وبا کے دنوں میں نیویارک۔۔آصف خان بنگش

آج رات 8 بجے گورنر کومو نے نیویارک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا، جس کے بعد سے وہ شہر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے “the city which never sleeps” اب مکمل طور پر ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے۔
302 مربع میل پر محیط اس شہر کی آبادی قریب 9 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور پچھلے ایک ہفتے میں کورونا سے متاثرین کی تعداد اس تیزی سے بڑھی کہ اب نیویارک شہر کو امریکہ میں اس کا epicenter قرار دیا گیا ہے۔ شہر میں کورونا سے مصدقہ متاثرین کی تعداد اب قریب 20 ہزار ہو چکی ہے جبکہ غیر مصدقہ افراد جو وائرس کیریئر کے طور پر کام کر رہے ہیں اس سے دس گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔

اموات کا تناسب یہاں باقی دنیا سے بہت کم ہے اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جن لوگوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ان میں زیادہ تر کی عمر 18 سے 49 سال تک ہے دوسری صحت کی اچھی سہولت موجود ہے لیکن سٹی میئر کا کہنا ہے کہ اپریل کے بعد شہر میں اگر مریضوں کی تعداد اس شرح سے بڑھی تو ہمارے پاس سہولیات کم پڑ جائیں گی اور بڑے پیمانے پر لوگ وائرس کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے ایک خصوصی نیول میڈیکل جہاز نیویارک بھیجا گیا ہے جو شہر میں وائرس کا جنگی بنیادوں پر مقابلہ کرنے میں مدد دے گا۔ اب تک شہر کے حالات بہت پُرامن ہیں اشیائے خوردونوش کی کمی نہیں ہے لیکن کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے مقامی پولیس کے ساتھ نیشنل گارڈ کے دستے بھی تعینات کر دیئے گئے ہیں۔

لوگ قدرے سہمے ہوئے ہیں اور حکومتی احکامات پر عمل پیرا بھی ہیں۔ آمدورفت کیلئے بسیں اور ٹرینیں بدستور مفت چل رہی ہیں لیکن ان میں مسافروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران فارمیسیز، گروسری سٹور، ریستوران (ڈیلیوری) اور پٹرول پمپس کھلے رہیں گے اور تمام پبلک پارک، لائبریریز، چائے خانے، سینما، بارز، شاپنگ مالز وغیرہ بند رہیں گے۔

امریکی صدر نے اسے ایک ان دیکھے دشمن سے جنگ قرار دیا ہے اور تمام شہریوں کو صبر اور ہمت سے اس کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی ہے اور مقامی انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے 1800 ارب ڈالر کے پیکج  کا اعلان بھی ہوا جس میں ہر شہری کیلئے ریلیف شامل تھا لیکن سینٹ میں فی الحال پاس نہیں ہوسکا ہے اور اس پر مذاکرات جاری ہیں۔ عدالت نے بنکوں کو دو سے تین ماہ کیلئے گھروں اور دکانوں کی قسطوں میں چھوٹ دینے کا بھی کہا ہے اور کرایوں کے بارے میں کیس کی سماعت جاری ہے۔

مساجد و چرچ میں اجتماعات پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ جن مساجد میں نمازیوں کی تعداد بہت کم ہے وہاں نماز ہو رہی ہے لیکن ہر ممکن احتیاط لازم رکھی گئی ہے، اگلے جمعہ کے اجتماع پر اس صورت میں شاید پابندی لگا دی جائے۔

ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کا کاروبار متاثر ہوا ہے اور بے یقینی کی صورتحال ہے کہ میئر نے اشارہ دیا کہ آنے والے مہینے میں متاثرین کی تعداد اتنی ہو جائے گی کہ ہمارے بس سے بات نکل جائے گی اور اس کو قابو کرنے میں دو تین مہینے لگ سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز اور کلینک بدستور اپنے مریضوں سے رابطے میں ہیں اور ہر لمحہ تیار ہیں لیکن شدید علامات نہ ہونے تک لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی ہے۔ انتظامیہ جہاں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے وہاں اس جنگ کا ممکنہ نتیجہ پیادوں یعنی عام شہریوں پر منحصر ہے اس لئے ہر ایک فرد کو اپنی، اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کو محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن احتیاط لازم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وائرس سے انسانیت کی اس لڑائی میں کامیابی کیلئے دعاگو رہیں۔ دعا ہے تمام احباب خیریت سے رہیں، اپنی روزمرہ کی کاروائی محدود کریں، بزرگوں کا خاص خیال رکھیں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں، اورنج جوس پئیں، قہوہ اور لیموں پئیں، خوف کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں ،اس کا مقابلہ کریں اور ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply