شعور کیا ہے ؟ (1 )-ڈاکٹر مختیار ملغانی

ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ شعور کیا ہے، لیکن شاید ہی ہم سمجھا سکیں کہ شعور کیا ہے ۔
یہاں مابعدالطبیعیات پر چند تمہیدی الفاظ ناگزیر ہیں، مابعدالطبیعیات نے تین بڑے دور دیکھے ہیں، معروف تاریخ سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک ہر موضوع کا مرکز مابعدالطبیعیات ہوا کرتا تھا، سترھویں صدی میں اس پر مختلف سمتوں سے حملے شروع ہوئے اور بیسویں صدی کے شروع میں اسے فلسفے کے مرکز سے نکال کر دور کہیں مضافات میں پھینک دیا گیا، تیسرا دور نوے کی دہائی کا ہے جب مابعدالطبیعیات کو پھر سے توجہ دی جانے لگی کہ انسان و فطرت سے جڑے حادثات کی توجیہ اس کے بغیر ممکن نظر نہ آتی تھی۔
مابعدالطبیعیات کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ
“یہ حقیقت کے بنیادی اوصاف جاننے کا علم ہے “, اور حقیقت کے بنیادی اوصاف میں سے ایک کا نام، شعور، ہے۔
شعور کو کچھ جدید مفکرین خالص طبیعیاتی نکتۂ نگاہ سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا کہ بگ بینگ ، ایٹم، مالیکیول ، خلیات اور پھر ان سب کے سمجھنے و پرکھنے کیلئے شعور کا وجود، یعنی شعور درحقیقت دماغ اور اردگرد کے ماحول کے مابین تعلق کو سمجھنے کا نام ہے جو اعصابی نظام کی مدد سے پروان چڑھتا ہے اور یہ طبیعیاتی وجود ہے۔ ایسے مفکرین دو گروہوں میں تقسیم ہیں، ایک کے نزدیک باقی جانداروں کی نسبت انسانی شعور صرف مقدار میں مختلف ہے، معیار میں کوئی فرق نہیں، جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ معاملہ صرف مقدار تک محدود نہیں بلکہ انسانی شعور کی ہر جہت معیار میں بھی باقی جانداروں سے مختلف ہے ۔
لیکن خالص طبیعیات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محبت، نفرت، دوستی ، مذہب اور فنونِ لطیفہ کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے، یہاں موسیقی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، ماہرِ طبیعیات یہ دعویٰ کر سکتا ہے اور اس کا دعویٰ درست ہوگا کہ موسیقی اصل میں ایک آلے کی مخصوص ساخت کی وجہ سے اس سے نکلنے والی آواز کا نام ہے جو لہروں کی صورت آپ کے آلۂ سماعت تک پہنچتی ہے، لیکن مابعدالطبیعیات کے بغیر وہ ماہر یہ چیز نہیں سمجھا سکتا کہ یہ آواز سننے والے کے دل و دماغ پہ محبوب کے وصل، ہجر یا انتظار کی کیفیات کیونکر پیدا کرتی ہے۔ ایسے ہی کسی بڑے مصور کا شاہکار کروڑوں میں کیوں بکتا ہے ؟ شاہکار کی مادی قیمت تو چند سو روپے سے زیادہ نہ ہوگی، کروڑوں کی قیمت اس شاہکار کے غیر مادی پہلو کی ہے جسے کوئی صاحبِ ذوق بس محسوس کر سکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کامل حقیقت کو جاننے کیلئے حواسِ خمسہ میں جکڑی سائنس کافی نہیں، کچھ اور بھی ہے جس سے مدد لینا ضروری ہے ۔ ایسے میں مابعد الطبیعیات کا علم اور حقیقت کا عظیم وصف ،شعور ، اہم ترین مددگار ہیں ۔
بحث کیلئے ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ پوری کی پوری مادی دنیا کی دریافت ریاضی کے اصولوں کی مرہونِ منت ہے اور ریاضی کا کوئی ایک اصول بھی مادی نہیں ۔
معلوم تحریری تاریخ میں شعور کا لفظ پہلی بار ہومر کی کتاب Odyssey میں ملتا ہے اور یونانی زبان میں یہ لفظ Noos (Nous) ہے ، جس کا مطلب جاننے یا پہچاننے کے ہیں، اس نظم میں کہانی کا ہیرو جب کئی سالوں کی مہم جوئی کے بعد گھر واپس آتا ہے تو وہ بھیس بدل کر آتا ہے تاکہ اپنی زوجہ کی وفاداری کو آزما سکے، وہ شہر میں داخل ہوتا ہے ، نئے روپ میں اسے کوئی بھی پہچاننے سے قاصر ہے سوائے اس کے کتے کے، گلی میں بیٹھا کتا دیکھتے اور سونگھتے ہوئے مالک کو پہچان لیتا ہے ، یہاں اس کتے کے مالک کو پہچاننے/جاننے کیلئے Noos یعنی شعور کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
ہومر کے بعد متعدد یونانی فلاسفرز نے یہ اصطلاح استعمال کی، اور اس کا استعمال کامل حقیقت کو جاننے سے مترادف ٹھہرا،
” دیوی اور دیوتا کامل حقیقت کی پہچان رکھتے ہیں” جیسے جملوں میں یہ اصطلاح کئی مفکرین نے استعمال کی، ان کے بعد افلاطون نے اسی فلسفے کو خود آگہی تک پھیلایا، جیسا کہ ” میں جانتا ہوں کہ میں جانتا ہوں ” ان کے نزدیک انسانی فکر کی بیداری اور خود کو جاننے کیلئے کسی ماہر سے مکالمہ ضروری ہے، جسے انہوں نے آئینے کے عکس سے تعبیر کیا۔
خود شعوری اور خود آگہی پر اصل کام نیوپلاٹونزم کے سرخیل Platinus نے تیسری صدی عیسوی میں کیا، ان کے نزدیک آئینہ فرد ہی کا سینہ ہے، جس میں فرد کی فکر اور تخیل اپنا عکس دیکھ اور دکھا سکتے ہیں، اگر یہ آئینہ دھندھلا یا دراڑ دار ہوتو فکر خود کو نہیں پہچان پاتی اگرچہ فکر وتخیل کا عمل جاری رہتا ہے لیکن ایسی فکر خود کو جاننے سے عاری رہتی ہے۔
اسی نکتۂ نظر کو بحیثیت مجموعی شعور سمجھا گیا اور یہ لگ بھگ سترھویں صدی عیسوی تک جاری رہا، نیو پلاٹونزم کی چھاپ اسلام اور یہودیت پر بہت گہری ہے ۔ (جاری ہے ) ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply