ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے/قمر رحیم خان

یہ مارچ2023 ء کی 30تاریخ ہے۔ موسم ابر آلود ہے اورہاتھ پاؤں 12ڈگری ٹمپریچر پر چل رہے ہیں۔الیکٹریشن زاہد کو احمقانہ ہدایات دینے کے ساتھ میں کھڑکی سے باہر کا نظارہ بھی کر رہا ہوں۔گھر کے صحن میں گھاس کاقالین بچھ چکا ہے۔ جس کے گول گول سفیدپھولوں سے میر ا بیٹا ہار پرو رہا ہے۔ خوبانی کے پھول جھڑ چکے ہیں۔پلمپ کے درخت کااوپر والا کچھ حصہ سفید پھولوں سے لدا ہوا ہے جبکہ باقی درخت پر پتے آچکے ہیں۔درخت کیا ہے ایک خاتون ہے جس نے سبز کپڑوں پر سفید دوپٹہ اوڑھ رکھا ہے۔آڑوکے درختوں پر گلابی پھولوں کی بہار اپنے جوبن پر ہے۔جنگلی ٹیولپ کی کلیاں جا بجا مسکرا رہی ہیں۔لال سرخ پھولوں کی چادر اوڑھے ایک پودا میرے والد ین کی پائنتی سے ذرا دور دیودار کے درخت کے نیچے دلہن کی طرح ایک طرف کو جھک کربیٹھا ہوا ہے۔ہَند کے چرخی نما پیلے ننھے پھول سرد ہوا سے ڈر کر زمین کے سینے سے چپکے ہوئے ہیں۔سرسوں کے پھول ہوا میں جھوم رہے ہیں۔ ہوا پھولوں کی پتیوں کو لیے اڑی جا رہی ہے۔ اس کی خوشبودل و دماغ ہی نہیں ، روح میں اترتی ہو ئی محسوس ہو رہی ہے۔
مینائیں پالتو مرغیوں کا دانا چُگ رہی ہیں۔ ‘‘گھر چڑیاں’’ پچھلے تیس سالوں میں اپنی اصل قدوقامت کے تین چوتھائی پر آگئی ہیں۔ایک چھوٹی چڑیا پچھلے دو گھنٹے سے کھڑکی کے شیشے پر ٹُک ٹُک ٹُک چونچیں مار رہی ہے۔ یہ ایک پاگل چڑیا ہے جو کئی دنوں سے پورا پورا دن یہی کام کررہی ہے۔ منّوں کے درختوں پر بیج اتر آئے ہیں۔ ان بیجوں کو کھانے کے لیے جنّت سے طوطے بھی آگئے ہیں۔ لال ، پیلا، نیلا، سبز، بھورا ، غرضیکہ دنیا بھر کے رنگ اپنے پروں پر سجائے یہ طوطے جب منّوں کے بیج کھا کھا کر بوجھل ہو جاتے ہیں تو میرے صحن پر اترتے ہیں۔میں جب انہیں دیکھتا ہوں توسوچتا ہوں طوطے کے پروں پر رنگوں کی اس حسین دنیا کو آباد کرنے والا اور اس دنیا کو حیلے بہانوں سے لاکر میرے سامنے کھڑا کرنے والا خودکس قدرخوبصورت، کس قدر مہربان، کتنا بڑاقدردان ہے۔
زاہد نے مجھے ہتھوڑی لانے نیچے بھیجا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کھڑکی کے نیچے پکے فرش پر ایک طوطا الٹا پڑا ہے۔ اس کی چونچ حد سے زیادہ کھلی ہوئی ہے اور اس سے خون جاری ہے۔ خون فرش پر پھیل کر جم گیا ہے۔طوطے کی آنکھیں بند ہیں اور وہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ میں اسے ہاتھ لگانے سے ڈر رہا تھا کہ کہیں میرے ہاتھ میں ہی نہ مر جائے۔ مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ جا رہی تھی اور نہ ہی اس کی کوئی مدد کرنے کی ہمت ہو رہی تھی۔میں نے زاہد کو آواز دی۔ اس نے آتے ہی اسے اٹھا لیا۔ خون اس کے منہ کے اندر بھی جما ہوا تھا۔زاہد نے پانی لانے کو کہا۔ ہم نے اس کی چونچ میں پانی چھوڑا، خون کے چند لوتھڑے اس کے منہ سے نکل کر گرے۔ اس نے کچھ پانی پیا۔ تب ہم نے اسے بلی سے چھپا کر ایک گملے میں رکھ دیا جہاں وہ لیٹ گیا۔اس کی بری طرح سے کھلی ہوئی چونچ آہستہ آہستہ بند ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ شکر گزارنظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا مگر کچھ بول نہ پاتاتھا۔
یہ عام طوطوں سے تین چار گنا بڑا تھا۔ اس کی چونچ دو ڈھائی انچ لمبی ،کالے اور پیلے رنگ کی تھی۔چونچ کی جڑ یعنی ماتھے اور آدھے سرکے پر کالے تھے۔
آدھے سر اور موٹی گردن پر نیلا رنگ چمک رہا تھا۔گردن کے اختتام پر سفید رنگ کی گانی تھی۔ گانی کے بعد بھورا رنگ شروع ہوتا تھاجو آدھی کمر کو گھیرے ہوئے تھا۔اس کے بعدسبزرنگ کے سارے شیڈ تھے جن میں کالا ، سفید اور بھورا رنگ بھی جھانک رہا تھا۔ اب وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اور اس کی چونچ بھی بند ہو گئی تھی۔اس نے آخری بار میری طرف دیکھا اور پھڑپھڑاتا ہو ا منّوں کے درختوں کی طرف اڑ گیا۔
منّوں کے درختوں کے اس پار پیر پنجال رینج ہے۔ اور پیر پنجال کے اس پارسری نگر شہر ہے۔ شہر میں آدھے گھنٹے کے لیے کرفیو کا وقفہ ہے۔دکانوں پر خریداروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر کسی کو اپنی ضرورت کا سامان جلد از جلد چاہیے ۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ فیضان ایک 18سالہ نوجوان ہے۔ جسے سامان لیتے لیتے کرفیو کا وقفہ ختم ہو گیا۔ وہ تیزی سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔وسیم اپنی کھڑکی میں کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور فیضان کے سر سے پار ہو گئی۔ وہ گولی لگنے کے بعد بھی دو قدم چلا اور پھر گر گیا۔ وسیم بھاگتا ہوا نیچے اترا ۔ اس نے فیضان کا سر اٹھا کر گود میں رکھنا چاہا تو اس کے دماغ سے وسیم کے ہاتھ بھر گئے۔ ساتھ ہی خون کا پرنالہ بہنے لگا۔
آج جب میں نے زخمی طوطے کو دیکھا تو مجھے لگا میرے سامنے زخمی طوطا نہیں فیضان کی لاش پڑی ہے۔ ایسی ایک لاکھ سے زائد لاشوں پر تجارت اور کشمیری قوم سے غداری کرنے والے کرداروں کو تاریخ کن الفاظ میں یاد کرے گی؟
آزاد کشمیر کی حالیہ حکومت کے چند اقدامات ایسے ہیں جو موجودہ تقسیم کو مستقل کرنے اور آزاد کشمیر کے موجودہ سٹیٹس کو تحلیل کرنے کی طرف واضح پیش رفت ہے۔ ان میں سندھ ہاؤس کے قیام کے لیے زمین کی الا ٹمنٹ، پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں کے دائرہ اختیارکی آزاد کشمیر تک توسیع،آزاد کشمیر حکومت کو تیرہویں ترمیم کے ذریعے حاصل ہونے والے مالیاتی اختیارات سے دستبرداری،سیز فائر لائن پر کوریڈور کے قیام کی قرارداد  وغیر ہ شامل ہیں۔ بی جے پی حکومت کا ریاست جموں کشمیر کی طرف Religious tourismکو فروغ دینے کا ایک بھیانک منصوبہ ہے۔ جس کے تحت وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کشمیر دراصل ہندوؤں کا ملک تھا۔ جسے مسلمان حکمرانوں نے مسلم اکثریت میں تبدیل کیا۔ اس آڑ میں وہ ریاست میں مسلم غیر مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی مہم کو اخلاقی جواز مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دراصل کشمیر میں اسرائیلی ماڈل پر کام کر رہے ہیں ۔ جبکہ ہمارے حکمران اس عمل میں ان کی معاونت کر رہے ہیں۔ہمارا مطالبہ بس سروس کی بحالی اور کشمیریوں کی آزادانہ نقل و حمل ہونا چاہیے۔ لیکن آزاد کشمیر اسمبلی امیت شاہ کی تجویز پر کوریڈورکی تجویز پاس کررہی ہے۔ کیا ہمارے ممبران اسمبلی ان پڑھ اور گنوار لوگ ہیں؟ ایسا تو نہیں ہے۔ تو پھر کیا یہ نشے میں تھے؟ اگر ایسا بھی نہیں ہے تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا لوگوں کا کہنا درست نہیں کہ ان کی اکثریت کرائے کے ان ٹٹوؤں کی ہے جو کئی دہائیوں سے استعمال ہو رہے ہیں؟ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے۔
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلّو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply