• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یوم اساتذہ کے موقع پر عامر سہیل کی اردو شاعری: استاد کو خراجِ تحسین/ رحمت عزیز خان

یوم اساتذہ کے موقع پر عامر سہیل کی اردو شاعری: استاد کو خراجِ تحسین/ رحمت عزیز خان

ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب، کالم نگار اور شاعر عامر سہیل نے اپنی اردو نظم ”سلام استاد” کے عنوان سے یوم اساتذہ پر استاد کو شاندار الفاظ میں دلی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ نظم شاعر کو اس کے استاد کی طرف سے عطا کردہ علم اور خود آگاہی کے انمول تحفے کے لیے شکریے کے طور پر تخلیق کی گئی ہے۔ استاد کے لیے تہنیتی شاعری شاعر کی زندگی کی تشکیل میں استاد کے کردار کے لیے گہرے احترام اور تعریف کی عکاسی کرتی ہے
نظم کا مرکزی موضوع طالب علم کی زندگی میں استاد کے گہرےکردار کے بارے میں ہے۔ یہ روشن خیالی، علم اور اخلاقی رہنمائی کے ذریعہ استاد کے کردار کو نمایاں کرتی ہے۔ نظم تعلیم کی اہمیت اور معاشرے میں اساتذہ کی اپنے شاگردوں کی بہتر انداز میں تربیت کو اجاگر کرتی ہے۔
نظم میں استاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے” سلام استاد” اور تعریف کے ایک منظم نمونے کی پیروی کی گئی ہے۔ ہر بند کا آغاز استاد کی تعظیم پر زور دیتے ہوئے “میرے استاد تجھے سلام اور آپ کو سلام” سے ہوتا ہے۔ یہ ڈھانچہ احترام اور شکرگزاری کے موضوع کو تقویت دیتا ہے۔
نظم میں بہترین استعارے بھی مستعمل ہیں جیسے “قوم کا معمار” اور “شہرت کا مینار” جیسے جملے استعارے کا استعمال کر کے استاد کے مرتبے اور اہمیت کو بلند کرنے کے لیے شامل کیے گیے ہیں۔
الیٹریشن: “رفعت کی بہار” اور “روشنی پھیلاؤ، سینے سے سینے” تال کے اثر کے لیے انتشار کا استعمال کرتے ہیں۔
تکرار: “میرا سلام آپ کو” اور “میرا آپ کو سلام” کی تکرار شاعر کی تعریف اور احترام کو واضح کرتی ہے۔
تُو نے کی ودیعت دولت شعور کی
اے قوم کے معمار، تجھے میرا سلام
نظم کا آغاز شاعر کے شعور کو علم سے مالا مال کرنے میں استاد کے کردار کے اعتراف سے ہوتا ہے۔ “شعور کی دولت” اور “قوم کے معمار” جیسے استعاروں کا استعمال اس خیال کو ظاہر کرتا ہے کہ اساتذہ ملک کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہے کر دیا اُجالا، تعلم کا چار سُو
اے عظمت کے پہاڑ، تجھے میرا سلام
دوسرا بند علم اور عظمت کی فراہمی میں استاد کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے، استاد اور ایک عظیم مینار کے درمیان ایک متوازی تصویر کھینچتا ہے۔ یہ موازنہ استاد کی طاقت اور اہمیت پر زور دیتا ہے۔
تُم نے خودآگاہی و خود شناسی دی مجھے
اے رفعتوں کی بہار، تجھے میرا سلام
تیسرا بند خود آگاہی اور خود شناسی میں استاد کی شراکت کے لیے شکریہ ادا کرتا ہے۔ “رفعت کی بہار” کا جملہ بتاتا ہے کہ استاد فکری نشوونما کا ذریعہ ہے۔
تمہی نے پھیلائی روشنی، سینہ بہ سینہ ہر جسد
تیرے احسان بے شمار، تجھے میرا سلام
چوتھا بند استعاراتی طور پر استاد کو روشن خیالی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، جو ہر ایک کے لیے روشنی پھیلاتا ہے۔ استاد کے بے شمار احسانات کا حوالہ ان طریقوں کی عکاسی کرتا ہے جن سے اساتذہ اپنے طلباء کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تجھی سے ہیں منور درسگاہیں تمام شُد
تجھ کو ہزار بار تجھے میرا سلام
پانچواں بند مختلف روشن خیال اسکولوں اور خود دنیا پر استاد کے اثر کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ بند اس خیال کو واضح کرتا ہے کہ تعلیم معاشرے کی بنیاد ہے۔
اس کے بعد کے اشعار استاد کی بہادری، دانشمندی، اور صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت کے لیے تعریف کرتے رہتے ہیں۔ نظم میں نہ صرف ذہن بلکہ طالب علم کے کردار کی تشکیل میں استاد کے کردار پر زور دیا گیا ہے۔
آخری بند میں شاعر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ استاد ہی عزت و احترام کا مستحق ہے۔ یہ دلی اعلان نظم کے مرکزی موضوع کو تقویت دیتا ہے – طلباء کی زندگی میں اساتذہ کی گہری اہمیت کے بارے میں عامر سہیل کے اشعار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عامر سہیل کی اردو نظم افراد اور معاشرے کی تشکیل میں اساتذہ کے کردار کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یوم اساتذہ کے جوہر کو خوبصورتی سے کھینچتی ہے۔ خوبصورت استعاروں کے ذریعے نظم گہرے احترام اور تشکر کا اظہار کرتی ہے، جس سے یہ ہر جگہ کے ماہرین تعلیم کے لیے موزوں ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعہ کے لیے عامر سہیل کی نظم پیش خدمت ہے۔

”سلام ٹیچر ڈے”

Advertisements
julia rana solicitors

تُو نے کی ودیعت دولت شعور کی
اے قوم کے معمار، تجھے میرا سلام
ہے کر دیا اُجالا، تعلم کا چار سُو
اے عظمت کے پہاڑ، تجھے میرا سلام
تُم نے خودآگاہی و خود شناسی دی مجھے
اے رفعتوں کی بہار، تجھے میرا سلام
تمہی نے پھیلائی روشنی، سینہ بہ سینہ ہر جسد
تیرے احسان بے شمار، تجھے میرا سلام
تجھی سے ہیں منور درسگاہیں تمام شُد
تجھ کو ہزار بار تجھے میرا سلام
تمہی سے ہے فروزاں یہ عالم یہ جہاں
تو علم کی بہار، تجھے میرا سلام
ہے قابلِ تحسین تیری شگفتگی
ہے خوب تر گفتار، تجھے میرا سلام
تُو نے ہی سکھائی، تمیز صحیح و غلط
تجھے کام سے ہے پیار، تجھے میرا سلام
تُو نے ہی ختم کی ہے، سوچوں کی ماندگی
لایا ذہن میں نکھار، تجھے میرا سلام
تیرے لہجے کی نرم خوئی نے میرے درون میں
دیا لفظ لفظ اتار، تجھے میرا سلام
تُو ہی تو حقدار ہے عزت و تکریم کا
یہی قلب اٹھا پکار، تجھے میرا سلام

Facebook Comments

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، ورلڈ ریکارڈ سرٹیفیکیٹس، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔ کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں، اس واٹس ایپ نمبر 03365114595 اور rachitrali@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply