سلطنت عثمانیہ کے حرم /منصور ندیم

سلطنت عثمانیہ میں 600 برس کی تاریخ میں پیدا ہونے والے سلاطین اپنی ماؤں کے نسبت سے غلام ماؤں کے ہی بچے تھے، بلکہ کثرت سے ان کی پیدائش بحیثیت حرم کی لونڈی کی نسبت سے ہی ہوئی تھی، حرم میں پہنچنے والی کسی بھی عثمانی لونڈی کی قسمت اس کے بیٹے کی قسمت سے منسلک ہوتی تھی۔ سلطان کی موت کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ آیا اس کا بیٹا نیا سلطان بنے گا یا نہیں۔ اگر اس کا بیٹا تخت پر آجاتا ہے، تو وہ والدہ سلطان بن جائے گی، “والدہ سلطان” یہ ٹائٹل ایک بہت ہی بااثر مقام تھا، یعنی یہ ٹائٹل حاصل کرنے والی شاہی حرم کی سربراہ ہوتی تھی، اور وہی فیصلہ کرتی تھی کہ اس کے بیٹے کو حرم کی کونسی لڑکیاں پیش کی جائیں گی۔ بعض اوقات، وہ اپنے بیٹے کے مشیروں میں سے ایک کے طور پر بھی کام کرتی تھیں۔ حرم میں بھی محلاتی سازشوں میں خواتین شامل ہوتی تھیں جو اکثر سنور سلطنت کے بڑے فیصلوں کی محرک بنتی تھیں، اور اس محلاتی سازشوں میں بھی خواتین کے مابین بہت کھینچ تان چلتی تھی، خصوصا سلطان کی پھوپھیاں بھی اس میں بہت عمل دخل رکھتی تھیں۔

اسی ٹائٹل “والدہ سلطان” ہر پہنچنے والی کچھ خواتین خصوصاً والدہ سلطان کی طاقت سولہویں اور سترہویں صدیوں کے دوران اپنے عروج پر پہنچی، اس دور کو “سلطنت خواتین” کہا جاتا ہے۔ اس دور میں “والدہ سلطان “کو عثمانی سیاست میں زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا، جن میں نور بانو سلطان اور صفیہ سلطان جیسی مائیں غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ خط و کتابت تک کرتی رہیں، اور کوسم سلطان اپنے بیٹوں کے لئے عسکری قیادت کے طور پر بھی معاملات کرتی نظر آئیں۔ یاد رہے کہ یہ تمام خواتین جو اس ٹائٹل تک پہنچی اور با اختیار رہیں، اصلا ًیہ سب سلطنت عثمانیہ میں بطور لونڈی کے تصور پر ہی لائی گئی تھیں، بس فرق یہ رہا کہ انہوں نے سلطان کو اولاد دی اور اولاد بھی بیٹا، جس کے ولی عہد بننے کا موقع پیدا ہوا, وہ لونڈیاں جن کے بیٹے سلطان نہیں بنے تھے، یا جو بہرحال بے اولاد ہی ہیں، ایک لحاظ سے “ریٹائر” ہو جاتی تھیں۔ وہ اکثر قدیم محلات جو استنبول کے پرانے، کم معروف محل ہوتے وہاں بھجوا دی جاتی تھیں. جو لونڈی “ریٹائرڈ” ہوجاتی پھر وہ اکثر غیر واضح ہو جاتی تھی۔ سلطان سلیمان کا بیٹا شہزادے مصطفے کے سلطان سلیمان کے حکم پر مارے جانے کے بعد اس کی والدہ، مہدیوران، برصہ چلی گئیں۔ وہ بے سہارا تھی اور اس وقت تک کرایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی، جب تک کہ نئے سلطان سلیم دوئم نے (سنہء 1566-1574) نے اپنا قرض ادا نہیں کیا اور اسے ایک گھر خرید دیا۔

“ایمپریس آف دی ایسٹ” کی مصنف مورخ “لیسلی پیرس” کے مطابق ،
“ایک حرم کی ماں اب بھی اپنے مرحوم بیٹے کے گھر کی دیکھ بھال کرے گی۔ وہ، حکمران سلطان کے ساتھ، شہزادے کے حرم کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی، اور وہ اپنے زندہ بچ جانے والے حامیوں کے لیے عہدوں کی درخواست بھی کر سکتی ہے۔ جب کہ اس کے شہزادے کو سلطان بننے کے لیے تیار کرنے کی اس کی ڈیوٹی ختم ہو چکی تھی”.

سلطنت عثمانیہ میں، سلطان کی موت کے بعد، اس کی لونڈیوں کی قسمت ان کی حیثیت اور متوفی سلطان کے ساتھ تعلقات کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی۔ جن لونڈیوں نے سلطان کے ہاں بیٹے کو جنم دیا تھا وہ “حسکی” کہلاتی تھیں اور دوسروں کے مقابلے میں اعلیٰ مقام رکھتی تھیں۔ انہیں عام طور پر وظیفہ دیا جاتا تھا اور انہیں محل میں اپنی زندگی گزارنے کی اجازت دی جاتی تھی، حالانکہ انہیں پھر حرم کا رکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دوسری لونڈیاں جنہیں اب استعمال میں نہیں لایا جاتا تھا اکثر ان کی شادیاں شاہی افسروں سے کر دی جاتی تھی یا غلامی میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ کچھ کو محل چھوڑ کر اپنے اہل خانہ کے پاس جانے کی بھی اجازت مل جاتی تھی، تاہم، کچھ لونڈیوں کو جو سلطان کی خاص طور پر محبوب تھیں، مرحوم سلطان کے احترام کی علامت کے طور پر حرم میں رہنے کی اجازت تھی۔ ان لونڈیوں کو، جنہیں “گوزدے” کہا جاتا تھا ان کو حرم کے اندر ایک خاص درجہ اور مراعات دی جاتی تھیں عثمانی حرم ایک بہت پیچیدہ ادارہ تھا، اور سلطان کی موت پر لونڈیوں کی قسمت بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی ہے، اور یہ ادارہ خاصے اخراجات بھی لیتا تھا۔

جیسے سترہویں صدی کے اوائل سے پہلے عثمانیوں کے پاس سلطان کے انتقال کے بعد ولی عہد میں تخت نشینی کی منتقلی کے وقت بغاوتوں سے بچاؤ کے لئے تخت نشین ہونے والے سلطان کے تمام بھائیوں کے قتل کی پالیسی تھی۔ جسے قانونی درجہ حاصل تھا اور اس کی توثیق مذہبی شیخ الاسلام کا فتویٰ کرتا تھا، یہ قانون سلطان محمد دوئم کے عہد میں باقاعدہ عثمانی سلطنت کا حصہ بنا تھا، لیکن اس قانونی شکل کو بعد میں سلطان مراد اول نے واپس لے لیا تھا۔ لیکن اس دوران اس پر عمل ہوتا رہا تھا۔بالکل اسی طرح جن شہزادوں کی شہزادوں کی مائیں عام طور پر پرانے محل میں ریٹائر ہو جاتیں، اپنی بقیہ زندگی غیر معروف اور اکثر کسمپرسی میں گزارتی تھیں، اس کو بھی ایک نیا رخ دینے والی سلطان سلیمان کی معروف لونڈیا “روکسیلینا” جو حورم سلطان کے نام سے معروف ہوئی، نے تبدیل کیا، اس نے اسلام قبول کیا اور پھر چار بچے ہوجانے کے باوجود چونکہ حرم میں کوئی خاتون مسلمان نہیں رہ سکتی تھی تو عثمانی سلطنت کے پہلے سلطان سلیمان تھے جس نے اپنے بچوں کی ماں سے باقاعدہ شادی کی تھی ۔ ورنہ خود سوچ لیں عثمانی عہد میں سلطان باقاعدہ شادی کرتے ہی نہیں رھے، ماسوائے ایک یا دو معاملات میں شادی کرنا سلطان کے لیے مجبوری بنا تھا۔ سلطنت عثمانیہ میں صرف سلطان کی لونڈیاں ہی ہوتی تھیں۔ عثمانی عہد کے کسی سلطان نے اس وقت تک شادی نہیں کی تھی جب سلیمان القانون نے حورم سلطان سے باقاعدہ شادی کی تھی۔

نوٹ یہ حفصہ سلطان کا مجسمہ، سلیمان دی میگنیفیشنٹ کی والدہ اور “والدہ سلطان” کا خطاب حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھی جنہیں حرم میں یہ اعزاز ملا تھا ۔ عثمانی ترکی میں ویلیڈ کا مطلب  “ماں” ہوتا ہے, اس نسبت سے یہ ٹائٹل پانے والی پہلی “والدہ سلطان” بنی تھیں اور بحیثیت سلطان کی والدہ اور شاہی خاندان کی غیر سرکاری ماں کہلائیں۔ تصویر میں حفصہ سلطان کا مجسمہ ہے، جو آج بھی ترکی میں موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حرم میں ابتداء میں جنگوں سے حاصل شدہ عیسائی خوبصورت لڑکیاں پہنچائی جاتی تھیں، پھر حرم کی محلاتی سازشوں کی وجہ سے طاقتور حلقے سلطان سے قربت کی خواہی کے لئے عیسائی علاقوں سے خوبصورت لڑکیاں اغوا کروا کر بھی بھجواتے تھے، اس کے علاوہ، جب بحری قزاق کسی مسافر بحری جہاز کو لوٹتے تھے تو عیسائی لڑکیوں کو غلام بنا کر بھی استنبول کی بندرگاہ پر لاتے تھے تو اس وقت استنبول کی بندرگاہ پر شاہی ہرکارے خصوصاً خوبصورت لڑکیاں خرید کر شاہی حرم کے لیے بھجواتے تھے۔ امراء بھی بادشاہوں کے لئے ایسی لڑکیاں خرید کر شاہی حرم تک بھجواتے تھے کہ سلطان کے پسندیدہ بن سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply