے غیر معمولی مباحث کا اضافہ کیا ۔

پلاٹینیس اور جان لاک کے درمیانی عرصے میں ،جو لگ بھگ چودہ صدیوں پر مشتمل ہے، ادب کو لے کر کچھ ایسی جہتیں سامنے آئیں جنہوں نے شعور کے تصور کو مزید واضح کیا، ان میں سرفہرست شاعری ہے، جہاں فرد خود، واحد متکلم، محبوب کے بارے اپنے احساسات و جذبات کو زبان دے کر دوسرے لوگوں تک پہنچا رہا ہے، دوسری ادبی جہت آٹوبائیوگرافی ہے، مصنف اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ، کامیابی و ناکامی کو اپنے الفاظ میں بیان کر رہا ہے، اور تیسری جہت confession ہے، چاہیں تو اسے اعتراف گناہ کہہ لیجئے ، کنفیشن کا مطلب فرد کا خدا کے سامنے اپنے اعمال کا اعتراف اور توبہ کرنا ہے، ادب کی یہ تین جہتیں ہر تہذیب و زبان میں سامنے آئیں اور یہاں سے انفرادیت کا تصور مضبوط ہوا، ذاتی زندگی اور ذاتی معاملات کی اہمیت کو سمجھا جانے لگے، ان رویوں نے بحیثیت مجموعی انسانی شعور کو تقویت بخشی۔

شعور کے نظریئے پر ماضی قریب میں سب سے زیادہ اثر جرمن ائیڈیالزم کا رہا ، بالخصوص فیختے اور ہیگل جیسے محققین سرفہرست ہیں ، ان دو فلسفیوں کے مطابق بیرونی اور اندرونی دنیاؤں کو صرف شعور ہی کی مدد سے علیحدہ دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے، شعور کی لکیر ہٹا دی جائے تو آپ کے ہاتھ میں موجود قلم کو آپ اپنے ہی وجود کا حصہ تصور کرنے پر مجبور ہوں گے ، یہ شعور ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ قلم آپ کے ہاتھ میں ضرور ہے لیکن یہ آپ کے وجود کا حصہ نہیں، مزید برآں فیختے کے مطابق مادی دنیا سے مشاہدات اور تجزیوں کی مدد سے جو علم اور تخلیق کا عنصر ہم کشید کرتے ہیں، یہ عنصر سراسر غیر مادی ہے، یہ علم غیر مادی ہے، اسی طرح اگر شعور کو دماغ کی فعالیت اور ماحول کے اثر سے تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے، جیسا کہ بعض مادہ پرست کرتے ہیں، تو دو سوال سامنے آتے ہیں، پہلا یہ کہ دماغ کی فعالیت، یعنی غور وفکر، کس میکانزم کے تحت ہورہی ہے؟ اور دوسرا سوال یہ کہ مخصوص ماحول ہر ایک فرد پہ ایک جیسا اثر کیوں نہیں ڈالتا؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اس کے علاوہ ممکن نہیں کہ یہ سب شعور کے کرشمے ہیں اور شعور ایک مابعدالطبیعیات حقیقت ہے ۔

اگر شعور طبیعیاتی ہے تو اس وضاحت کیلئے بھی علیحدہ سے ایک شعور کی ضرورت ہے، یہ شعوری وضاحت غیر طبیعیاتی ہے۔ فیختے کے مطابق شعور کو مادی ثابت کرنے کی کوشش بذات خود ایک غیر مادی فعل ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر مادی فعل اور ہر مادی وجود زمان و مکان کی قید میں ہے، محدود ہے، شعور کی پرواز زمان و مکان سے آزاد ہے، لامحدود ہے ۔ (جاری ہے )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply