• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نئی ریاست مدینہ والوں کی مدینہ والے  نظام سے دلچسپی ِِ! اور مخالفت کے ممکنہ اثرات۔۔سید عارف مصطفیٰ

نئی ریاست مدینہ والوں کی مدینہ والے  نظام سے دلچسپی ِِ! اور مخالفت کے ممکنہ اثرات۔۔سید عارف مصطفیٰ

دوحہ سے ہٹ کر افغان معاملے پہ کسی اور جگہ جاکر  مذاکرات کرنے سے اتفاق کرنا کوئی معمولی واقعہ ہرگز نہیں کیونکہ قطر کا دارالحکومت دوحہ ان مذاکرات کے حوالے سے بہت سازگار مقام ثابت ہوچکا ہے تاہم روس کی جانب سے افغان مسائل میں غیرمعمولی دلچسپی لینے اور بہت سرگرمی دکھانے سے انہونی ، ہونی میں بدل گئی ہے – اس میں کیا شک ہے کہ چونکہ افغانستان کے ساتھ منسلک اسکی سرحدوں و جغرافیائی محل وقوع اور گزشتہ نصف صدی کے تاریخی واقعات و عوامل نے اس علاقے میں قیام امن کی کوششوں کی نسبت روس کو ناقابل نظر اندازی بنادیا ہے چنانچہ اسکی خواہش پہ 19 مارچ کو ماسکو میں بین الاقوامی افغان امن کانفرنس کا انعقاد ہونے دیا جانا بھی ناگزیر تھا اور خدا خدا کرکے جمعہ کو یہ پہاڑسر کرلیا گیا تاہم افغانستان کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوششوں کے سلسلے میںروس کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کی روداد بہت افسوسناک ہے جس میں افغان طالبان کے وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں شرکت کی ، سابق جہادی رہنما اور حزب اسلامی کے سربراہ انجینیئر گلبدین حکمتیار بھی اس کانفرنس کا حصہ بنے جبکہ دیگر سابق جہادی لیڈوں میں استاد سیاف اور عطاء محمد نور  سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی شریک ہوئے ، موجودہ افغان حکومت کا وفد وزیرخارجہ کی سرکردگی میں شامل ہوا جبکہ ریاستی سطح پہ پاکستان کے علاوہ امریکہ چین اورروس کی حکومتوں کے نمائندوں نے حصہ لیا – اس کانفرنس کو تھوڑی  سی  کامیابی اور بہت سی ناکامی نصیب ہوئی کیونکہ امریکی فوج کے انخلاء کے ٹائم فریم کی پابندی ، طالبان کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے اور نیا آئین بنانے پر تو اتفاق ہوگیا ہے مگر جنگ بندی اور اسلامی شرعی نظام حکومت کے قیام پہ اتفاق نہیں ہوسکا ہے کیونکہ افغان طالبان ، عبوری دورحکومت کے لیئے اسلامی نظام حکومت  کے قیام کی شرط قبول کئے جانے سے قبل جنگ بندی کا امریکی مطالبہ قبول کرنے پہ کسی طور راضی نہیں ہیں کیونکہ انکے نزدیک اس ایک نکتے کے نہ ہونے سے سارا معاملہ پلٹ سکتا ہے ۔

اس سلسلے میں یہ بات تو یقیناً خلاف تؤقع نہیں کہ روس چین اور امریکہ نے افغانستان میں اسلامی شرعی نظام کے قیام کے مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن یہ امر شدید حیرت کا باعث بنا ہے کہ پاکستان نے بھی اسلامی شرعی نظام کے قیام کے مطالبے کو یکسر مسترد کردیا ہے کیونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے سربراہ عمران خان کی زبان پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنانے کی تقریریں کرتے نہیں تھکتی مگر عملاً وہ اسکے سخت مخالف ثابت ہورہے ہیں جس کے ویسے تو متعدد حوالے پہلے سے موجود ہیں مگر ماسکو کانفرنس میں پیش کردہ یہ تازہ شرمناک طرز عمل انہیں تاحال دیار کفر کا پاسبان ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور جس سے بلاشبہ سبھی اہل ایمان کو سخت رنج پہنچا ہے ۔۔۔ مگر اطمینان رکھیے ابھی یہ ملک ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہوا جو اس میں بھی خان کی عظمت کے سو سو پہلو تراش لائیں گے اور ہزار گالیوں کی مدد سے مخالفین کو سمجھائیں گے اور بنی گالہ میں لٹکے ہوئے طغروں کی بھرمار اور وہاں آویزاں بابا فرید کے اقوال دکھائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ بیشمار درباری شاعر کپتان کو ڈٹ کے کھڑے رہنے کی یتیمانہ سی نغماتی سوغات پیش کریں گے اورساتھ ہی ایسے علما کی بھی کوئی قلت نہیں، وہ ان محلاتی علماکے کاندھوں پہ بیٹھ کر عمران خان کے ناحق کو حق ثابت کرنے کے لیے اپنے حلق سے توند تک کا زور لگائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بات بلاتذبذب کہی جاسکتی ہے کہ زیادہ امکان ہے کہ اسلامی پاکستان سے ملحق اسلامی افغانستان حکومت اب اسکی حریف نہیں حلیف ثابت ہوگی اور یوں‌ پاکستان کو نہ صرف اپنی مغربی سرحد ی طرف سے لاحق دفاعی امور اور مداخلت کے خطرات میں نمایاں کمی واقع ہوگی  اوراسکا اثراسکے دفاعی بجٹ پہ دباؤ میں‌ خاطر خواہ کمی لاسکے گا ، بلکہ اس دفاعی استحکام سے خطے میں بھارتی عزائم کو نکیل ڈالنے میں بھی بڑی مدد مل سکے – اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ایک پروپاکستان یا اسلامی حکومت کی تشکیل سے پاکستان نہ صرف اپنے ملک میں چین کی مدد سے سی پیک کے سہارے اپنی معیشت کو مضبوط کرسکے گا بلکہ یہ اشتراک افغانستان میں بھی معاشی تعمیر و ترقی کے نئے دور کے آغاز کا نقیب بن سکتا ہے، مگر موجودہ حکمرانوں نے مغرب کے اشارے پہ افغانستان کے مستقبل کی حکومت کو ناراض و مشتعل کرکے ان سب مثبت امکانات کو ملیا میٹ کرڈالنے کی اپنی سی بھرپور کوشش ضرور کی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply