انگریزستان(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔عدیل ایزد

میں آپکو کچھ دوسرے ممالک کی قومی زبان کی مثالیں دیتا ہوں تاکہ آپکو پتا چلے کہ کسی بھی جگہ کے لیے اسکی مادری زبان کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ چائنہ کی بات کرتے ہیں ۔ چائنہ کی آفیشل زبان ہے مینڈرین (Mandarin) ۔ وہاں کے لوگوں کے لیےضمیر متکلم / فرسٹ پرسن کبھی بھی سنگلر یا واحدنہیں ہوتا۔ فرسٹ پرسن یا ضمیر متکلم سے مراد ہے جب ہم اپنے لیے بات کرتے ہیں جیسے میں جا رہا ہوں، میں آرہا ہوں تو یہ جو “میں” یا “I” ہے یہ فرسٹ پرسن ہے۔ چائنیز لوگوں کے لیے ضمیر متکلم /فرسٹ پرسن ہمیشہ جمع ہوتا ہے کیونکہ وہ اجتماعی معاشرے یا گروہی اتحاد میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ لوگ کنفیوشن کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں اس نظریے کے مطابق دنیا میں موجود کوئی بھی چیز ایک دوسرے جدا نہیں۔ بھلے ہی آپ اپنے بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن آپ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا آپ ایک واحد نہیں بلکہ جمع ہیں۔ آپ جاپان کو دیکھ لیں وہاں پر انفرادیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ وہاں کے ہر باشندے کی انفرادی پرورش پر بہت زور دیا جاتا ہے اور یہ چیز ان کی زبان میں بھی جھلکتی ہے ۔

جیسا کہ ہمارے یہاں کوئی لڑکا یا لڑکی اگر خوش ہیں تو دونوں ہی یہی کہیں گے ” میں خوش ہوں” یا انگریزی میں کہیں گے ” I’m Happy”۔ اور یہاں پر آپ اس آئی یا میں اس وقت تک فرق نہیں کر پاتے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی جب تک کہ آپ ان کو دیکھ نہ لیں یا ان کی آواز نہ سن لیں۔ لیکن جاپان میں “میں” یا “I” کے لیے بہت سے مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو آپکی جیسی شخصیت ہے آپ ویسا لفظ استعمال کر سکتے ہیں ۔ جیسے “وتاشی (Watashi)” جس کی کوئی جنس ہی نہیں، “کانجی(Kanji) ” آئی کی عام قسم، “بوکو (Boku) ” نرم دل مذکر ، “اورے(Ore) ” سخت دل مذکر اور” اتاشی”(Atashi) یعنی مونث آئی۔ دیکھ رہے ہیں کیسے ان کی تہذیب ان کی زبان میں جھلکتی ہے۔ اگر یہی جاپان کے لوگ، چائنہ کے لوگ اپنی مادری زبان چھوڑ کر انگریزی زبان بولنے لگیں تو ان کی بنیادی ثقافت ہی ڈھے  جائے گی۔ اور یہ تو بس ثقافتی پہلو کے حوالے سے ہم نے زبان پر بات کی ہے بہت سی ایسی زبانیں جو ہمارا جغرافیائی احاطے کو دیکھنے کا نظریہ ہی بدل دیں گی۔ شمالی آسٹریلیا میں کچھ ایسی مقامی زبانیں ہیں کہ گر آپ ان کو سیکھیں گے تو آپکا جغرافیہ کو دیکھنے کا نظریہ ہی بدل جائے گا۔۔۔

مثلا ً آپکی دائیں طرف کوئی چیز رکھی ہے اور آپکو اس کی پوزیشن بتانی ہے تو آپ بولیں گے میری بائیں جانب وہ چیز پڑی ہے یا پھر انگریزی میں کہیں گے “On my right, there is an object”۔ لیکن وہاں کے لوگ کبھی بھی میرے دائیں یا میرے بائیں نہیں کہتے ۔

وہ ہمیشہ کارڈینل ڈائریکشن / نقاط اصلیہ استعمال کرتے ہیں۔ کارڈینل ڈائریکشن کا مطلب کسی بھی جگہ کی شمال، جنوب، مشرق یا مغرب اطراف۔ کیونکہ ہم جو بولتے ہیں میرے دائیں جانب یا میرے بائیں جانب یہ ایگو سینٹرک ڈائریکشن ہے ، ہم خود کو اہمیت دیتے ہیں۔ مطلب ہم لوگ خود کو مرکزی نقطہ رکھتے ہیں اور پھر باقی سب کی پوزیشن بتاتے ہیں۔ پر ان کے لیے نیچرل اور کارڈینل ڈائریکشن زیادہ اہم ہے۔ وہ ہمیشہ نیچرل اطراف کو استعمال کرتے ہوئے ہی سمت کا تعین کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کا سپیس اورینٹیشن / صحیح اور واضح سمت کا تعین کرنے کی صلاحیت اتنی مضبوط ہے کہ اگر  آپ انہیں جنگل کے درمیان بھی چھوڑ دیں تو وہ کبھی کھوئیں گے نہیں بلکہ خودی باہر آ جائیں گے۔ ان کا دماغ ہی ایک طرح کا قطب نماہے۔ اور اگر ہم لوگ، جو ابتدا سے ہی دائیں بائیں سے سمت کا تعین کرتے چلے آرہے ہیں ، کبھی راستہ بھٹک جائیں تو ہمیں ایمرجنسی کال کرنی پڑتی ہے۔ جنگل سے نکلنے کے لیے ہیلی کاپٹر کی مدد درکار ہو گی۔

تو دیکھ لیجیے  زبان میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس زبان کی میں بات کر رہا ہوں وہ تقریبا ختم ہی ہونے والی ہے یا شاید اب تک ختم ہو چکی ہو گی بس دو چار لوگ ہی بچے ہیں جو اس زبان کو علم رکھتے ہیں پتا ہے کیوں؟؟؟ انگریزی۔

آج کی تاریخ میں آسٹریلیا کی  80  فی صد آبادی انگریزی زبان کا استعمال کرتی ہے جو آنے والے وقتوں میں سو فی صد ہو جائے گی۔ تو میں یہ نہیں چاہتا کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہو۔ اس لیے ہمیں اپنی قومی زبان کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے ، اپنی روزمرہ کی گفتگو میں اردو کا ستعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ اور میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ آپ انگریزی مت بولیں یا انگریزی مت سیکھیں۔ اس دور میں انگریزی سیکھنا ضروری ہے تعلیم سے لے کر نوکری تک ہر جگہ انگریزی زبان پر مہارت رکھنے والے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ چاہے تو آپ رشین سیکھیں، فرنچ سیکھیں اسپینش بھی سیکھیں کیونکہ آپ کو جتنی زبانوں کا  علم ہوگا آپ اتنے طریقوں سے سوچ سکیں گے، اتنے انداز  سے دنیا کو دیکھ سکیں گے۔

میں تو کہتا ہوں ہر انسان کو کم از کم دو زبانیں تو آنی ہی چاہئیں ۔ اس سے آپکے دماغ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے مگر ہاں دوسری زبان کے چکر میں اپنی ہی قومی / مادری زبان بھول جائیں تو گھاٹے کا سودا ہے۔ کیونکہ آپکی جو بھی مادری زبان ہے چاہے وہ اردو ہو یا پنجابی ، سندھی ہو یا پشتو، بلوچی ہو یا سرائیکی اس زبان کے پیچھے ایک ثقافتی ، ایک علاقائی وجہ ہوتی ہے کہ وہ زبان اسی جگہ پر بولی جاتی ہے ، آپ کا تعارف ہے وہ، آپ کے نام کی طرح آپکی شناخت ہے اور اگر آپ اسے بھول جائیں گے تو آپ خود کو کھو دیں گے۔ یہاں تک کہ ہماری بچپن کی جو یادیں ہیں وہ بھی ہماری مادری زبان سے جڑی ہوتی ہیں کیونکی بچپن میں ہم اپنی مادری زبان بول کر ہی بڑے ہوتے ہیں انگریزی تو ہم سکول یا کالج سے شروع کرتے ہیں تو ہماری جو ماضی کی یادیں ہیں وہ اس زبان سے اس طرح سے جڑی ہوتی ہیں کہ  اگر  ہم اس زبان کو بھول جائیں تو ہماری بچپن کی یادیں بھی دھندلا جائیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی لیے ہمیں اپنی قومی اور مادری زبان ہمیشہ بولتے رہنا چاہیے کبھی بھی اسے بھولنا نہیں چاہیے۔ میں چاہتا ہوں آپ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلائیں تا کہ ہمیں اپنی مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ ورنہ جس طرح سے ہمارے ملک میں انگریزی کا بول بالا ہے مجھے نہیں لگتا پاکستانی علاقائی زبانیں زیادہ دن بچیں گی ۔ انگریزوں کو تو نکال دیا ملک سے پر حقیقت یہ ہے کہ انگریزی آگئی ہے حکومت کرنے ۔۔ آپ انگریزی بولیں ، اچھے سے بولیں ، اچھے سے سیکھیں لیکن فخر ہمیشہ اپنی مادری اور قومی زبان پر کیجیے۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply