• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سرکاری اسکولوں کی نجکاری اور مین سٹریم میڈیا،کیا کرنا ہوگا؟ -عامر حسینی

سرکاری اسکولوں کی نجکاری اور مین سٹریم میڈیا،کیا کرنا ہوگا؟ -عامر حسینی

نام نہاد مین سٹریم میڈیا کی پنجاب حکومت کے سرکاری اسکولوں کی نجکاری کے خلاف اساتذہ کی تحریک بارے ڈسکورس:
معروف میڈیا گروپوں کے ٹی وی چینلز پر ہر گھنٹے کے بلیٹن میں اس بارے خبر غائب، تحریک کے دھرنے کی کوریج نہ ہونے کے برابر صوبائی سطح کا ایسا ایشو جس سے پنجاب کے دو کروڑ سے زائد 5۔16 سال کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہو اور لاکھوں گھرانے جس سے متاثر ہوں گے ،کے بارے میں ان میڈیا گروپوں کے اخبارات اساتذہ اور اگیگا کے بیانات و خبریں لوکل پیج پر بمشکل ایک کالمی یا دو کالمی لگارہے ہیں ۔
جبکہ ان میڈیا گروپوں کے آؤٹ لیٹ میں کام کرنے والے انویسٹی گیشن سیل، ایجوکیشن بیٹ رپورٹرز کو اس ایشو پر تحقیقاتی رپورٹنگ کے ٹاسک ہی نہیں دیے جارہے ۔

ان معروف میڈیا گروپوں کے سیلبرٹی ٹائپ اینکر پلس پھنے خان تحقیقاتی رپورٹرز جن کا دعویٰ  رہتا ہے کہ وہ سیاست ، حکومت، عدالت ہرجگہ قابل اعتماد باوثوق ذرائع کا نیٹ ورک رکھتے ہیں اور ہم اکثر انھیں ان کے ٹی وی  پروگرامز یا یو ٹیوب چینلز پر بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ انکشافات کرتے دیکھتے رہتے ہیں لیکن انھوں نے اس مسئلے پر چپ سادھ رکھی ہے ۔

یہی حال سوشل میڈیا پر لاکھوں کی آؤٹ ریچ رکھنے والے کئی ایک ٹک ٹاکرز، یوٹیوبرز ، وی لاگرز کا بھی ہے۔

میں نے 5 بڑے ٹی وی چینلز کے بلیٹن، ٹاک شوز اور وہاں کام کرنے والے چند معروف بلکہ سیلبرٹی اینکرز کے پروگراموں کو فالو کیا اور 5 قومی سطح کے اخبارات ، اور لاہور کو کور کرنے والے تین بڑے مقامی ٹی وی چینلز کی نشریات کو مسلسل چار روز فالو کیا لیکن کسی ایک کے ہاں بھی میں نے اس ایشو کی ‘تحقیقاتی رپورٹنگ’ تو دور کی بات، تحریک کی عمومی رپورٹنگ بھی نہیں دیکھی ۔

انگریزی پریس اور اُردو پریس میں راولپنڈی اور لاہور سے رپورٹرز نے ستمبر کے آخری ہفتے میں پنجاب حکومت کے سیپ پروگرام / سرکاری اسکولوں کی نجکاری دو خبریں فائل کیں لیکن کسی نے سیپ کے بارے میں کوئی تحقیقاتی رپورٹ نہیں دی ۔

جبکہ مسلم ہینڈز کو پنجاب میں ایک ہزار سرکاری اسکول سونپے جانے کی خبر ایک یا دو سطروں میں پنجاب کابینہ کے اجلاس کی خبر کے اندر دی گئی اور اس کے بعد کوئی فالو اپ نہ آیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسے مین سٹریم میڈیا کہا جاتا ہے اس میں شامل میڈیا گروپوں کے ہاں کسی ایشو کو ‘مین سٹریم کوریج’ دینے کا اصول کیا ہے؟

پچھلے چار دن میں اگر بلیٹن ، پرائم ٹائم شوز کو اگر دیکھا جائے تو آپ کو شاید ہی کوئی ‘اصول’ کارفرما نظر آئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے ۔

یہ “مین سٹریم” میڈیا کہلاتا ہے ، اس میں شامل کسی بھی میڈیا گروپ کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور ان کی ڈیجیٹل ویب سائٹس اور ان کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی پہلی ترجیح اور بنیادی ذمہ داری اس گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز (سادہ لفظوں میں کہیں تو اس کے مالک سیٹھوں) کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔

سرکاری اسکولوں کی نجکاری کا معاملہ مین  سٹریم میں شامل میڈیا گروپوں کے نزدیک بہت بڑی اہمیت کا حامل اس لیے بھی نہیں بن رہا کہ ایک تو پاکستان کے قریب قریب سب بڑے میڈیا گروپ کے سیٹھ ‘نجکاری’ کے زبردست حامی ہیں ۔

اس حمایت کی ایک وجہ تو پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹر ہے جس میں شامل بہت سارے بڑے کارپوریٹ سرمایہ دار گروپوں کی سرمایہ کاری نجی تعلیمی سیکٹر اور میڈیا انڈسٹری کے اندر بھی ہے اور یہ ان کے منافعوں میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ جبکہ میڈیا انڈسٹری میں ان کی سرمایہ کاری انھیں پاور کوریڈورز میں بھی داخل کرتی ہے اور یہ پالیسی ساز اداروں تک میں اپنے بندے داخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔

دوسری اہم وجہ نیولبرل مارکیٹ ماڈل کے تحت بننے والی حکومتوں نے سرکاری سطح پر سوشل سروسز کے ڈھانچوں میں عرصہ دراز سے فنڈنگ کی حوصلہ شکنی ، وہاں خالی ہونے والی آسامیوں کو پُر نہ کرنے سمیت ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے سوشل سروسز کا سرکاری شعبہ رو بہ زوال ہے اور وہ کارکردگی میں پیچھے جارہا ہے، اگرچہ یہ اب بھی نجی سیکٹر کے سوشل سروسز تنظیموں کے موجود ڈھانچوں سے کہیں زیادہ قابل رسائی اور بہتر ہے خاص طور پر تعلیم اور صحت کے سرکاری شعبے میں خدمات کا نجی سیکٹر مقابلہ کر ہی نہیں سکتا وہ مفت اور سبسڈائزڈ جتنے فیصد خدمات فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اسے مان بھی لیا جائے تو وہ سرکاری تعلیم و صحت کے سیکٹر میں مفت اور سستی تعلیم و علاج معالجے تک عام آدمی کی رسائی کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے۔

تعلیم اور صحت میں نجی کارپوریٹ سیکٹر کے بلند ترین منافعوں نے اس سیکٹر کے مالکان کو ایک بہت طاقتور کارٹیل /لابی میں بدل ڈالا ہے ۔ اس لابی میں شامل تعلیم کے سوداگروں کی جانب سے میڈیا انڈسٹری کو سالانہ اربوں روپے کا بزنس ملتا ہے۔ تعلیمی سوداگروں کی اس لابی میں طاقتور سیاست دان ، جرنیل، جج ، میڈیا سیٹھ، قانون دان سمیت خود نام نہاد سول سوسائٹی کے اشراف کا بہت بڑا سیکشن شامل ہے ۔

جیسے کارپوریٹ سرمایہ دار گروپوں نے ماضی میں سرکاری شعبے میں صنعتوں، سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کے بہت بڑے پبلک انفراسٹرکچر کو نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے مول خریدا اور اس پر اپنی اجارہ داری قائم کی، جس میں سیمنٹ، گھی، کھاد، بجلی،چینی کی مینوفیکچرنگ کا بہت بڑا انفراسٹرکچر تھا ایسے ہی ان گروپوں کی نظر پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود تعلیم اور صحت کے سرکاری شعبے پر ہے ۔

کارپوریٹ سرمایہ دار گروپوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر تعلیم اور صحت کی نجکاری کو “ناگزیر” بناکر پیش کرنے میں بھاری بھرکم سرمایہ کاری کررہا ہے۔

کیا پنجاب میں سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے والدین ، ان اسکولوں میں کام کرنے والا ٹیچنگ، نان ٹیچنگ اسٹاف اور ان کی تنظیمیں کارپوریٹ میڈیا انڈسٹری کو وہ بزنس دے سکتی ہیں جو نجی کارپوریٹ سیکٹر کی ایجوکیشن انڈسٹری کے مالکان دے رہے ہیں ؟

کیا والدین و اساتذہ مل کر وہ لابنگ کرسکتے ہیں جو میڈیا، حکومت پر اثر انداز ہوسکے؟

یقیناً  ان دونوں سوالات کے جوابات نفی میں ہیں ۔ تو پھر ان کے پاس راستہ  کون سا ہے؟

وہ راستہ  وہی ہے جس پر سرکاری شعبے کے اساتذہ ، نرسیں ، کلرک اور دیگر متاثرہ سرکاری ملازمین چل رہے ہیں ۔ یعنی جدوجہد ، احتجاج، دھرنے اور ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو اپنے ساتھ ملانے کی جدوجہد یعنی
جینا ہے تو لڑنا ہوگا

محنت کش طبقے کی تاریخ گواہ ہے کہ اسے کبھی بھی لڑے بغیر وسائل اور دولت پر قابض طبقات نے کوئی رعایت نہیں دی بلکہ اس کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا ۔

آج کی شب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ طاقتور سرمایہ دار گروپ کارٹل اور لابیوں کی شکل میں متحد اور منظم ہیں وہ ریاست کے ہر ادارے اور سماج کی سول سوسائٹی پر طاقتور طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں اور سرمایہ داری نظام میں ریاست اسی صورت میں محنت کش طبقات کو کوئی رعایت دینے پر مجبور ہوتی ہے جب اسے یہ خوف ہو کہ ‘ساری رکھنے کے چکر میں سب کچھ نہ کہیں محنت کش طبقات کے ہاتھوں میں چلا جائے’

جب اسے یہ خوف نہ ہو اور وہ یہ سمجھے کہ جن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے وہ منظم نہیں ہیں اور لڑ نہیں سکتے تو وہ کمزور احتجاج اور تحریک کو کہیں زیادہ خوفناک جبر کے ساتھ کچلتی ہے تاکہ خوف کا راج ہو ۔

آج ایک طرف تو پاکستان میں خود سرمایہ دارانہ جمہوریت جو سرمایہ داری کے جبر کو ملفوف رکھتی ہے موجود نہیں ہے اور خود سیاسی جماعتوں کے اندر بچی کچھی ورکرز دوست سرکاری اصلاحات کے دفاع کے لیے محنت کش سیاسی ورکرز اور ان کے دوست درمیانے طبقے سے آنے والے ایماندار سوشل ڈیموکریٹ ورکرز بھی کسی طاقتور پوزیشن میں نہیں ہیں وہاں بھی رئیل اسٹیٹ، تعلیم ، صحت کے سوداگروں اور ان کے دلالوں کا غلبہ ہے ۔ اسی لیے محنت کش طبقات پر ریاستی جبر اور استحصال خوفناک انداز میں کیا جارہا ہے جس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی مزاحمت دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔

پنجاب میں محنت کشوں کو نہ صرف پبلک سیکٹر میں تعلیم ، صحت سمیت سماجی خدمات کے بچے کھچے عوام دوست انفراسٹرکچر کو بچانے کی لڑائی لڑنی ہے بلکہ جو ان سے چھن چکا، اسے بھی واپس لینے کی لڑائی لڑنا پڑے گی۔ اور اس کے لیے اسے واضح طور پر اپنی سیاسی حمایت کو اپنے مفادات سے مشروط کرنا ہوگا جو سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کرائے کہ جو تعلیم، صحت، روزگار، رہائش ، بنیادی اشیائے ضرورت جیسے معاملات پر نجی کارپوریٹ سرمایہ داروں کے کارٹیلز اور لابیوں کے مفادات کو ترجیح دے گا ،اسے مسترد کردیا جائے گا ،تب ہم نجات کے راستے کی طرف بڑھ سکیں گے۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر بھی محنت کشوں کی آواز کے بلند کرنے کا حق بھی بلا رکاوٹ جدوجہد کرنے سے ہی مشروط ہے وگرنہ اس حق کے خلاف بھی ایف آئی اے ، پولیس کو استعمال کرنے کے لیے پیکا ایکٹ موجود ہے ۔
محنت کش طبقے کے پاس کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

کھونے کے لیے فقط زنجیریں اور پانے کے لیے سارا جہان اور اس کے لیے ان کے پاس ایک ہی راستہ محنت کش متحد ہوجائیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply