ہمیں لاشیں چاہئیں /جمیل آصف

لیڈر یا سیاسی جماعتیں آخر لاشوں پر ہی سیاست کیوں کرتے ہیں؟ ۔ ان کے نظریات، مفادات اور ہداف کے حصول میں زندگی سے موت تک کا دورانیہ، ان کے پیغام کے پھیلانے میں متحرک ہونے سے لاپتہ ہونے تک کچہریوں کی دھکم پیل سے حوالات میں گزرے تلخ شب و روز ,جیلوں میں گزرے قیمتی ایام کے ساتھ قانونی جدوجہد سے نمٹتے ماہ و سال کی آزمائشوں سے گزرتے کارکن اور ان کے خاندان میں چھوٹے بچوں سے بڑے بزرگوں تک کو ملتی روحانی اذیت، جو کسی نا کسی جسمانی روگ کی صورت بھی ظاہر ہو جاتی ہے ۔
اس سارے کھیل میں لیڈرشپ کہاں کھڑی نظر آتی ہے ۔؟

ریڈ لائنز کراس ہوتی ہیں، ان لائنز تک صف بندی، کھیل کی منصوبہ بندی کرتے اپنے مفادات کے  حصول میں پریشر بڑھاتے اس پریشر کی فضا کو تقویت دیتے عناصر، ہمیشہ نچلے طبقے سے وابستہ یا مخلص، نڈر اور متحرک محنتی کارکنان کا انتخاب کرکے انہیں اپنی بدنیتی پر مبنی اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔

ناکامی کی صورت ان سے اعلان ِلاتعلقی کرکے انہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے ہیں ۔ہاں زخموں سے چور چور یا کفن میں لپٹے کارکن تو آبِ حیات کی طرح ان کی مردہ تحریکوں کے لیے روح کا درجہ رکھتے ہیں ۔

اس سارے اذیت بھرے سفر میں اس کے علاج معالجے، اس کی قانونی پیروی اس کے اہل و عیال کی داد رسی کے لیے کوئی نظر نہیں آتا ۔

ہاں صرف بحیثیت گدھ وہ منتظر ہوتے ہیں ایک لاش کے ،جس کو وہ اپنی جدوجہد کے لیے نوچ سیکھیں ۔

حالانکہ کارکن اثاثہ ہیں ان کی اخلاقی، نظریاتی، سیاسی اور انتظامی تربیت ایک مثبت جمہوری نظام کے لیے اہم ہوتی ہے ۔لیکن وہ انہیں اپنے سیاسی آلاؤ کے لیے بطور ایندھن کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی ایک کارکن اور اس کے لواحقین کی اوقات ہوتی ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply