قدیم ہندوستانی سماج / پروفیسر فضل تنہا غرشین

ہندستان کی سماجی تاریخ یورپ اور عرب دنیا سے نہ صرف کافی پرانی اور زرخیز رہی ہے بل کہ یورپ اور عرب کی سماجی ترقی بھی ہندستان کی مرہون منت ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر مسلمانوں کی آمد تک ہندستان سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشی لحاظ سے معاصر دنیا کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا تھا۔
سید سخی حسن نقوی اپنی کتاب ‘ہمارا قدیم سماج’ میں لکھتے ہیں کہ کائنات پہلے جمادات کی شکل میں تھی۔ جب جمادات میں نمو پیدا ہوئی تو نباتات پیدا ہوئے، نباتات میں جبلت پیدا ہوئی تو حیوانات پیدا ہوئے اور جب حیوانات میں شعور پیدا ہوا تو انسان وجود میں آیا۔ بعد ازاں انسانی تجسس و تخیل کی مدد سے لفظ، قلم، کاغذ اور علوم وجود میں آنے لگے۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے برعکس، ہندستان میں مختلف آب و ہوا، رنگ و نسل اور طرز معاشرت کے لوگ آباد رہے ہیں۔ تین اطراف سے گھرے سمندروں، خوب صورت شہروں، تہذیب و تمدن کے عظیم مراکز، ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں، پانچ دریائوں، گنگا جمنا کے دو آبوں، معدنیات سے بھرے پہاڑوں اور کشمیر کی روح پرور فضاٶں نے ہندستان کو جہاز رانی، بیرونی تجارت اور مذہبی، علمی، ادبی و فنی سرگرمیوں کا گہوارہ بنایا تھا۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ کو مسلم تاریخ نویسوں نے رقم کیا ہے۔ البیرونی کی کتاب ‘کتاب الہند’ اس حوالے سے ایک گراں قدر اضافہ ہے۔
ہندستان کی باقاعدہ تاریخ موریہ عہد کے ہڑپا اور موہن جوداڑو سے شروع ہوتی ہے، جو 3500ق.م تہذیب و تمدن کے حوالے سے عروج پر تھے۔ 3000ق.م سندھ اور پنجاب کے لوگ شہری زندگی گزارتے تھے۔ وہ چاردیواری، پکی اینٹیں، محافظ، مینارے، کشاد سڑکیں، نکاسی آب، گلی کوچے، نالیاں، کنویں، روشنی کے کھمبے، غسل خانے، حمام، دومنزلہ گھر، سیڑھیاں، تالاب، گیلریاں، محلات، کشتیاں، چکی، کھیت، مورتیاں، دھوتیاں، سونا، چاندی، قیمتی پتھر، انگوٹھیاں، بالیاں، کنگن، کڑے، کرسیاں، کلہاڑی، برچھا، کھلونے اور مہریں خوب جانتے تھے اور استعمال بھی کرتے تھے۔ اس تہذیب کا خاتمہ ممکنہ طور پر بیرونی آریا حملہ آوروں، آتش زدگیوں یا دیگر قدرتی آفات کے ذریعے ہوا ہوگا۔ البتہ اس قدیم تہذیب و تمدن کے اثرات ابھی تک اس جغرافیے پر نمایاں ہیں۔ کوٹلیا کی ارتھ شاستر اس امر کا ثبوت ہے کہ جمہوریت اور سیاست کا آغاز ہندستان ہی سے ہوا ہے۔
عہد موریہ میں اشوک کے زمانے میں چار فنی نمونے موجود تھے: استوپ، لاٹیں، غار اور فن تعمیر۔ استوپ اور لاٹیں سے مراد بت تراشی، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی ہے۔ 5ویں قبل مسیح کو نارد، بھرت، گالی اور ناتھ موسیقی کے اساتذہ ہوا کرتے تھے اور اسی طرح شلالی اور کرشاشو رقص کی تربیت دیا کرتے تھے۔ آشوگوش، بھاس اور کالی داس مشہور ڈراما نگار تھے۔ سا، رے، گا، ما، پا، دھانی اسی دور کی تخلیق ہے۔ تعلیمی اداروں کو گروکل، استاد کو گرو اور طالب علم کو انتی داسی کہا جاتا تھا۔
ٹیکشیلا اعلی تعلیم کا قدیم مرکز تھا جس میں 68 علوم سکھائے جاتے تھے۔ فیثاغورث نے ہندستانی فلسفہ یہیں سے سیکھا تھا۔ اسی طرح نالندا بھی ایک عظیم درس گاہ تھی جس میں 100 کمرے، 10 ہزار طلبہ اور پندر سو اساتذہ تھے۔ وکرم شلا 8ویں صدی عیسوی کی ایک عظیم درس گاہ تھی۔ ان تینوں اداروں میں ادب، مذہب، نحو، عروض، منطق، طب، فلسفہ، سپہ گری، ہیئت، حساب، سیاسیات، اقتصادیات اور جادوگری سکھائی جاتی تھی۔
کپل کے نزدیک کائنات کا وجود غیر مرئی فضائی توانائی کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب کہ اسی نظریے کو کپل سے بہت پہلے ویدک دور میں ایک برہمن عالم نے یوں پیش کیا تھا کہ یہ تمام کائنات پہلے پانی تھی۔ ایٹم کا تصور دی مقراطیس سے پہلے کناد نامی ایک بودھ فلسفی نے پیش کیا تھا۔ یہ بھی کناد نے کہا تھا کہ روشنی اور حرارت ایک ہی شے کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ 5ویں صدی عیسوی میں آریہ بھٹ نے زمین کے گول ہونے اور اپنے محور کے گرد گھومنے، سورج گرہن اور چاند گرہن کی عقلی توجیہہ پیش کی تھی۔ سیاروں، برجوں، ہفتے کے دنوں اور مہینوں کے نام بھی آریہ بھٹ نے سب سے پہلے رکھے تھے۔ پہلی جنتری بھی انھوں نے مرتب کی تھی۔ نیوٹن سے پہلے وراہ مہر نے کہا تھا کہ زمین اپنی جانب چیزیں کھینچ لیتی ہے۔ حمورابی سے پہلے منو یعنی منو سمرتی نے قوانین بنائے تھے۔ فیثاغورث کے مشہور کلیے کو 800ق.م بودھائن نے پہلے ہی عملی طور پر حل کیا تھا۔ الجبرا میں غیر معین مساوات اور پائی کا فارمولا سب سے پہلے آریہ بھٹ نے دیا تھا۔ صفر کا سب سے پہلے ہندستانیوں نے استعمال کیا تھا۔ قدیم ہندستانی اکائی سے مہاسنکھ تک گنتی جانتے تھے۔ ہندستانیوں سے عربوں نے اور پھر عربوں سے یورپیوں نے یہ علوم سیکھے۔ قدیم عرب 1 سے9 تک گنتی کچھ یوں لکھتے تھے:
عہ، عنا، عے، للعہ، صہ، ے، معہ، مے، لعہ عو۔
ان اعداد کے ذریعے جمع، منفی، ضرب اور تقسیم کا عمل ناممکن تھا۔ عرب حساب کو حسابِ غبار کہتے تھے۔
علم طب کی ابتدا بنیادی طور پر اتھرویدک دور سے ہوتی ہے۔ ویدک تہذیب علاج معالجوں، فن جراحی، جڑی بوٹیوں کے استعمال، دوا سازی، معدنیات اور دھاتوں کے استعمال سے واقف تھی۔ وہ قربانی، عبادات، روحانیت اور دیوتاؤں کے تصور سے بھی واقف تھے۔ عقیدہ توحید بعد میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ یہاں غالب ہونے لگا۔
قدیم ہندستانی سماج میں کنبے میں دادا سے پوتے تک سارے مل جل کر رہتے تھے۔ 2000ق.م میں ویدک دور میں عورتوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ غلام اور کنیز کا تصور تھا۔ شادیوں اور ستی کا رواج بھی تھا، مگر پردے کا رواج نہ تھا۔ جواہر لال نہرو کے مطابق: پردہ ہندستان نے مسلمانوں سے سیکھا۔ فنون لطیفہ اور امور سلطنت میں خواتین حصہ لیا کرتیں اور فوجی خدمات بھی سرانجام دیتیں، مگر حق وراثت سے محروم تھیں۔
ہندستان کا شام، مصر، چین اور عرب کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی تھے۔ تجارتی آمد و رفت اور معاشی خوش حالی سے طوائف الملوکیت اور جرائم بھی بڑھ گئے تھے۔ زراعت، کپڑے کی صنعت، بڑھئی کا پیشہ اور فوجی پیشہ بھی ہندستان میں عام تھا۔ ہندستانی معاشرہ کھشتری، برہمن، شودر اور ویش کی ذاتوں میں منقسم تھا۔ ہندستان کی دولت عرب اور یورپ میں ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔ ان کو عیش و عشرت اور تفریح سے بھرپور زندگی جینے کو میسر تھی۔ دولت کی فراوانی، برہمنوں کا اقتدار و علم و حکمت پر قبضہ اور آریائی تہذیبی اثرات کی وجہ سے ہندستانی حکمران اور عوام امور سلطنت سے بے خبر، ذات پات میں تقسیم اور باہمی تنازعات میں الجھے رہے۔ نتیجتاً، معاصر عرب اور یورپی دنیا کو دوبارہ ان پر حکومت کرنے کا موقع ملا۔ یوں یہ عظیم قدیم ہندستانی سماج ایک بار پھر تہذیبی و تمدنی شکست وریخت سے دوچار ہوگیا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply