اس پارے میں سورہ ھود کی آیت 6 سے اختتام تک ہے اور سورہ یوسف کی ابتدائی 52 آیات ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ ھود کے بارے میں فرمایا مجھے ھود اور اس جیسی دوسری سورتوں نے بوڑھا کر دیا۔ کیونکہ اس سورت میں کثرت سے پچھلے انبیاء کی قوموں اور ان کے اوپر آئے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس پارے کا آغاز اللہ کی قدرت کی نشانیوں کے ذکر سے ہوا۔ اللہ کی صفت رزاقیت اور علم کامل کا ذکر ہوا، پھر صفت تخلیق کا ذکر کیا گیا۔ اللہ تعالی نے یہ کائنات چھ دن میں پیدا کی، اس نے سب انسانوں اور حیوانوں کی تقدیر لکھ رکھی ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔ تخلیق آدم کا مقصد آزمائش ہے۔
اس کے بعد کفار کے باطل خیالات کا انکار کیا گیا اور عذاب سے ڈرایا گیا۔ بتایا گیا کہ انسان زیادہ تر نا شکرے اور متکبر ہوتے ہیں۔ اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو صبر کرتے ہیں اور تکلیف میں بھی شکر کرتے ہیں۔ نبی کریم کو تسلی دی گئی، گو کہ آپ کے پاس مادی وسائل نہیں ہیں لیکن اللہ نے جو مقام آپ کو دیا ہے اس پر نظر رکھیں، ان کی باتوں سے افسردہ مت ہوں۔
اس سورت میں اللہ تعالی نے منکرین کو چیلنج کیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن پیغمبر کا بنایا ہوا ہے تو تم بھی ایک بنا لو، جس سے مدد لینا چاہو لے لو۔ پھر قرآن کا انکار کرنے والوں کا دردناک انجام بھی بتا دیا گیا۔ واضح کر دیا گیا کہ جو دنیا کی زینت چاہتا ہے اسے دنیا دے دی جاتی ہے، ایسے لوگوں کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ریا کاروں کا انجام بتایا گیا ہے۔ ان لوگوں نے چونکہ سب نیک عمل دکھاوے کے لیے کیے تھے اس لیے اس کا صلہ بھی دنیاوی تعریف کی صورت میں دنیا میں ہی دے دیا گیا۔ اب آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور دین میں من گھڑت باتیں شامل کرتے ہیں ان کا بھی دردناک انجام ہوگا۔ ان کو دوگنا عذاب ہوگا، خود گمراہ ہونے کا اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ نیک صالح عمل کرنے والوں اور خشیتِ الہٰی سے گڑگڑا نے والوں کے لیے ہی جنت ہے۔ ان دونوں فریقوں کے حالات مثالوں سے بھی سمجھائے گئے ہیں۔
اس کے بعد تفصیل سے انبیاء علیہ السلام کے قصے بیان کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر کیا گیا۔ یہ اپنی سرکشی کے سبب طوفان کے ذریعے ہلاک کیے گئے۔ نوح علیہ السلام کے قصے میں صبر کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ اس کے بعد ان کی قوم کے اوپر عذاب نازل ہوا۔ پھر ھود علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر کیا گیا کہ انہوں نے بھی حق کو نہ سنا، اپنی قوت کے زعم میں رہے چنانچہ اللہ کے آگے بےحقیقت ہوگئے۔ قوم عاد کے بعد قوم ثمود کی سرکشی کا ذکر ہے۔ وہ بھی بالآخر عذاب سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا۔ جب فرشتے ان کے گھر آئے تو انہوں نے کس طرح ان کی مہمان نوازی کی۔ فرشتوں نے ان کو بڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری سنائی۔ بڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری سے ثابت ہوا کہ اللہ کو اسباب کی ضرورت نہیں۔ اس کے احکام اور کاموں میں تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ ابراہیم علیہ السلام کا حلم، اللہ کے سامنے ان کا گڑگڑانا اور اس کی طرف رجوع کرنا قابل تقلید خوبیاں ہیں۔ اس کے بعد قوم لوط کی فحاشی اور کھلی بے حیائی کا ذکر ہے۔ یہ قوم بھی اپنی بدکرداری اور بداخلاقی کی بدولت برباد ہوگئی۔ ان کے واقعے سے یہ ثابت ہوا کہ جو اپنی نفسانی خواہشات کا غلام بن جائے اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور حق فائدہ نہیں دیتا۔ پھر شعیب علیہ السلام کے مدین کی طرف بھیجے جانے کا ذکر ہے۔ ان کی قوم کی خرابی یہ تھی کہ وہ حق کے انکار کے ساتھ ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے۔ اسی عمل کے سبب عذاب کا شکار ہوئے۔ شعیب علیہ السلام کی قوم بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنی قوم کو عبادات اور بزنس میں فیئر ڈیلنگ کا حکم دیا۔ تجارت میں ناحق نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ انصاف کے ساتھ لین دین مطلوب ہے۔ آخر میں حضرت موسیٰ کے فرعون کے دربار میں توحید کا پیغام پہنچانے کا ذکر ہے۔
انبیاء علیہ السلام کے ان واقعات میں بہت سی نصیحتیں پوشیدہ ہیں۔ تمام انبیاء کی اقوام نے ان کے پیغام سے زیادہ ان کے سوشل اسٹیٹس اور مال و دولت پر نظر کی، اور اس بنا پہ تکبر کیا کہ ان کا ساتھ غریب لوگ دیتے ہیں۔ نبی ہمیشہ اپنی قوم کا خیر خواہ ہوتا ہے اس لیے اجر وصلہ کی تمنا نہیں کرتا۔ ہر نبی نے اپنی قوم سے یہی کہا کہ میرا اجر اللہ کے پاس ہے۔ میں تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا۔ ہر نبی نے یہ بھی واضح کیا کہ میرا مقصد دنیا یا اس کا فائدہ حاصل کرنا نہیں ہے۔ یہی مقصد ہر داعی دین کا بھی ہونا چاہیے۔ دین کا کام کرنے والوں کو ظاہریت پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ دین کے راستوں میں ملنے والی اذیتوں پر صبر کرنا چاہیے، ثابت قدم رہنا چاہیے۔ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ دنیاوی اسباب کتنے بھی مضبوط ہوں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتے۔ اصل رشتہ ایمان کا رشتہ ہے۔ حسب نسب عذاب سے بچانے میں مددگار نہیں ہوں گے۔ ایمان ہی نجات کا سبب ہے۔ انبیاء کی سفارش ایمان کے بعد کام آئے گی۔ نیک اعمال کے باوجود نجات اللہ کی رحمت سے ہوتی ہے۔ بہت سی چیزوں میں فیصلہ نیت پر ہوتا ہے۔ اگر عملاً برائی کا ساتھ نہ بھی دیں لیکن قلبی یا قولا ً ساتھ دیں تو بھی انجام میں حصّہ دار بنیں گے۔ توبہ برکت اور نعمت کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ توفیق ہمیشہ اللہ سے مانگنی چاہیے۔
ان واقعات کے ذریعہ سے نبی کریم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ جیسے ان کا مشکل وقت گزر گیا تھا آپ کا بھی گزر جائے گا، صبر سے کام لیں۔ان کو بیان کرنے کا مقصد آپ کا دل مضبوط کرنا اور ایمان والوں کو یاد دہانی کرانا ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کیا کہ دنیا میں جو جس کی پیروی کرے گا قیامت کے دن اسی کے پیچھے چلے گا، اور اسی کے جیسے انجام سے دوچار ہو گا۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ قیامت کا دن بہت ہولناک ہوگا۔ اس دن جو بھی ہوگا سب کی موجودگی میں اور سب کے سامنے ہوگا۔ اس دن پکڑ بہت سخت ہو گی۔ بدبخت اس دن جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ خوش نصیب لوگ جنت میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
نبی کریم اور مومنین کو ثابت قدمی کا حکم ہوا۔ یعنی دین کی راہ میں ثابت قدم رہو۔ ہدایت کی گئی کہ ظالموں کی طرف بالکل میلان نہیں رکھنا چاہیے۔ نماز قائم کرنے کا حکم ہوا جو کہ اللہ کے ذکر کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ بار بار صبر کی تلقین کی گئی۔ نیز بتایا گیا کہ ہر قوم میں ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو برائی سے روکیں۔
اللہ کسی بستی کو کبھی ناحق ہلاک نہیں کرتا۔ اختلاف ایک قدرتی عمل ہے لیکن اس کو مخالفت کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔
سورۃ کے آخر میں اعلان کر دیا کہ اللہ سب ظاہر باطن جانتا ہے۔ لہذا عبادت کا حقدار وہی ہے۔ اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
*سورۃ یوسف:*
اس سورۃ کا آغاز قرآن کریم کی تعریف سے ہوا۔ بتایا گیا کہ عربی ہی اتنی وسیع زبان تھی جو اس قرآن کے لامتناہی معانی اور مطالب کا بوجھ اٹھا سکے۔ پوری سورۃ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا۔ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام یوسف علیہ السلام کے اس واقعے سے واقف نہیں تھے۔ یہود نے آپ کا امتحان لینے کے لئے آپ سے اس واقعے کے بارے میں سوال کیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے بذریعہ وحی آپ کو یہ واقعہ بتایا اور اس کو احسن القصص قرار دیا۔
اس پارے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصہ ان کے خواب دیکھنے سے شروع ہوتا ہے جو وہ اپنے والد کو سناتے ہیں۔ پھر ان کے بھائی حسد کی بِنا پر ان کو کنوئیں میں ڈال دیتے ہیں جہاں سے وہ مصر لے جاکر بیچ دیے جاتے ہیں۔ عزیز مصر کی بیوی ان کو بدکاری کی دعوت دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ جیل چلے جاتے ہیں جہاں اپنا دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھتے ہیں۔ پھر مصر کا بادشاہ ایک خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر سیدنا یوسف کے جیل سے نکلنے کی وجہ بنتی ہے۔
یوسف علیہ السلام کا جتنا واقعہ اس پارے میں بیان ہوا اس سے جو سیکھنے کی باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ نعمت کو اس وقت تک چھپانا چاہیے جب تک وہ خود ظاہر نہ ہو جائے۔ جب ظاہر ہوجائے تو بیان کرو اور اللہ کا شکر کرو۔ حاسد کے شر سے بچنے کے لئے نعمت کو چھپانا لازم ہے۔ نعمت کے اخفاء اور اظہار میں مصلحت سے کام لیا جائے گا۔ کسی کو دوسرے کے شر سے خبردار کرنا ہو تو محتاط رویہ اپنائیں، اور زیادہ غیبت سے گریز کریں۔
غم اور دکھ میں اللہ سے مدد لیں۔ اپنی تکلیف پر صبر کرنا اور مصیبت کا بار بار ذکر نہ کرنا صبرجمیل کہلاتا ہے۔ اولاد کی تربیت میں صبر کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ آزمائشیں انسان کو پختہ کرتی ہیں۔ اخلاص کی وجہ سے انسان شیطان کے قابو میں آنے سے بچ جاتا ہے۔ اللہ اپنے مخلص بندوں کی ہر حال میں حفاظت کرتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے گناہ کے مقابلے میں آزمائش اور سختی کو ترجیح دیں دی جو کہ قابل تقلید ہے۔ وعظ اور نصیحت مختصر ہونا چاہیے لمبی لمبی ہدایات اور نصیحتیں اثر کھو دیتی ہیں۔ خیانت کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں