“اختلاف” اُمت کا المیہ/محمد عثمان کھوکھر

اردو کے ذخیرہ الفاظ میں سے ایک لفظ “اختلاف”آپ نے سُن اور پڑھ رکھا ہوگا، قارئین اختلاف کسے کہتے ہیں؟ آپ سب سوچیں گے، یہ کونسا مشکل ہے، سب جانتے ہیں اختلاف سے مراد مختلف رائے یا کسی بھی معاملے میں الگ الگ سوچ، عمل یا فعل کا نام اختلاف ہے۔ مجھے اس تعریف پر کوئی اعتراض نہیں،لیکن میں چاہتا ہوں پانچ حروف سے مل کر بننے والا عربی زبان کے لفظی  قبیلوں سے تعلق رکھنے والا لفظ آخ ت لاف مزاج کے لحاظ سے کیسا ہے ؟

کوئی شک نہیں لفظ اپنے قبیلے رکھتے ہیں جیسے سماج میں رہنے اور بسنے والے افراد اپنے قوم اور قبیلے رکھتے ہیں۔ہر قبیلے اور قوم کی اپنی الگ تہذیب اور تمدن ہے ، عادات اور مزاج ہیں عین ایسے ہی لفظ قبیلوں کے اپنے اپنے مزاج ہیں ۔
کچھ لفظ محبت قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ نفرت قبیلوں سے کچھ نرم مزاج قبیلے ہیں اور کچھ غصیلے  ۔۔۔!

ہم لفظ اختلاف کی بات کر رہے ہیں ، مجھے معلوم نہیں یہ لفظ کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔البتہ میں آپکو اسکے مزاج کے بارے میں بتا سکتا ہوں اور اسکا مزاج اور رویہ بڑا عجیب ہے  ۔
یہ جس سماج اور معاشرے میں اعتدال اور مکالمے کی صورت میں ظاہر ہو وہاں تحقیق سوچ اور نئے شعور کو جنم دیتا ہے،اس کے ظاہر اور باطن سے فقر اور تفکر کے سوتے پھوٹتے ہیں جیسے پہاڑ کی چوٹی سے صاف شفاف چشمہ اُبل پڑے  اور پھر جھرنوں کی صورت میں گرتے موسیقی پیدا کرتے ،فضاء اور ماحول کو معطر کرتے ایک چشموں سے کئی چشموں کو جنم دیتا ، سیدھا گھومتا اپنے لیے راستہ بناتے،وہی جس کا آغاز ایک قطرے سے ہوا تھا پھر قطرہ قطرہ ملتا ملاتا اجتماعیت کی صورت میں قلزم کی منزل پا لیتا ہے ۔

قارئین! ایک بات تو طے ہے کہ لفظ اختلاف کا تعلق سوچ قبیلے سے ہے ، تو لازم ہے کہ اسکے مزاج میں وسعت اور برداشت کی صفتیں پائی جائیں ،لیکن جس سماج اور معاشرے میں لفظ اختلاف بحث کی صورت میں ظاہر ہو وہاں تحقیق اور سوچ کو نگل جاتا ہے۔اس کے مزاج کی عجیب صفتیں ظاہر ہونے لگتی  ہیں ، یہ سوادِ اعظم کے فکری اجتماعی نظریات کو پارہ پارہ کرتا ،ناموافقت کی فضاء پیدا کرتا اختلاف در اختلاف کو جنم دیتا ہے۔فرق و تفاوت کو قوت بخشتا عداوت بگاڑ دشمنی اَن بن ضد، ہٹ، تعصب ،خرافات کو ہوا دیتا ،بحث برائے بحث جیسی موذی مرض کی طرح سماج قوم اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔

عالم اسلام اور بالخصوص پاکستانی کمیونٹی میں لفظ اختلاف محرم اور ربیع الاول میں اپنی موذی مرض بحث کے ساتھ،ہر شعبہ زندگی کو جکڑ لیتا ہے ، اور اجتماعیت کو یوں ریزہ ریزہ کرتا ہے جیسے کوئی دیوانہ اپنے کپڑوں کو پھاڑنے لگے۔کوئی ہوش مند مکالمے یا تحقیق کی اذان دینا بھی چاہے تو اسے گریبان سے پکڑ کر بیچ چوراہے کفر کے فتوؤں اور تمغوں سے نوازا جاتا ہے  ۔ایسے میں کون ہے جو جرات کرے ؟کون ہے جو مکالمے کی فضاء کے لیے تگ و دو کرے؟
سب کو بحث نے جکڑ لیا ہے۔

بحث اور بحث برائے بحث ضد تعصب کی راہ ہے جس پر خرافات کے سواء کچھ نہیں اور خرافات گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟

کل  12 ربیع الاول کے روز  چراغ روشن اور بتیاں جل رہی تھیں  اورابھی بھی ویسے ہی آویزاں ہیں ، کہیں جھنڈیاں لگی ہوئی ہیں ۔۔
ڈی جے آواز بڑھا رہا ہے گانوں کی مثل  نعتیں، سب اچھل رہے ہیں ،پگڑیاں اچھل رہی ہیں، عمامے اچھل رہے ہیں، داڑھیاں ہل رہی ہیں،اور مکالمہ مزاج فکری اختلاف تخیل کی  صورت میں 14 سو سال پہلے کے منظروں کا ناظر بن گیا ہے۔۔
مکہ کی سر زمین ہے ۔۔اس دن کون تھا جو خوش نہ تھا؟
خوشی دیدنی ۔۔۔۔۔۔
اطلاع دینے والے
انعام و اکرام میں لدے گھروں کو بھاگ رہے  ہیں ۔
چچا تو مسرت میں غلام ہی آزاد کیے  جا رہا ہے
اہل قریش قطار در قطار عبداللہ کے عکس کو نقش در نقش کیے جا رہے ہیں ۔
اور دیکھیے آمنہ بنت وہب
پاکباز بیوہ “چہرہ محمد” پہ نظریں جمائے ۔۔۔
خیال ہی خیال میں۔۔۔۔۔مرقد عبداللہ تک پہنچ گئی ہوں گی ۔ ۔دیکھو۔۔ ۔عبداللہ کون ہے؟  ۔دنیا کیا جانے ، پاکباز بیوہ کیلئے مرقد شوہر کیا ہے
غم ہو کہ سکھ محور وہی مرقد  ۔۔مگر آج سکھ ہی سکھ ہے ، ۔
کوئی احمد ،کوئی محمد پکارتے ہوئے بلا  رہا ہے  ۔پیار ایسا کہ دارالندوہ،جہاں چالیس سال سے کم عمر جا نہیں سکتا عبدالمطلب وہاں ساتھ لیے جاتے ہیں  ۔کیا ابو لہب ،جمیلہ ،اور ابو الحکم سب کے سب پیار لٹا رہے ہیں ۔کوئی حمزہ سا جوان تلوار سے آشنائی کروا رہا ہے تو کوئی عباس سا ماہر معیشت   کے گُر بتا رہا ہے ۔دن گزرتے گئے ،سائے اٹھتے گئے۔ ۔
بچپن سے جوانی  ۔۔شباب ۔۔
جوانی قابل دید اور شباب شرافت کا نکھار  ۔۔
معاشرتی اوصاف ایسے کہ ، دیکھنے والی ناقد آنکھیں بھی صادق اور امین کی گواہی دیتے چمک پڑتیں۔ ایک نہیں کئی بار ہوا ، سہیل ،عتبہ ،شیبہ ،ربیعہ ابولہب کیا  ،ابو الحکم جیسے بھی کہتے ،
پیارے کیا کہتے ہو اس امر میں وللہ رائے تو آپکی ہوگی”
اشرافیہ تعلق جوڑنے کو بےتاب،حسب و نسب کے بلیغ خطبوں میں،شفقت و پیار کی دعائیں،سب دے رہے ہیں،خدیجہ کو ،محمدکو ۔۔۔۔
ابو طالب ،الو لہب ابوالحکم ، اور اب 40 سال گذر گئے ہیں ،محبتیں بانٹتے ،سمیٹتے ۔۔۔غلہ بانی کرتے ہوئے جہاں بانی کرنی ہے،کفر و شرک اور دم توڑتی انسانیت کو سہارا دینا ہے،ہبل ،لات منات اور عزی کے دیوانوں کو پیغام توحید سنانا ہے، کوہِ حرا کا پیغام اب عام کرنا ہے ۔
لاالہ الاللہ کے پیغام کی ،پہلی نشست اپنے گھر اپنے عزیزوں کو دعوت دیتے سنائی ،سب سے پہلے،وہی میلاد پہ غلام آزاد کرنے والا چچا اٹھا،کہا اور جو کہہ سکا کہہ ڈالا ۔  پھر سب چلے گئے۔۔
آنے والے دن کو پھر بلایا ،سب آئے۔۔۔
بولے ہی تھے ،۔۔۔
پھر وہی چچا اٹھا لیکن کچھ کہتا۔۔۔
آپ کہہ چکے تھے، پیغام میں مدد چاہی ،خاموش ہیں سب ،دیکھ رہے ہیں
ابوطالب موجود،لہب۔۔۔سب شراکت دار سانجھی حیران ،غصے میں۔ ۔۔
میلاد منانے والے ، پیغام پہ خاموش ہیں
علی اٹھے ،ہاتھ پکڑا ۔۔
عجیب معاملہ ہے میلاد کے سب موجودوں سے غیر موجود نکھر گیا ہے ۔
شفقت کا ہاتھ رکھا ،کہا علی کی مانو۔ ۔
حزن کا سرمایہ اکٹھا کرنے والا،
ابو لہب عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے ابوطالب کو کہنے لگا ،
ہاہاہا اب باپ بیٹے کی مانے گا ہاہاہا”
دن گذرتے گئے ،
وہ روکتے اور آپ سناتے گئے ،
حالات بدلتے گئے ،
اپنے پرائے ،پرائے اپنے  ہوتے گئے
وہ روکنے پہ کمربستہ ،آپ سنانے پہ،
آخر کار فیصلہ ہوا ۔۔۔۔۔
مکہ کی اسٹیبلشمنٹ نے سر جوڑے۔
یاد رہے یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے، جو آج سے 45 سال پہلے ،منظم طریقے سے میلاد کا انعقاد کروا چکی تھی مگر آج اس بات پہ کوشاں ہے کہ پیغام محمد کو کیسے روکا جائے ،کمیشن بنا کمیٹی تشکیل پائی ،  بڑے بڑے ،سیانے ،طاقت ور سب ابو طالب کے پاس پہنچے ۔۔۔
کہا ابوطالب سنو ،
برداشت سے باہر ہے ،لگتا ہے کچھ ہے، جادو ٹونہ ،جن پریت ،عورت ،کوئی چکر ہے، نہیں تو سرداری کا مسئلہ ہے،جیسا بھی جو ہے ،ہم پورا کرنے کو تیار ہیں ۔
مگر سنو اب ایسا نہیں ہونے دیں گے،وقت گذر گیا ،بہت برداشت کر لیا۔۔۔
آخری بار کہہ رہے ہیں ،سمجھا لو۔۔۔۔فیصلہ تم پہ ہے ،یا وہ یا ہم ۔۔
فیصلہ کرو ۔۔۔۔بتا ؤ۔۔۔۔پوچھو ۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوطالب گئے ،کہا۔۔ ۔
سنا ،یہ کیا کہہ رہے ہیں؟
کہا ،ہاں سنا ۔ ۔لیکن سن لیں ۔ “میں باز نہیں آؤں گا ، پیغام توحید سنانے سے ،کیا دولت، سچ تو یہ ہے کہ،اگر یہ میرے دائیں ہاتھ سورج اور بائیں پہ  چاند بھی رکھ دیں میں تب بھی پیغام حق سناتا رہوں گا ،کوئی ساتھ دے نہ دے ۔“
کہتے ہوئے آنکھوں میں اشک آ گئے۔۔
آپ سناتے اور کہتے گئے ، وہ روکتے ،ٹوکتے مارتے اور لڑتے گئے چمنستان توحید آباد ہوتا گیا، کونپلیں پھوٹتی گئیں ،تناور درخت بنتے گئے ، دور گذرتا گیا  ۔

قارئین میں نے دو منظر نامے آپکو دکھائے ہیں ، میلاد اور پیغام کا، وہی میلاد والے پیغام پر اچھل پڑے  ۔ 12 ربیع الاول ہے ڈی جے آواز بڑھا رہا ہے سب اچھل رہے ہیں پگڑیاں اچھل رہی ہیں عمامے اچھل رہے ہیں ۔ اختلاف اپنی مرض بحث برائے بحث میں رقصاں جھومے  جا رہا  ہے۔عید میلاد النبی کا زور شور  ہے۔

قارئین
لعنت ہو،اس مردہ ،مردود دل پہ جس کا میلادالنبی پہ دل افسردہ ہو ، لیکن کیا کہا جائے اس کو،جس کو وہ اشک یاد نہیں جو پیغام کو روکنے والی بدمعاش اسٹیبلشمنٹ پہ نکلے تھے ۔میلاد النبی کا تقاضا  ہے کہ پیغام النبی کو عام کیا جائے ،اور اختلاف کو مکالمے کی صورت دی جائے !
ہم جان گئے ہیں،اختلاف جس سماج اور معاشرے میں اعتدال اور مکالمے کی صورت میں ظاہر ہو وہاں تحقیق سوچ اور نئے شعور کو جنم دیتا ہے،اس کے ظاہر اور باطن سے فقر اور تفکر کے سوتے پھوٹتے ہیں جیسے پہاڑ کی چوٹی سےصاف شفاف چشمہ ابل پڑے ۔ اور پھر جھرنوں کی صورت میں گرتے موسیقی پیدا کرتے،فضاء اور ماحول کو معطر کرتے ایک چشموں سے کئی چشموں کو جنم سیدھا گھومتا اپنے لیے راستہ بناتے۔وہی جس کا آغاز ایک قطرے سے ہوا تھا پھر قطرہ قطرہ ملتا ملاتا اجتماعیت کی صورت میں قلزم کی منزل پا لیتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن افسوس اور افسوس در افسوس وہی اختلاف جو تحقیق اور شعور کو بیدار کرتا آج بحث برائے بحث کی ضد اور تعصب کے ہاتھوں امت کا المیہ بن گیا ہے
خدا اس اختلاف امت کے المیے سے بچائے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply