جم کیری – معرفت کا مسافر۔۔۔۔۔۔ عظیم الرحمن عثمانی

ہالی وڈ کے شہرہ آفاق مزاحیہ اداکار “جم کیری” سے کون واقف نہیں؟ اگر ہالی وڈ کی تاریخ کے صف اول کے چند اداکاروں کو نکالا جائے تو بلاشبہ ان میں جم کیری کا نام سرفہرست ہوگا. اپنے منفرد کرداروں اور اچھوتے انداز سے اس اداکار نے دنیا بھر کے ناظرین کے دلوں پر ایک زمانہ راج کیا ہے. جو شہرت و مقبولیت “جم” کو ملی وہ بہت ہی کم اداکاروں کے ہاتھ آتی ہے. “جم کیری” ان چند بڑے اداکاروں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ وہ فلمی کردار کو نبھانے سے قبل خود پر مکمل طاری کرلیتے ہیں. یہاں تک کہ اس کردار کو جینے لگتے ہیں. بالی وڈ کے اداکار “عامر خان” بھی ان ہی چند میں شامل ہیں. “جم کیری” نے جو کردار نبھایا اسے امر کردیا. پھر وہ ‘ماسک’ ہو یا ‘ایس وینچرا’ .. ‘لائر لائیر’ ہو یا پھر ‘بروس آل مائٹی’ – ہر فلم ایک شاہکار کہلائی. لیکن “جم کیری” فقط ایک اداکار نہیں ہیں. وہ ہمیشہ سے ایک نہایت حساس طبیعت اور سوچنے والا دماغ رکھتے ہیں. زندگی کی نوعیت کیا ہے؟ انسانی نفسیات کیسے کام کرتی ہے؟ سائنس ہمارے دماغ کو کیسے بیان کرتی ہے؟ خدا کا حقیقی تصور کیا ہے؟ .. یہ اور اس طرح کے کئی اور سوالات “جم کیری” کی سوچ کا اس وقت بھی محور رہے جب وہ تیزی سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک کامیاب نوجوان تھے. اس کا ثبوت ان کے پرانے انٹرویوز کی صورت میں موجود ہے. البتہ پچھلے چند سالوں میں تو جیسے “جم کیری” کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا ہو. انہوں نے روحانیت، خدائی تصور اور انسانی وجود سے متعلق اپنے وہ نتائج پرزور انداز میں بیان کرنے شروع کردیئے ہیں. جنہیں سن کر ان کے دنیا بھر میں پھیلے مداحوں میں سے کچھ حیران، کچھ معتقد اور ایک بڑی تعداد انہیں پاگل سٹیایا ہوا قرار دے رہی ہے.
.
“جم کیری” پر سب سے پہلا انکشاف یہ ہوا کہ انسانی دماغ میں ابھرتی سوچیں ایک سراب کے سوا کچھ نہیں. جو کچھ ہے وہ اسی لمحہ موجود میں ہے. مستقبل تو فقط ایک نتیجہ ہے اور ماضی محض ایک روداد. اگر کچھ ہے تو وہ ابھی ہے، حال میں، لمحہ موجود میں. انہیں نیند سے بیداری میں وہ روحانی تجربہ ہوا جس میں انہوں نے اپنی ذات کو ان جسمانی اور نظریاتی حدود سے بہت بلند محسوس کیا. اسی طرح مختلف فلمی کردار نبھاتے ہوئے کئی بار وہ اپنا آپ ہی بھلا بیٹھے اور اسی کردار میں ضم ہو گئے. یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں نے حیرت سے اپنے آپ میں پوچھا کہ ارے “جم کیری”کہاں گیا؟ جواب ملا کون “جم کیری”؟ وہ تو کبھی تھا ہی نہیں ! وہ تو بس ایک کردار تھا جیسے یہ ایک کردار ہے. جیسے ویڈیو گیم میں آپ کسی ایک کردار کو اپنے لئے پسند کرلیتے ہیں. “جم کیری” کے اس کردار میں اور بقیہ نبھائے فلمی کرداروں میں فرق صرف اتنا تھا کہ “جم کیری” کا کردار انہوں نے خود نہیں اپنایا تھا، کسی نے دے رکھا تھا اور جسے وہ دھوکے میں اپنا اصل وجود مان بیٹھے تھے. ورنہ ان کی حقیقت تو ایک بہت بڑے “کل” کا “جزو” ہے. یہ ساری کائنات دراصل “ایک” ہے اور ہم سب اسی “ایک” کا حصہ ہیں. گویا ہم ہی کائنات ہیں. یہ بھرم ہے کہ ہم اس دنیا کا مشاہدہ کررہے ہیں، حقیقت میں تو ہم ہی دنیا ہیں. بقول اقبال:
.
مکانی ہوں؟ یا آزادِ مکاں ہوں؟
جہاں میں ہوں؟ یا خود سارا جہاں ہوں؟
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست !
مجھے اتنا بتادیں، “میں” کہاں ہوں؟
.
ابتدا میں “جم کیری” کیلئے یہ دریافت ہولناک تھی کہ ان کی اصلیت “جم کیری” نہیں ہے. سالہا سال کی محنت جو انہوں نے اپنے اس کردار کو اپنا اصل سمجھ کر کی تھی، وہ سب مٹی میں ملتی محسوس ہونے لگی. لیکن آخرکار انہوں نے حقیقت کو تسلیم کرلیا. “جم کیری” کے نزدیک اداس ہونا ایک کیفیت ہے مگر “ڈپریشن” دراصل آپ کی ذات کی چیخ و پکار ہے کہ اب میں یہ کردار نہیں نبھانا چاہتا. آج وہ خود کو ایک مسلسل سرشاری کی کیفیت میں پاتے ہیں. یہ احساس مسحور کن ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں “سب” ہیں، ساری کائنات ہیں. وہ اس تجربے سے ہر لمحہ گزر رہے ہیں. ان سے کوئی پوچھے کہ کیا میں “جم کیری” سے مخاطب ہوں؟ تو وہ دوٹوک کہتے ہیں کہ نہیں ! بلکہ آپ “جم کیری” نامی ایک کردار سے مخاطب ہیں. ورنہ ٹھیک اسی وقت وہ انٹرویو لینے والے بھی ہیں، کونے میں بیٹھے وہ آدمی بھی ہیں، دور جھاڑو لگاتا وہ شخص بھی ہیں. درحقیقت ہم سب ایک اجتماعی شعور کا حصہ ہیں. واقعات جو باہر رونما ہوتے ہیں وہ دراصل پہلے ہمارے شعور میں وجود پاتے ہیں. گویا دنیا ہم ہی بناتے ہیں. “جم کیری” کے بقول خدا یہی آفاقی انرجی ہے جو ہر شے پر محیط ہے اور جس سے ہم سب وابستہ ہیں. گو ہم سب میں سے بہت تھوڑے ہیں جو اس وابستگی کا شعور رکھتے ہیں. “جم کیری” حقیقت کو پاچکے ہیں؟ یا ابھی معرفت کے سفر میں ہیں؟ اس پر ہم فی الوقت تبصرہ نہیں کریں گے. گو ان کے نتائج جان کر بے اختیار تصوف کے نمائندہ عقائد “وحدت الوجود” اور “وحدت الشہود” یاد آجاتے ہیں. یوں لگتا ہے کہ “جم کیری” کے تجربات کسی حد تک ان ہی عقائد کی تفسیر بیان کرہے ہیں.
.
راقم یعنی ہماری سمجھ اور تجربات میں موجودات کی کثرت میں ایک پوشیدہ وحدت ضرور پنہاں ہے، مگر یہ وحدت ذات کی نہیں بلکہ کلمہ ‘کن فیکون’ کی تفسیر ہے. سائنس بھی البرٹ آئین اسٹائن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک ‘تھیوری آف ایوری تھنگ’ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے جو اپنی اصل میں اسی ‘کن فیکون’ کی کھوج ہے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply