آپ کائنات کا علم رکھتے ہیں ؟۔۔ادریس آزاد

کیا کائنات کے بارے میں ہمارا علم معروضی ہے؟ کیا ہم نے فی الواقعہ کائنات کی ویسی پیمائشیں کی ہیں، جیسی کہ کائنات خود ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس قابلِ مشاہدہ علم کا کچھ حصّہ فقط موضوعی ہو؟ یعنی کہیں ایسا تو نہیں کہ کائنات کے بارے میں ہماری جو رائے ہے، وہ ہمارے منطقی فہم پر منحصر ہو، نہ کہ فی الواقعہ کائنات پر؟

ہم آئن سٹائن کی اضافیت کی روشنی میں اِن سوالات کا جائزہ لیں تو ایک عجیب و غریب نتیجہ سامنے آتاہے۔ جو معروضیت اور موضوعیت جیسی اصطلاحات کا محتاج نہیں کیونکہ معروضیت قابلِ مشاہدہ کائنات کے حقیقی اجزأ کے مطالعہ سے ظاہر ہوگی اور موضوعیت ہمارے ذہن اور منطقی فہم کی ساخت سے۔جبکہ اضافیت کہتی ہے کہ کائنات کے علم کا تعلق نہ ہی ہمارے ذہن سے ہے اور نہ ہی بیرونی دنیا کی حقیقت سے۔ بلکہ کائنات کے علم کا تعلق ہمارے عمل (ایکشن) سے وابستہ ہے۔یہ بات کہ کائنات کتنی لمبی چوڑی ہے، ہماری رفتاروں پر منحصر ہے۔آج ہم کائنات کے جس حصے کو نظامِ شمسی کہتےہیں اور اسے ایک بہت بڑا اور بہت دُور دراز تک پھیلا ہوا نظام سمجھتے ہیں، کَل کو اگر ہماری رفتاریں بڑھ گئیں، جو کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا لازمی نتیجہ ہوگا تو یہ نظامِ شمسی بہت چھوٹا اور ننھا منا سا ہوکر رہ جائےگا۔ یہ فاصلے جو اب بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں، سمٹ کر ہمارے آس پاس اور نزدیک نظر آنے لگیں گے۔

ٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی سے پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا نظامِ شمسی ہی کُل کائنات ہے۔ پھرہمارا وژن وسیع ہوا اور کائنات پھیل کر اربوں کہکشاؤں کی دنیا میں بدل گئی۔ لیکن ابھی بھی چونکہ ہماری رفتاریں روشنی کی رفتارکے مقابلے میں ایک فیصد تک بھی نہیں پہنچتیں اس لیے کائنات کے بارے میں ہمارا حساب کتاب سماواتِ خیال تک پھیلا ہوا ہے۔ کل کو جب ہم روشنی کی رفتاروں کے مختلف فیصدوں سے حرکت کرنے لگ جائیں گے تو نظامِ شمسی ہمیں اپنا گلی محلہ محسوس ہوگا اور ملکی وے کہکشاں گویا اپنا شہر۔ یعنی کائنات کے بارے میں ہمارا علم ہماری حرکت کرنے کی رفتاروں کے ساتھ بدلتارہےگا۔ کیونکہ اضافیت کے مطابق جب آپ تیز رفتاری کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں تو فاصلے سُکڑ جاتے اور وقت پھیل جاتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مختصر یہ کہ جن فاصلوں کو ہم ٹھوس اور مستقل طورپر موجود فاصلے سمجھتے ہیں، یہ ٹھوس اور مستقل طورپر موجود فاصلے نہیں ہیں۔ چاند ہم سے 384,400 کلومیٹر دُور نہیں ہے۔ اگر ہم اپنی موجودہ رفتار سے سفر کریں تو بلاشبہ چاند ہم سے 384,400 کلومیٹر دور ہے،لیکن اگر ہم کسی غیر معمولی تیز رفتار سے سفر کریں تو یہ فاصلہ کم ہے۔کیونکہ بقول اضافیت حرکت کرنے والوں کے لیے ایک میٹر، ایک میٹرجتنا لمبا نہیں ہے،بلکہ اس سے چھوٹا ہوتا ہے، اور ایک سیکنڈ ایک سیکنڈ جتنا لمبا نہیں بلکہ اسے زیادہ لمبا ہوتاہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply