سب و شتم اہانت گستاخی اور ہمارا طرزعمل

خالق کائنات کی وحدانیت کا پیغام اور بنی نوع انسان کی فلاح اور ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے بے شمار پیغمبر اس جہاں میں مبعوث فرمائے۔اللہ تعالی کا پیغام جس کا مقصد انسانیت کی ہدایت اور فلاح ہے۔اس خوبصورت پیغام کے ساتھ خدا کی وحدانیت اورحقانیت کا بیان کرنے کے لیے جب جب پیغمبران خدا کا ظہور ہوا۔تب تب پیغمبران خدا کو خالق کائنات کی مخلوق کی جانب سے مزاحمت ،مخالفت اور اہانت اور ان گنت صعوبتوں کا سامنا رہا۔اللہ تعالی کے پیغام کو انسانوں پر واضح کرنے کے اس عمل میں پیغمبران خدا کو قدم قدم پر سب و شتم اور اہانت آمیز رویوں کا سامنا رہا۔اس ضمن میں حضرت موسی علیہالسلام کی زندگی ملاحظہ کر لی جائے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بن باپ کے حضرت مریم کے بطن سے پیدا فرمایا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کی ودیعت کردہ صلاحیتوں سے بے شمار معجزات برپا کرتے تھے۔حضرت عیسیٰ مردوں کو زندہ کر دینے کی صلاحیتوں سے مالامال تھے مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچانے کے کام کا آغاز کیا تو گمراہی میں مبتلا لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حد درجہ اہانت آمیز رویوں کا مظاہرہ کیا۔نعوذبااللہ مقدس ترین حضرت مریم کی عصمت و حرمت کا خیال نہ کیا اور ان پر انتہائی توہین آمیز الزامات لگائے کہ کیسے بن باپ کے تخلیق کا عمل ممکن ہو سکتا ہے،مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور آسمانی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی نے دست قدرت کے موجود ہونے کے باوجود خدا کے دین کی دعوت دینے کے لیے قدم قدم پر صعوبتوں کا سامنا کرنے کے باوجود ان گمراہ لوگوں کو نیست و نابود نہیں کیا بلکہ خدا کا پیغام صبرو تحمل سے سر انجام دیتے رہے۔
اللہ تعالی نے سب سے آخر میں اپنے پیغام کو انسانیت تک پہنچانے کے لیے پیغمبر آخر الزمان نبی رحمت تاجدار دو جہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔اللہ تعالی نے خاتم النبیعین کے ذریعے نبوت کے سلسلے کو مو قوف کر دیا اور قیامت تک کے لیے پیغمبر انسانیت کی تعلیمات اور قرآن کریم کو رہنمائی کا ذریعہ بنا دیا۔بطور مسلمان ہمارے لیے قرآن کریم اور نبی رحمت کی سیرت زندگی کے ہر لمحہ کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔موجودہ دور میں وقفے وقفے سے پیغمبر انسانیت اور اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کو نشانہ پر رکھ کراہانت سب و شتم اور گستاخی کی جا رہی ہے۔جس کی وجہ سے مسلمان شدید حالت اضطراب میں مبتلا ہیں اور دنیا میں موجود مسلمان شدید ترین صدمے سے دوچار رہتے ہیں ۔مگر چونکہ بطور مسلمان ہم سب کے لیے حضور اکرمﷺ کی سیرت زندگی کے ہر لمحہ کے لیے کامل ترین نمونہ ہے ۔اس لیے ہمیں نبی رحمتﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہی راہنمائی لینی چاہیے ۔جیسا کہ آغاز میں عرض کیا کہ سب و شتم اہانت گستاخی کا سامنا تمام پیغمبران خدا کو رہا۔بعین ہی نبی رحمت حضرت محمد مصطفے ﷺ کو اعلان نبوت کے بعد کفار کی جانب سے شدید ترین گستاخی، مزاحمت، مخالفت اور اہانت آمیز رویوں اور ان گنت قلبی اور جسمانی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔
قدیم دور میں عرب میں شعراء کو وہی اہمیت حاصل تھی جو آج کے دور میں صحافت کو حاصل ہے۔آج کل ابلاغ کے ذرائع میں صحافت کو بنیادی مقام حاصل ہے۔جب پیغمبر انسانیت نے نبوت کا اعلان فرمایا اور اللہ تعالی کا ازلی و ابدی پیغام کفار مکہ کے سامنے پیش کیا تو وہ لوگ نبی پاکﷺ کو تکالیف دینے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔عرب شعراء کعبہ بن زہیر عبداللہ بن الزبعری،ہبیرہ بن ابی وہب یہ تینوں نبی رحمتﷺ کی شان اقدس میں شدید ترین گستاخی کے مرتکب رہے۔اپنی شاعری میں شان رسالت میں لغو کلام کا استعمال کرتے رہے ۔8 ہجری میں مکہ فتح ہوا ہبیرہ بن ابی وہب حالت کفر میں طبعی موت مر گیا جبکہ کعبہ بن زہیر فرار ہو گیا ،بعد میں اپنے بھائی کی ترغیب پر مدینہ منورہ میں نبی پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انصار مدینہ میں سے ایک صحابہ نے عرض کی کہ اسے میرے حوالے کریں تاکہ اس کی گردن تن سے جدا کر دوں،مگر نبی اکرم نے ان کو خاموش کراویا اور کعب بن زہیر کی ہدایت کی دعا کی۔بعد میں یہی کعب بن زہیر نبی رحمت کا مدح خواں بنا اور نبی کریم کا ثناء خواں بن کر حضور کی شان بیان کرنے لگا۔قبول اسلام کے بعد شان رسالت میں قصیدے لکھے ۔بحوالہ۔(سیرت ابن ہشام جز رابع صفحہ 152 -166)۔
عبداللہ بن الزبعری نے بھی حضور کی شان اقدس میں شدید ترین گستاخی کی مگر بعد حضرت حسان بن ثابت کے تنبیہی اشعار کی بدولت اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور اسلام قبول کیا اور ثناء خواں مصطفی بن کر مدحت بیان کی۔بحوالہ(سیرت ابن ہشام جز رابع صفحہ 39-40)عبداللہ بن ابی مدینہ میں ایک معروف منافق تھا جس نے اسلام قبول کرنے کے باوجود رسالت مآب کی شان اقدس پر بے ہودہ الزام لگائے ،اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا ۔غزوہ احد کےموقع پرتین سو ساتھیوں کے ساتھ الگ ہو کر نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ کے رسول اجازت دیں اس کو قتل کر دوں،مگر حضورﷺ نے فرمایا، لوگ چرچا کریں گےکہ محمد اپنے ساتھیوں کوقتل کر دیتے ہیں ۔حوالہ (سیرت ابن کثیر جلدثالث صفحہ 687۔سیرت ابن ہشام جز ثالث صفحہ 8 )مندرجہ بلا واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرم نے اپنی زندگی میں طاقت و اختیارکےباوجود گستاخی، اہانت اور اذیت دینے والوں کے قتل کا حکم نہیں دیا۔داعی بن کر دلیل سے رد کیا ۔اسلام کے بارے میں بدگمانی پیدا نہ ہو اس وجہ سے عبداللہ بن ابی جیسے منافق کو بھی سزا نہیں دی۔جو کفار قتل ہوئے وہ جنگوں کے دوران قتل ہوئے۔
موجودہ زمانے میں غلام احمد قادیانی نے حضرت مسیح علیہ اسلام کی شان میں صریح گستاخی کی، نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کو ماننے سےانکار کیا۔کبھی مہدی ،کبھی مسیح موعود اور کبھی نبوت کا دعویٰ کیا، مگر عطاء اللہ شاہ بخاری اور علامہ انورشاہ ۔علامہ اقبال سمیت بے شمار علماء نے قادیانی کے قتل کا حکم نہیں دیا۔عطاء اللہ شاہ بخاری ساری زندگی دلیل کی بنیاد پر اس کا محاصرہ کرتے رہے،جبکہ ہمارا طرزعمل اس کے برعکس آج محض الزام کی بنیاد پر ہم قتل کر کے لاشوں کا مثلہ کرتے ہیں ۔نہ دلیل نہ عدالت نہ قانون ،خود ہی جذباتیت کا شکار ہو کر دینی تعلیمات کے برعکس طرزعمل اختیار کرتے ہیں ۔سلمان رشدی تسلیمہ نسرین کے گستاخانہ مواد کی تشہیر کا باعث بھی ہمارا یہی جذباتیت پر مبنی طرزعمل بنتاہے۔اہانت پر مبنی مواد کی تشہیر بذات خود گستاخی کے زمرے میں آتی ہے۔مقدس ترین ہستیوں کی عظمت بذات خود ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے،جو کہ ان لعین بونوں کی غلیظ بھونکنے کی صلاحیت سے ہر گز متاثر نہیں ہوتی۔
نوٹ ۔مضمون کی تیاری میں مولانا وحید الدین خان کی کتاب شتم رسول سے استفادہ حاصل کیا گیا۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply