لوگ ایسے بھی ہم نے کھوۓ ہیں۔۔محمد علی عباس

گزرے برس جہاں بہت سے چاہنے والے ملے ،وہیں کچھ اپنوں کے جنازے بھی اٹھتے دیکھے،ابھی سال کا آغاز ہی تھا کہ علیم کی والدہ بچوں کو روتا چھوڑ کر چل بسیں۔ ڈاکٹر مسعود صفدر بھی اسی برس ہم سے جدا ہوۓ۔

عزیز قائم  جو ہم سب دوستوں کو بہت عزیز تھا ،کی بیماری اور پھر عین جوانی کی موت نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عزیز احمد قائم  کیا ہی کمال انسان تھا۔ شاعر ایسا کمال کا کہ استاد شعراء سے بھی داد سمیٹ لیتا اور ناقد ایسا بے رحم کہ بڑے بڑوں کے کہے پر جب تنقیدی نگاہ ڈالتا تو پھر اس کے معیار پر پورا اترنا مشکل ہو جاتا۔ قائم نے چھوٹی سی عمر میں گلے میں سرطان کا روگ پال لیا۔ علاج شروع ہوا تو کیمو تھیراپی نے اس کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ تا دمِ آخر اس کے سرہانے کاغذوں کا ایک پلندہ اور دوائیں موجود رہیں۔ جب بھی اٹھ کر بیٹھنے کے قابل ہوجاتا اس کے قلم سے ایسے گواہر قرطاس کی زینت بنتے کہ اگر وہ منظر عام پر آ جائیں تو یقیناً ادب شناس انگُشتِ بدنداں رہ جاٸیں گے۔ موت سے قبل کا کلام اب ان کے اہل خانہ کے پاس موجود ہے جو اسے کب قارئین کے  لیے  عام کرتے ہیں، خدا ہی جانے۔ ہم جیسے قائد  کے چاہنے والے اس کی ایسی ناگہانی موت پر ابھی تک صدمے میں ہیں۔ خداجانے قائم  کی  نئی  کتابیں ہمارے لئیے باعث راحت ہوں گی یا پھر قائم  کی یاد میں رلاتی رہیں گی۔ خواہش مگر دل کے نہاں خانوں میں ہے کہ وہ سب شائع  ہو جو قائم  نے آخری سانس تک لکھا کہ یہی اس کے امر ہو جانے کے  لیے  کافی ہوگا۔

قائم  کی موت جوانی کی تھی جو کہ تادیر یاد رہے گی لیکن کچھ ایسے بزرگ بھی بچھڑے جو شاید کبھی بھلائے نہ جا سکیں۔ چوہدری زمرد ڈھوک قادہ بھی قائم ہی کی طرح سرطان کا شکار بنے۔ ایک نفیس اور وفا دار انسان تھے۔ وہ اپنی سیاسی وفاداریاں اور خاندانی تعلقات تادم آخر نبھاتے رہے۔ سردار عباس کے ساتھ ان کا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں جس طرح پورے حلقہ این اے چونسٹھ میں انہوں نے سردار عباس کی محبت میں ان کے حریف کی مخالفت کی وہ سردار عباس کے چاہنے والوں کے  لیے  مثال ہے۔ سردار عباس نے بھی ان کی موت پر جس طرح ان کے بیٹوں کے سر پہ ہاتھ رکھا وہ بھی دنیا دیکھا اور اس طرح وفا کے بدلے وفا کی ایک  نئی  مثال قائم ہو ئی۔ چوہدری زمرد ڈھوک قادہ سرکاری ٹی وی میں ملازم رہے۔ بچوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد میں رکھا اور پڑھا لکھا کر وہیں سیٹ کیا ،لیکن اپنے بچوں کو آبائی علاقے سے بھی جوڑے رکھا۔ بالخصوص اپنے چھوٹے بیٹے کی تو خاص تربیت ہی شاید اسی لیے  کی کہ وہ ان کے تعلقات کو قائم رکھ سکے۔ ہمارا ان سے تعلق پرانا ہے۔ لیکن مجھے کہنے میں کوئی  عار محسوس نہیں ہوتا کہ اگر برادرم عثمان زمرد نہ ہوتے تو یہ تعلق ہماری نسل تک منتقل نہ ہوتا۔ چوہدری زمرد اپنی سیاسی جانشینی اپنے بیٹے عثمان اور برادی کے معاملات نعمان زمرد کو غیر اعلانیہ سونپ گئے تھے۔ اب یہ دونوں بھاٸی والد کی وراثت کو سنبھالے ہوۓ ہیں۔ لیکن خود ابھی سنبھل نہیں پا رہے۔ کئی کئی گھنٹے برادرم عثمان زمرد سے فون پر بات ہوتی تھی لیکن اب میسج تک نہیں کر پاتا- والد کی موت نے عثمان کو ایسا توڑا ہے کہ اس کے مسکراتے چہرے پر اب تبسم دیکھے بھی عرصہ ہوا ہے۔ جب کبھی بات ہو تو والد کا ذکر چھیڑ دیتا ہے اور پھر دیر تک ان کو یاد کرتا رہتا ہے۔

چوہدری زمرد کی موت کے بعد ہمیں جو سب سے بڑا دھچکا لگا وہ میرے خالو چوہدری غلام علی کی موت تھی۔ ایسے انسان بھی اب کم ہی پیدا ہوں گے- ان کو کربلا والوں سے عشق تھا اور اس قدر تھا کہ امام مظلوم ع کا نام آتے ہیں ان کی ہچکی بندھ جاتی۔ ساری زندگی عزاداری امام میں گزار دی- کبھی کبھار غصہ کر جاتے تھے لیکن ایسا بہت کم ہی ہوتا- ایک تبسم ان کے چہرے پر ہمیشہ سجا رہتا جو ان کی پہچان تھا۔ بچے بڑے سب ان سے برابر پیار کرتے۔ ان کی بے تکلفی چھوٹوں بڑوں سے برابر تھی۔ اسی  لیے  ان کے بچے اور ہم لوگ بھی ان سے کھل کر مذاق کرتے اور وہ کبھی اس بات کا برا نہ مناتے۔ خودکو وہ صدر کہلواتے مگر جب پہلا پوتا حیدر پیدا ہوا تو کہتے کہ اب ہم نے صدارت اسے سونپ دی ہے۔ ہم لوگ ہنستے کہ بھلا ”صدر“ کو ئی  اورکیسے ہو سکتا ہے۔ اب ان کے جانے کے بعد یہ احساس ہو گیا ہے کہ واقعی ”صدر“ کوئی  اور نہیں ہو سکتا۔ زندگی کے آخری دنوں میں کورونا کا شکار ہو گئے اور پھر اسی علالت میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔

خالو کے بعد ہمارےخاندان کا جو ایک بڑا نقصان ہوا وہ صوفی غلام محمد لطیفال کی موت ہے۔ چوہدری غلام محمداپنے والد صوفی محمد مظفرؒ کےروحانی وارث تو تھے ہی لیکن اپنے چچا چوہدری زمرد کے سیاسی جانشین بھی تھے۔ 1985 میں سردار عباس کے خلاف صوبائی  اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ تاہم مقابلہ بہت اچھا رہا۔ 1985 کے انتخابات گو کہ ایک الگ موضوع ہیں جو پھر کسی دن زیر بحث بنیں گے لیکن مختصراً جو چوہدری غلام محمد نے مجھے بتایا وہ یہ تھا کہ ”اگر اس وقت کرنل (ر) چوہدری ممتاز خان میرے کے حق میں دستبردار نہ ہوتے تو سردار عباس کا ووٹ تقسیم ہو جاتا اور ایسے میں جیت میری ہوتی“۔ بعد ازاں اپنا سیاسی جانشین اپنے بھتیجے اور داماد چوہدری نذر عباس کو بنایا۔ چوہدری نذر عباس نے سیاسی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ کامیاب ہونے کے باوجود چوہدری نذر عباس کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نظر انداز کرنے والوں نے اس خاندان کے افراد کی گاڑیاں چلانا اور گاڑی کا دروازہ کھولنا اپنے  لیے  اعزاز سمجھا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات سے قبل میجر (ر) طاہر اقبال نے سے ملاقات کی تو (ن) لیگ کے حالات ایسے نہ تھے کہ میجر طاہر جیت جاتے۔ اس وقت چوہدری غلام محمد نے میجر طاہر اقبال سے کہا تھا کہ “جاو جیت تمہارا مقدر بنےگی۔” اور پھر ایسا ہی ہوا۔ سردار عباس کی شکست نے ایک عرصے تک سیاسی مبصرین کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا۔ چوہدری غلام محمد اپنے خانوادے کو جس عروج پر دیکھ کے دنیا سے رخصت ہوۓ یقیناً انہوں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھا تھا اور وقت انتقال ایسا عروج دیکھنا کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

سال کے آخر میں ہمارے خاندان کو ایک اور بڑا صدمہ سہنا پڑا، میری دادی کے ماموں زاد چوہدری سلطان محمود اچانک ہم سب کو روتا چھوڑ گئے۔ کیا کمال انسان تھے- ایک خاص مسکراہٹ ان کی پہچان تھی جو ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے چہرے پر تھی۔ رشتہ اتنا قریبی نہ تھا لیکن وہ ہمارے دلوں کے اتنے قریب تھے کہ بہت سے اپنے بھی شاید نہ ہوں۔ وہ ہمارے ساتھ بے حدمخلص تھے۔ میرے ابو سے عمر میں زیادہ بڑے نہ تھے تو دونوں میں بہت بے تکلفی تھی۔ گوجرانوالہ میں ملازمت تھی تو جب بھی گاؤں آتے ہمیں ملنے ضرور آتے۔ بزرگوں کی باتیں چھڑ جاتیں تو اپنے ہر دل عزیز مرحوم بھائی  سلطان سکندر کے قصے سنا کر محظوظ کرتے۔ وہ اپنے بیٹے بلال کے بیسٹ فرینڈ تھے۔ دونوں باپ بیٹا ہمیشہ اکٹھے رہتے۔ بیٹے کے ساتھ کافی حد تک بے تکلف بھی تھے تو دونوں باپ بیٹے کی خوب بنتی تھی۔ پابند صوم و صلوٰة تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر کےقریب والی مسجد میں جماعت بھی کراتے تھے۔ نماز شب کی بھی عادت ڈال رکھی تھی اور جس دن دنیا سے رخصت ہوۓ تو وینٹی لیٹر پہ تھے کہ نماز شب کے وقت بیٹے سے پوچھا کہ الارم نہیں بجا میری نماز شب کا وقت ہو گیا ہے کہ ساتھ ہی الارم بج گیا۔ جب بلال نے کہا کہ نماز پڑھیں گے؟ تو کہنے لگے یار اس حالت میں کیسے نماز پڑھ سکتا ہوں۔ان شاء اللہ ٹھیک ہو جاؤں تو پھر پڑھوں گا اور پھر اسی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

جس طرح چاہنے والے دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اسی طرح کئی نئے  دوست اور محبت کرنے والے ذندگی میں آتے بھی جا رہے ہیں۔ اس سال میں بھی کئی  ایسے دوست ملے جو اپنی ذات میں کمال کے انسان ہیں لیکن جانے والوں کی کمی بھلا کیسے پوری ہو سکتی ہے؟ کچھ لوگ دنیا سے جا رہے ہیں اور کچھ ذندگی سے تو مجھے ایک شعر یاد آتا ہے کہ

خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک

Advertisements
julia rana solicitors london

اس شہر میں سب کچھ ہے فقط تیری کمی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply