وفا کی دیوی ہار گئی۔۔عثمان گُل

کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن الفاظ نہیں مل رہے کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم۔

یہ سچی کہانی ہے اس لڑکی کی جس کی گود میں میں بڑا ہوا۔ چھوٹے سے عثمان کو جو پہلی دفعہ میری پھوپھی زاد بہن نے گود میں اٹھایا تو ساری زندگی پڑوس کے سارے گھروں میں مجھے گود میں لیے اس وقت تک پھرتی رہی کہ جب میرا وزن اور اٹھانے کے قابل اس منحنی سی لڑکی کے لیے ممکن نہ  رہا ۔۔۔ وہ بہن بھائی کا رشتہ جس کو میں چاہ کر بھی بیان نہ  کر سکوں آج تک قائم ہے۔

آٹھویں میں پڑھتی لڑکی کی خاندان والوں نے اس کے ماموں کے بیٹے کے ساتھ بات پکی کر دی تو دل کے خانے میں اپنے ہونے والے خاوند کو بسائے جانے کب اسے پردیس رخصت ہوتے دیکھتی رہی۔ پردیس اور ڈالر کا شوق تھا یا بہنوں کی شادیاں اور گھر کی سپورٹ۔۔۔ لڑکا ( میرا تایا زاد) 20 سال امریکہ میں مقیم رہا۔

برسوں بعد پہلی دفعہ واپس  آنے پر دونوں گھرانوں اور خاندان والوں نے شادی کی تاریخ فکس کر دی۔ شادی کے بعد 15، 16 سال میں خاوند صرف دو دفعہ پاکستان آیا۔

اتنا عرصہ دور رہنے اور واپس نہ  آنے پر اپنی سگی ماں، 7 بھائی اور سارا خاندان ایک طرف اور لڑکی دوسری طرف کھڑی رہی۔ سب نے طلاق یا خلع کے لیے اپنا پورا زور لگا لیا لیکن مجال ہے جو شکوہ زبان پر لائی ہو۔ زیادہ تنگ کرنے پر اپنی ماں اور بھائیوں کے گھر تک آنا جانا نہ  ہونے کے برابر   رہ  گیا۔

دور پار کے کچھ امریکہ میں سیٹل رشتہ داروں نے دوسری شادی اور اس سے بچوں تک کی اطلاع دی لیکن صرف فون کالز پر خاوند سے رشتہ نبھاتی لڑکی نے کسی کا یقین نہ  کیا۔ کوئی ایک لمحہ پورے خاندان میں کسی کو یاد  نہ  ہو گا کہ اس نے خاوند کو کہیں کمتر ہونے دیا ہو۔

لیکن اللہ کو ابھی اور امتحان منظور تھا۔ اکیلے رہتے پورا گھر سنبھالتے جانے کب جسم نے بغاوت کر دی۔ جوڑوں کے درد نے جوان لڑکی کو اٹھنے بیٹھنے سے لاچار کیا تب  بھی شکوہ تو دور ماتھے پر شکن  بھی  کسی کو نظر نہ آئی۔

زمینوں کے کچھ  مسائل  جاگنے پر  بڑوں میں لڑائی ہوگئی، اس دوران بھی جب بیٹھک میں میرے والد، دونوں پھوپھیاں اور تایا بحث کر رہے تھے میری بہن سخت سردی میں باورچی خانے میں بیٹھی مجھے دیسی گھی میں چپڑی روٹیاں سالن کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کھلاتی رہی کہ تم کھاؤ، ان بڑوں کی لڑائی میں ہم بہن بھائیوں کا کیا کام۔

میں نے انچ انچ زمین پر چچا تائیوں کے بچوں کو  ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے دیکھا لیکن اللہ کا شکر ہے بڑوں کی لڑائی میں ہم کزنز کبھی نہیں لڑے، بلکہ الٹا بڑوں پر ہنستے کہ کیسے لڑتے ہیں۔

میرے چھوٹے ہوتے مجھے یاد ہے تایا زاد بھائی کے سگے بہن بھائی ہمیں کہتے وہ تو بہت غصہ ور  ہیں۔ لیکن جب بھائی واپس آیا تو خود سے بیس سال چھوٹے بھائی سے جس عزت سے بات کرتا تھا، اتنے دھیمے مزاج کا سادہ بندہ تھا، مجھے شرم آجاتی تھی کہ بڑا یہ ہے یا میں۔

میں نے اس شخص کی بیوی، میری بہن سے زیادہ ہنستی مسکراتی مضبوط لڑکی نہیں  دیکھی کبھی زندگی میں۔ لیکن وہ ہنستی مسکراتی لڑکی خاوند کی راہ تکتے تھک گئی تھی یا جانے اکیلے میں اپنے خدا کے آگے کتنا روتی تھی کہ اللہ نے اسکے رونے کو ہی روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایسی بیماری نے آ لیا جو شاید  ہی کسی نے سنی بھی ہو۔ آنکھوں نے آنسو پیدا کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹروں نے آنسو پیدا کرنے والے غدودوں کو قصور وار کہا اور آئی ڈراپس دیکر رخصت کر دیا۔ اب رونا تو دور آنکھوں کو تر رکھنے کے لیے بھی ہر تھوڑی دیر بعد آئی ڈراپس ڈالنے پڑ گئے۔

خدا خدا کر کے شادی کے 16، 17 سال بعد خاوند جب گھر آیا تو نہ  دوسری بیوی تھی نہ  بچے۔ لیکن پاکستان میں بھی نہ  اُسکے بھیجے ڈالر بچے تھے نہ  بیوی کی جوانی اور نہ  اولاد تھی۔ تھے تو ماں باپ، بہن بھائی اور انتظار کرتی بیوی۔ بہرحال زندگی دوبارہ سے شروع کی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود دونوں کی شکلوں پر ساتھ ہونے کی خوشی سارا خاندان دیکھ سکتا تھا۔

زندگی کی اونچ نیچ بنا اولاد کے بھی جیسے تیسے گزر ہی رہی تھی کہ کچھ دن پہلے خاوند کی طبیعت خراب ہونے پر  ڈاکٹر کے کہنے پر ہسپتال لیجانا پڑا۔ وہاں سے کینسر کے شبے  میں شوکت خانم ریفر ہوا۔ ٹیسٹ کے انتظار میں بیٹھے فالج کا حملہ ہوا اور بندہ بے ہوش۔ کینسر کے ٹیسٹ کے لیے مطلوبہ حالت نہ  ہونے پر دو ہفتوں تک فالج کا علاج چلتا رہا۔

کینسر سپیشلسٹ سے مل کر جب میں نے تفصیل سے بات کی تو بتایا گیا کہ ایم آر آئی، سی ٹی سکین رپورٹس کینسر کا پتا دے رہی ہیں لیکن بائیوپسی رپورٹس انڈروسکوپی کے بغیر ممکن نہ  تھی۔ اور بندے کی حالت اس قابل نہ  تھی کہ وہ ہو سکے۔ دو ہفتے کے علاج کے دوران میرے ملنے پر کزن جو مشکل سے کسی کو پہچان بھی پا رہا تھا، میرا ہاتھ پکڑ کر اشارہ کر کے کہنے لگا، مجھے کیا ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق معدے کا کینسر بہت جلدی پھیلتا ہے اور جب تک علامات ظاہر ہوتی ہیں، آخری سٹیج  پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ کینسر میرے بھائی کے معدے سے جگر اور پھیپھڑوں تک میں سرایت کر چکا تھا۔ بچنے کا چانس صرف تین فیصد تھا۔ خون کا ایچ بی صرف 4.5 تھا۔ خون لگایا گیا کہ بندے  میں کچھ جان آئے اور باقی کا علاج کیا جا سکے۔ لیکن 3 فیصد بچنے کے چانس کا میں اپنی بہن کو کیسے بتاتا؟

میرا خدا ہی جانتا ہے جس دل سے مسکراتے ہوئے اپنی بہن کو میں نے یہ کہا کہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے علاج ہو جائے گا۔

میرے جیسا جوان بندہ جب ہسپتال میں کھڑا یا بینچ پر بیٹھا تھک جاتا تھا، جوڑوں کے درد میں مبتلا، ہفتہ پہلے موتیے کا آپریشن کرائی ہوئی میری بہن اسی لاغر حالت میں کہنے کے باوجود صبح اٹھ سے رات 1، 2 بجے تک خاوند کے بستر کے پاس سے نہ  ہلتی۔ اپنے کانپتے ہاتھوں سے خوراک کی نالی سے خوراک دیتی، منہ صاف کرتی، کپڑے صحیح کرتی، کروٹ دلواتی۔

کہتے ہیں شمع بجھنے سے پہلے ایک دفعہ زور سے بھڑکتی ہے۔ تین دن پہلے حالت اس قابل ہو گئی کہ جیسے فالج کنٹرول ہو گیا ہو۔ ڈاکٹروں نے گھر بھیج دیا کہ پیر کو کینسر کا علاج شروع کر دیں گے۔ گھر آکر غسل کروایا، بھائی نے بیٹھ کر آرام سے غسل کیا۔ اسی شام سانس خراب ہونے پر ہسپتال لیکر گئے۔

اطلاع ملنے پر میں لاہور میں ہی تھا، بھاگا بھاگا گھر پہنچا بھی نہیں تھا کہ کزن نے بھائی کی وفات کی اطلاع دے دی۔ اللہ نے اپنی امانت واپس لے لی، بھائی جانبر نہ  ہو سکا۔

گھر پہنچنے پر جو قیامت میں نے ٹوٹتے دیکھی۔ میری بہن سکتے میں تھی۔ عورتیں ہلا ہلا کر کہہ رہی تھیں کہ رو۔ میری بہن جو اب تک نہ  روئی تھی، مجھ سے گلے  لگ کر روئی۔

کیا آپ نے کبھی سوچا بھی ہے کہ آپ کسی صدمے پر رونا چاہیں اور آپ کی آنکھیں آنسو بہانے سے انکار کر دیں۔ آپ کی آنکھیں مکمل خشک ہوں اور آپ چاہ کر بھی دل کا غبار آنسوؤں میں بہا نا سکیں۔ میں نے اپنی بہن کو اسی تکلیف میں دیکھا۔

میں نے زندگی میں وفا نبھاتی کوئی عورت دیکھی تو میری یہ پھوپھی زاد بہن دیکھی۔
اپنے بھائی کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیتے، لحد میں اتارتے انسان کی وہ بے بسی دیکھی جب ایک جوان میت بنا، اپنے غسل تک کے لیے دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ میں نے انسان کی بے بسی اسکے جوان بھائی میں دیکھی جب میں میت لیکر آیا تو وہ رو رو کر بے ہوش ہو گیا اور ہم دو بندوں کو اسکو اٹھا کر بیٹھک میں لیجانا پڑا۔ میں نے انسان کی بے بسی اپنی بہن میں دیکھی جو سکتے سے جب باہر آتی تو چیخیں مار کر روتے ہوئے مجھے ( کچھ دن پہلے کسی شادی کے لیے) اپنے مہندی لگے ہاتھ دکھا کر کہتے دیکھی کہ بھائی دیکھو میں لٹ گئی میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہا۔

اس سے آگے میرا بھی ضبط ٹوٹ گیا۔ میں اپنی اس بہن کے آگے نہیں رونا چاہتا تھا جس نے مجھے ماں کی طرح پالا اور پیار کیا۔ میں آٹھ آیا وہاں سے۔ اور خاندان والے مجھے بلا بلا کر لیجاتے رہے کہ تم کچھ کھلا دو تمہارے ہاتھ سےکھا لیں گی۔

جنازہ اٹھنے لگا تو خاندان کی ایک بزرگ خاتون نے جنازہ صحن میں ہی روک کر جو کہا شاید  ہمارے معاشرے اور ماؤں کے پھٹے دلوں میں چھپے الفاظ تھے۔بزرگ خاتون نے کہا:

اور بھیجو ہمارے بچوں کو امریکہ جاپان۔ دیکھ لو سارے کتنے ڈالر لیجا رہا ہمارا بیٹا قبر میں۔ کس لالچ میں بھیجتے ہو ہمارے بچوں کو پردیس۔ پتا بھی ہے ماؤں، بیویوں، بچوں پر کیا بیتتی ہے۔ لعنت ہو تم لوگوں کے ڈالروں پر۔ ۔۔۔

اس کے بعد صرف آنسو تھے، لحد تھی اور قبر کی مٹی کی خوشبو۔

ہو سکے تو اپنے قیمتی وقت سے دو منٹ نکال کر میرے بھائی کی اگلی منزلیں آسان ہونے کی دعا کر دیجئے گا۔ شکر گزار ہوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ آپ سب کو اور آپ کے اپنوں کو کسی بھی ناگہانی آفت، بیماری اور تکلیف سے بچائے۔آمین!

Facebook Comments

عثمان گل
پیشے کے لحاظ سے اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply