پشتون اور بیانیوں کی جنگ/ماخام خٹک

ایمل خٹک سے کافی عرصے سے شناسائی ہے ۔ ان کی اپنی پہچان تو ہے ہی لیکن جن لوگوں کے ساتھ بڑی شخصیات کے نام جڑے ہوئے ہوں تو وہ بڑے ہوکر بھی بڑے نہیں دِکھتے یا پھر اپنی شناخت سے نہیں جانے جاتے اور ان کو ان بڑی شخصیات کے ناموں کے بغیر یاد کرنا بندے کو ان کی شخصیت میں کمی کا احساس دلاتا ہے ۔
ایمل خٹک مشہور سیاستدان ، ادیب شاعر ،صحافی اور دانشور اجمل خٹک کے فرزند ہیں ۔ایمل خٹک خود بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں، ایک اچھے صحافی ، لکھاری ، سیاست مدار اور سوشل ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہے ۔

آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں، گزشتہ دنوں پاکستان آئے تھے ۔ کئی ، سماجی ، سیاسی اور ادبی پروگراموں میں شرکت کی ۔ میری بدقسمتی تھی کہ نہ تو وہ اس دوران کراچی آئے اور نہ میں خیبر پختونخوا گیا کہ ان سے ملاقات ہوسکے ۔ لیکن یہ میری خوش قسمتی ضرور ہے کہ انھوں نے کینیڈا پہنچنے کے بعد مجھے اپنی تینوں حالیہ شائع شدہ کتابیں ای میل کردیں اور مجھے ان کتابوں کو پڑھنے کا موقع ملا ۔

ان کی تینوں کتابوں کی اگر صرف فہرست بھی میں آپ سے شیئر کروں تو نا  صرف میرے پورے  کالم کا  احاطہ کر لے گی ،بلکہ آپ بھی ان کی  تینوں کتابوں کے مندرجات تک  سے واقف ہو جائیں گے، یا پھر ان کتابوں کو پڑھنے کی خواہش ضرور کریں گے کیونکہ ان تینوں کتابوں  کے مضامین نا  صرف عصر حاضر کے بین الاقوامی ، علاقائی اور ملکی سیاست کے گرداگرد گھومتے ہیں بلکہ ان کا مکمل احاطہ بھی کرتے ہیں ۔ گو کہ ان کے بقول یہ مضامین انھوں نے کالم کی صورت میں لکھے ہیں اس میں کچھ اعداد ، حقائق ، واقعات کے وقت کے حساب سے کمی بیشہ یا افراط و تفریط کے محسوسات کا اندیشہ ہو سکتا  ہے لیکن نفس مضمون یا نقش مضمون کے ناک نقشے میں کوئی اجنبیت کا شائبہ نہیں ملے گا ۔ جیسے ان کی پہلی کتاب کا نام ہے ۔

پاکستانی ریاست ۔ عسکریت پسندی اور پشتون بیانیہ

اس کتاب پر پیش لفظ انھوں نے خود لکھا ہے
اور فہرست کچھ اس طرح سے ہے

علاقائی امن اور پشتون قوم کا بیانیہ
پشتون بیانیہ اور چند معروضات
عسکریت پسندی اور پشتون بیانیہ
تعلیمی  اداروں پر دہشت گردانہ حملے
ریاستی بیانئے اور دہشت زدہ قوم کا المیہ
جنرل شریف کے نام کھلا خط
سٹریٹجک ڈپتھ پالیسی
خڑ کمر کے آشکارا راز
جبری گمشدگی کا ایشو اور قومی ضمیر
قانون کی بالا دستی
اور مظلوم عوام کی دعا

اس کے بعد جو دوسری کتاب ہے اس کا ٹائٹل ہے”پشتون تحفظ موومنٹ اور ریاستی بیانیہ”۔

اس کتاب کاے پیش لفظ بھی ایمل خٹک نے خود تحریر کیا ہے ۔اور  فہرست کچھ یوں ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا پس منظر
پشتون تحفظ موومنٹ کا آغاز
عوامی تحریکوں کی حرکیات
پشتون تحفظ موومنٹ اور عدم برداشت
سکیورٹی سٹیٹ کا المیہ
پشتون تحفظ موومنٹ اور ریاستی رویہ
پشتون تحفظ موومنٹ اور سازشی تھیوری
پشتون تحفظ موومنٹ اور حدود کا تعین
پشتون تحفظ موومنٹ اور ریاستی حکمت عملی
پشتون بیداری ء تحریک ۔ حکمتِ  عملی کے چند نکات
پشتون تحفظ موومنٹ اور جرگہ
گمنام شہریوں کا نوحہ
قبائلی مشران اور نوجوان آمنے سامنے
صوبہ خیبر پختونخوا کا مقدمہ
پی ٹی ایم قدم بڑھاؤ قوم آپ کے ساتھ ہے

اور اس طرح ایمل خٹک کی جو تیسری کتاب ہے وہ بھی حالات ِ حاضرہ اور عصر حاضر  کا ایک بہترین مرقع ہے اس کا   پیش لفظ بھی انہوں نے خود لکھا ہے،  جس کا ٹائٹل ہے ۔

علما  ۔ مدارس اور مذہبی بیانئے

جس میں فہرست کے حساب سے

علما  ۔ مدارس اور دہشت گردوں کا مسئلہ
مدرسہ سازی کا عمل ۔ کچھ منفی رجحانات
جہادی بیانیہ اور پشتون
ملائیت بمقابلہ جدیدیت
مذہبی انتہا پسندی فساد اور انتشار
پاکستانی علما  ۔ تبدیلیاں اور رجحانات
مشال خان کیس اور علما  کا کردار
سلمان تاثیر کیس اور مذہبی طبقہ
ملا ملٹری الائنس
دہشت گردی اور ریاستی بیانیہ
ایکسکلوسیونس اور مذہبی انتہا پسندی
انسداد دہشت گردی کا نامکمل ایجنڈا
پاکستان میں مذہبی قوانین کی افادیت کامسئلہ ( حصّہ اوّل )
پاکستان میں مذہبی قوانین کی افادیت کا مسئلہ ( حصہ دوم ) مضامین شامل ہے ۔ جس میں پڑھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماخام خٹک پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور مختلف رسائل اور جرائد میں سیاسی اور قانونی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply