شرم کی نفسیات/اختر علی شاہ

غالب نے کیا خوب کہا ہے۔۔
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

جی بالکل آج ہم بات کرنے والے ہیں شرم کے بارے میں اور اس مضمون میں آپ شرم کی نفسیات کو جان پائیں گے اور یہ بھی کہ یہ شرم آخر ہے کیا بلا ہے ؟

شرم کیا چیز ہے؟

شرم ایک احساس ہے جو انسانوں میں پیدا ہوتا ہے جب وہ کچھ غلط یا نامناسب کرتے ہیں یا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ ایک طریقہ ہے جو ہمیں سوشل ناموافق کرداری سے روکتا ہے اور ہمیں ہماری اپنی اور دوسروں کی توقعات کے مطابق چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔

شرم کی یہ خصوصیت ہمیں دوسروں کی توقعات کو پورا کرنے میں مدد کرتی ہے اور معاشرے میں ہمارا ایک اچھا امیج بناتی ہے۔ یہ انسانوں کو معاشرے میں غلط کاموں سے روکنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

البتہ، شرم کبھی کبھار منفی بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب یہ ہمیں خود کو محدود کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔شرم کا احساس بعض اوقات ہمیں معاشرتی ضابطے اور قواعد کی پیروی کرنے کے لئے بھی مجبور کرتا ہے۔ بعض اوقات شرم کا احساس ہمیں خود کو کمزور یا ناکام سمجھنے پر مجبور کرتا ہے، جو کہ خود اعتمادی کو کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، شرم کا احساس ہمیں Reasonable رسک لینے سے بھی روک سکتا ہے، جو کہ نئے مواقع حاصل کرنے اور نئی چیزیں سیکھنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

شرم کا احساس معاشرتی ضابطوں کی پیروی کرنے کے لئے ضروری ہے، لیکن اس کا زیادہ استعمال یا پہر مکمل طور پر اس کے بغیر زندگی گزارنا دونوں صورتوں میں ہمارا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم شرم کے احساس کو معقول حد تک ہی محدود رکھیں تاکہ یہ ہمیں معاشرتی روایات اور قیمتوں کے ساتھ چلنے میں مدد کر سکے، شرم کا احساس ہمیں خود کو بہتر بنانے کی ترغیب بھی دے سکتا ہے، اگر ہم اسے اپنے غلطیوں سے سیکھنے کے لئے استعمال کریں۔

اس کے علاوہ، شرم کا احساس ہمارے دوسرے احساسات اور جذبات کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے۔ یہ ہمیں دوسروں کے جذبات اور محسوسات کو تسلیم کرنے میں مدد کرتا ہے، جو کہ ہمارے معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنا دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا، شرم کا احساس معاشرتی، ذاتی، اور جذباتی سطح پر ہمارے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی ضرورت اور مثبت اثرات کے باوجود، اس کے زیادہ استعمال سے ہمیں اپنے آپ کو محدود یا محروم سمجھنے سے بچانا چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply