مشتاق یوسفی/تحریر- مرزا یسین بیگ

مشتاق یوسفی سے پہلے اردو مزاح غریب تھا۔ ان کے آنے سے مزاح کھاتا پیتا اور بینک بیلنس والا نظر آیا۔ پہلے مزاح صرف مصنوعی مسکراہٹ رکھتا تھا بعد ازاں دانت دکھانے اور قہقہے لگانے لگا۔ یوسفی نے اگر 5 ارب جملے لکھے تو شکر ہے ان میں سے ایک بھی عرب جیسا نہ تھا، سب کے سب خاندانی شگفتہ مزاج تھے۔ ان کی کتابوں کی وجہ سے اردو مزاح نے دندان شکن جواب دینا سیکھا اور اردو دانوں میں مسواک کی جگہ ٹوتھ پیسٹ کا رواج بڑھا۔

یوسفی صاحب چہرے سے بینکر نظر نہیں آتے تھے مگر ادب کو گن گن کر اصلی نوٹ تھمائے۔ وہ تیر اندازی کی بجائے طنز اندازی کے قائل تھے۔ شگفتگی لفظوں میں یوں پروتے تھے جیسے “ہار” میں پھول اور فول پروئے جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں مزاح میں ڈھل کر آتی تھیں اور جو پڑھ لے وہ قہقہوں میں ڈھل جاتا تھا۔ ساری عمر نوٹ گننے میں گزاری اور مزاح لکھ کر اس کا کفارہ ادا کیا۔ لوگوں کو دیکھ کر ہنسی چھوٹتی ہے اور انھیں پڑھ کر۔

شاید ان کی زندگی میں کوئی رنج ہو مگر ان کی تحریر میں نظر نہیں آتا۔ وہ دشمن اور جملوں کو ہنسا ہنسا کر زیر کرتے تھے۔ خود “چراغ تلے” رہے مگر اردو ادب کو روشن کر دیا۔ ان کی تحریروں میں بجلی بھری رہتی تھی جسے لوگ استعمال کرتے اور مسکراہٹوں سے بل ادا کرتے۔ وہ “مجذوبِ مزاح” تھے۔ ان کی تحریروں میں درویشی تھی۔ جو کچھ لکھتے لگتا مزاح پاشی کر رہے ہیں۔ ان کے دماغ میں مزاح بھرا ہوا تھا لہٰذا جب بھی غصہ کرتے سب ہنسنے لگتے۔

وہ اپنی ذات میں ابرِ زعفران زار تھے۔ ان کا نام والدین نے سنجیدگی سے رکھا تھا مگر بڑے ہو کر انھوں نے یہ نام مزاح کو دان کر دیا۔ وہ مزاح کا جز دان اور قلم دان تھے۔ مزاح کی روح سے کھیلتے اور ہر بار چوکے چھکے لگا کر اٹھتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص تعزیت کیسے کرتا ہو گا؟ جیسے آج ان کی تعزیت کیلئے غمگین، اداس الفاظ مل ہی نہیں پا رہے۔ انھیں مزاح سے روٹھتے کبھی نہ دیکھا گیا مگر آج وہ ہم سب سے روٹھ گئے۔ کیا خبر آج فرشتوں کیلئے عید کا دن ہو اور جنت میں شامِ مزاح رکھی گئی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے قوی امید ہے کہ دس سال بعد عالمِ بالا سے یوسفی کی نئی کتاب چھپ کر ضرور آئے گی۔ وہ لکھنے میں دیر اس لئے لگاتے تھے تاکہ پڑھنے والا ہنسنے میں دیر نہ لگائے۔ افسوس انھوں نے ہمیں چھوڑ کر جانے میں جلدی کر دی مگر خوشی ہے کہ وہ اپنے پیچھے جو ترکہ چھوڑ گئے وہ “رہتی مزاح” تک ہمیں ہر پل اور ہر گھڑی ہنسائے گا۔ شاید آج میں رو بھی رہا ہوں مگر یوسفی کی کتابیں مجھے گدگدا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کیا ہماری شکل میں تمھیں یوسفی کی نصیحت سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ مجبوراً میری رونی شکل مسکراتی چلی جا رہی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply