سٹوڈنٹ ڈے/اقتدار جاوید

کہا جاتا ہے کہ بچپن یا زندگی کے پہلے پانچ سال والا عرصہ ایک تاریک براعظم ہے جس کے بارے میں کسی کو کچھ یاد نہیں۔ہم نے بھی اپنے دوستوں سے سکول کے پہلے دن کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا سکول کا پہلا دن یاد ہے تو سب کا جواب نفی میں تھا۔ سکول جانے کا پہلا دن تو ہمیں یاد نہیں تا ہم سکول سے غیر حاضر ہونے کا واقعہ ضرور یاد ہے۔

جو بھی نئے استاد تبدیل ہو کر ہمارے گاؤں آتے شام کو والد صاحب کو ضرور ملتے۔کوئی ایسے استاد نہیں تھا جو سکول کے اوقات کے بعد والد صاحب کے پاس دو دو تین تین گھنٹے نہ بیٹھتا ہو۔گاؤں میں والد صاحب کے علاوہ کوئی پڑھا لکھا آدمی بھی نہیں تھا اور ان کے علاوہ شاید تعلیم کسی کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔زرعی معاشرہ تھا اور سست رفتار بھی تھا۔ ہمارے پہلے استاد سید اکبر علی شاہ صاحب تھے۔ وہ گجرات سے تبدیل ہو کر آئے۔ سکول میں دن گزارا اور شام کو والد صاحب کے پاس آئے۔جب استاد صاحب نے بچوں کے متعلق پوچھا تو والد نے بتایا بڑے تین بچے تو ملحقہ شہر میں پڑھتے ہیں سب سے چھوٹا آپ کا ہی طالب علم ہے اور آپ کے سکول میں دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔انہوں نے جوابا کہا مگر آپ کا بیٹا تو آج سکول نہیں آیا۔( معلوم نہیں کیسے پہلے ہی دن استاد کو ایک ایک بچے کا علم تھا)۔انہوں نے کہا کون سا بچہ ہے مابدولت بھی وہیں تھے والد نے ہماری طرف اشارہ کیا۔انہوں نے لمبی سی ہاہاہاں کہی ہمیں دیکھا اور کہنے لگے یہ بچہ تو سکول کے باہر پِھر رہا تھا۔تب ہمیں بھی یاد آ گیا کہ شرٹ پتلون میں ملبوس کوئی اجنبی آدمی ہم نے بھی دیکھا تھا۔اور استاد صاحب کو دیکھ کر دل میں کہا ہاں یہ وہی اجنبی آدمی ہے اچھا تو یہ ہیں ہمارے نئے استاد۔ہمارے منہ سے بھی شاید ہاہاہاں نکلی تھی مگر وہ اتنی لمبی نہیں تھی جتنی استاد صاحب کی تھی۔

پانچویں جماعت پاس کی تو ساتھ والے گاؤں کے مڈل سکول میں ہمیں داخل کرا دیا گیا۔ہمارے سارے بڑے بھائی ملحقہ شہر کے معروف ہائی سکول میں جاتے رہے تھے مگر ہماری قابلیت اور جوہر اور ان میں روز بروز اضافے کا قیافہ لگاتے ہوئے والد صاحب نے ہمیں ایک گاؤں کے مڈل سکول میں داخل کرا دیا۔بالکل وہی دیسی گاؤں والا ماحول سست رفتار اور خاموش سا ماحول۔البتہ ایک فرق ضرور پڑا اب ہمیں گھر سے بوری کا ٹکڑا لانے کی کوفت سے نجات مل گئی جو پہلی سے پانچویں تک ہم بستے کے ساتھ لے کر جاتے تھے۔مڈل سکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہونے والوں میں ایک دو دوستوں کے علاوہ سارے ہمارے جیسے علامہ ہی تھے۔وہ ایک دو دوست زندگی کی دوڑ میں بھی ہم سب سے آگے نکل گئے۔ان میں ایک امریکہ کی ایک ریاست میں مشہور ڈاکٹر ہیں اور دوسرے آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے صاحب زادے گوگل کمپنی میں ایک اعلی انتظامی عہدے پر فائز ہیں اور تھائی لینڈ کام کرتے ہیں۔ہمارا مڈل سکول ہمارے گاؤں سے تین میل دور تھا۔سورج طلوع ہونے سے پہلے ہم ناشتہ کر لیتے اور دوستوں کی ٹولی کے ساتھ اپنے مڈل سکول کی جانب چل پڑتے۔تین میل کا یہ سفر پون گھنٹے میں طے ہوتا۔گھر سے دوپہر کا کھانا ایک رومال میں باندھ کر دیا جاتا اس رومال کو ہم پونا کہتے تھے اس میں ایک اچار کی ڈلی ہوتی تھی۔کسی درخت کے سائے میں یا پانی کے کھالے پر بیٹھ کر لنچ کا اہتمام ہوتا۔ایک دن ہم حسب معمول سکول سے باہر گھوم رہے تھے باقی سارے طالب علم اپنی اپنی کلاس میں تھے۔ہم نے دیکھا کہ ہمارے بڑے بھائی سائیکل پر سکول کی طرف آ رہے ہیں۔ہم بھی اپنی دھن کے پکے تھے ان کو دیکھ کر بھی سکول یا کلاس میں جانے کی کوشش نہیں وہیں کھڑے رہے۔ان سے ان کی آمد کا سبب پوچھا تو انہوں نے سائکل پر بندھا پونا کھولا اور کہا آج تم اپنا ” لنچ ” لانا بھول گئے تھے۔وہ دینے آیا ہوں۔تب بھی ہم حسب معمول سکول اور کلاس سے باہر پائے گئے تھے ۔

ہمارا پرائمری سکول یوں تو ایک ہندو ڈاکٹر کی رہائش میں تھا مگر گرمیوں میں ایک بوہڑ کے درخت کے نیچے اور سردیوں میں انگریزوں کی بنائی ہوئی خستہ سی سرائے میں منتقل ہو جاتا تھا۔سرائے کے درمیان گھاس کا ایک میدان تھا وہاں صفائی کی تو ضرورت نہیں ہوتی تھی تاہم بوہڑ کے نیچے جب کلاسیں ہوتی تھیں تو باری باری وہاں جھاڑو بھی ہم طلبا ہی پھیرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پانچویں جماعت کے لائق طلبا کو وظیفہ بھی ملتا تھا جو اگلے تین سال یعنی آٹھویں جماعت تک ملتا رہتا تھا۔یہ طلبا کے لیے یہ بہت پرکشش ترغیب تھی مگر کئی سالوں بعد کوئی ایک آدھ طالب علم ہی وظیفہ لے پاتا۔ہم تین طلبا کو بھی وظیفے کے سکریینگ ٹیسٹ کے لیے منتخب کیا گیا۔وہاں ریاضی اور املا کا ٹیسٹ ہوا۔ہمارے ایک دوست نے تو ریاضی کا ایک آدھ سوال حل کر ہی لیا مگر ہمارے پلے کچھ نہ پڑا۔تھوڑی دیر ہی بعد استاد صاحب نے ہم تینوں کو ابتدائی ٹیسٹ میں آؤٹ کر دیا اور وظیفے کا امتحان دینے کی نوبت ہی نہ آئی۔ہمارے گاؤں کے بہت سارے لڑکے اس سکول میں پڑھ رہے تھے ان کے ساتھ شام کو واپس چل پڑے۔گاؤں پہنچے تو ماں جی گاؤں کے باہر انتظار کر رہی تھیں۔پوچھا وظیفے کے امتحان کا کیا بنا؟۔ایک دوست بولا یہ تینوں کیڑیوں پر وظیفہ لاد کر آئے ہیں۔ماں جی ہنس دیں۔ایک دو سال تک دوست ہمارا مذاق ان کیڑیوں پر وظیفہ لاد کر لانے کا طعنہ دیتے رہے۔یہ وظیفہ ہمیں بالاخر اس وقت ملا جب انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں ضلع میں اول آئے۔تھرڈ ایر میں تھے تو ہمیں آٹھ سو چالیس روپیہ وصول کیے۔پہلی دفعہ جیب بھاری ہونے کا احساس ہوا۔سارا کالج یعنی سٹاف اور طلبا ہمیں حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ اس زمانے کے آٹھ سو چالیس روپیہ پورے اٹھاسی ہزار چار سو روپیہ بنتے ہیں۔سکہ رائج الوقت۔اپنے ملک میں خیر سے ایسی ہی حکومتیں آتی رہیں تو یہی رقم اگلے سال آٹھ لاکھ چار سو روپیہ کے برابر ہو سکتی ہے۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply