کیا واقعی جنسی گھٹن کا حل نکاح ہے یا علم کی کمی؟/اطہر اشفاق

جنسی بے راہ روی  ،زنا کاریاں ،ایکسٹرا میریٹل افئیرز، جنسی گھٹن سے پیدا ہونے والی وہ جھاڑیاں اور خودکار جڑی بوٹیاں ہیں جن کو تلف کرنے کے لیے پاکستان میں شاید ہی کوئی ادارہ باقاعدہ عزم و جذبے سے کام کر رہا ہو، البتہ جنسی گھٹن میں اصافہ کرنے اور جنسی جذبات بھڑکانے کے لیے ہر آن کوششیں جاری ہیں۔

نکاح ان تمام مسائل کا حل ہے
ایسا میں کچھ سال پہلے سوچتا تھا، بےشک متقیوں کو نکاح کے بعد صبر آہی جاتا ہے لیکن مسئلہ حل ہو جاتا ہے، اسکی کوئی گارنٹی نہیں۔۔
نکاح ہی تمام جنسی گھٹن اور اس سے جڑے دیگر مسائل کا حل ہے اس پر خود ساختہ تحقیق کے بعد اور بہت نوجوانوں سے براہ راست ڈیبیٹ سے    اور بھی مسائل میرے  سامنے آتے چلے گئے، نکاح بے شک ان تمام مسائل کا واحد حل ہے، لیکن یہ مسائل شادی شدہ لوگوں کے ساتھ بھی ہیں، تو  وہ  کیا کریں ؟ ہمارے معاشرے میں جنسیات کا علم نہ ہونے کے برابر ہے، دینی حلقوں میں طہارت و پاکیزگی کے ضمن میں کچھ پڑھایا جاتا ہے کچھ دینی و مذہبی رجحان رکھنے والے احادیث سے بھی مدد طلب کرکے اپنے مسائل پر قابو پا لیتے ہیں لیکن ایک عام طبقہ جو نہ  دین سے مکمل وابستہ ہے اور نہ  دنیا کی پوری خبر رکھتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے ان  مسائل کا حل موجود نہیں ، بالکل جنسی علم کی  طرح۔۔۔۔

بے شک ایسے جنسی علم سے نا بلد شادی شدگان  کو جنسی علم کے ساتھ حسبِ توفیق دوسرے یا تیسرے نکاح کی ترغیب بھی دینے میں کوئی ہرج نہیں ۔

نو بالغان جو جنسی مسائل کا حل ،نکاح کرکے سمجھتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ان میں سے تمام کے ساتھ معاملہ زیادہ تر صبر سے کام چلانے کے سوا کچھ   نہیں رہتا، ایسا کیوں ہے اس صورتحال کی بے شمار الگ سے کہانیاں ہیں۔

پاکستان ،انڈیا، بنگلہ دیش، میں نکاح کے باوجود آپ رشتہ زوج کے تمام حقوق حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
اسکی وجہ آپکے زوج کے ذاتی جذبات،   معاشرتی مسائل اور بے شمار رسموں کا بوجھ ہے  ۔

ان تمام مسائل سے ایک لڑکے کے لیے تو نکلنا آسان ہوسکتا ہے لیکن ایک نوجوان بالغ دوشیزہ کے لئے ان مصائب و مشکلات سے نکلنا نا ممکنات میں سے ہے، زنا دونوں کو آسانی سے میسر آ جاتا ہے اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہمارا سوشل میڈیا اور ملٹی میڈیا ہی کافی ہے۔

لیکن آپ اگر نکاح کر بھی چکے ہیں تو دوسری جانب اگر نکاح کے باوجود رخصتی سے پہلے رشتہ زوج کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں تو اسکی اجازت بھی معاشرہ نہیں دیتا، ایسی بہت سی کہانیاں ہیں کہ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے رشتہ زوج کو استوار کیا گیا اور معمولی سے جھگڑے پر طلاق ہوگئی ،یہ خوف لڑکیوں میں زیادہ پایا جاتا ہے اور ایسے بہت سے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

جنسی گھٹن سے سر زد ہونے والا قبیح گناہ (زنا) سے پیدا ہونے والا احساس ندامت سے ایک لڑکا تو آسانی سے جھگڑ لیتا ہے لیکن اس قبیح گناہ کے بعد ایک دوشیزہ لڑکی حقیقی شوہر کے ہاتھوں جو وہ ساری زندگی رسوا ہوتی ہے، اس قسم کی  الگ دردناک کہانیاں ہیں، LOWA یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق شادی سے پہلے زنا کرنے والی خواتین کی طلاق شادی کے پانچ سال کے عرصے میں ہوجاتی ہے اور یہ کُل کا 37 فیصد ہے، البتہ مردوں کی طلاق یا شادی سے پہلے زنا کرنے والوں کی طلاق کا کوئی ڈیٹا موصول نہیں ہوا۔ ان طلاقوں کی قیادت میں پھر سے جنسی ہیجان کا ایک لشکر بے کراں سمندر کی صورت میں اُمڈ  آتا  ہے،اسکی وجہ بھی جنسی گھٹن اور پھر جنسی علوم سے  ناواقفیت۔ ۔ کھوہ دی مٹی کھوہ اچ۔۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ میٹرک ، انٹرمیڈیٹ یا بی اے  میں ایک لازمی مضمون ازدواجی زندگی ،ان کے مسائل اور حل پر بھی کمپلسری مضامین میں شامل کیا جائے ؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply