برقعے میں ریاست کی لاش/محمد وقاص رشید

یہ سوات کا ایک بازار ہے۔ ایک عورت ہے ساتھ میں ایک بچہ ہے۔ بچہ ماں کی انگلی پکڑے اچھل اچھل کر بازار جا رہا ہے۔ عورت نے ٹوپی والا برقعہ پہن رکھا ہے یہ یہاں عورت کا پردہ ہے۔

 

 

 

 

یہ عورت خاوند کی بد سلوکی سے تنگ آ کر اپنے بچے کو گھروں میں کام کر کے پالنے کا عزم کر چکی ہے۔ یہ خاوند سے خلع لینا چاہتی ہے۔

شاید اس نے بچے کو کوئی کھلونا دلوانے کا وعدہ کر رکھا ہو جس کے آج پیسے بنے تو عورت بچے کو لے کر بازار میں آ گئی۔

بچے کی آنکھوں میں کھلونا ہے اسے اپنی ماں اس وقت خدا جیسی لگ رہی ہے۔ جیسے کُل کائنات کی مالک ہو۔

کھلونے کی دکان قریب ہے۔ اچانک ماں برقعے کے باریک سوراخوں سے کسی کو دیکھتی ہے۔ کوئی اسکی طرف بڑھتا ہے۔ برقعے کے اندر گھٹن کے ساتھ خوف بھی سانس بند کرنے لگتا ہے۔

بچہ ماں سے کہتا ہے ماں۔۔کھلونا ؟ کیا ہوا ہم واپس کیوں جا رہے ہیں۔۔ کیوں ڈر رہی ہے۔۔۔تو میرا خدا ہے خدا کسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔خدا سے سب ڈرتے ہیں۔

اتنے میں گولی چلتی ہے۔ گولی کی آواز سے بچہ ڈر جاتا ہے۔ وہ پیچھے دیکھتا ہے۔ پیچھے وہ شخص ہوتا ہے جو اسکے دنیا میں آنے کا باعث تھا۔ دور پرے بھاگتا اسکا باپ۔

بچے کی کُل کائنات دھڑام سے زمین پہ آ گری۔ چند لمحوں پہلے ماں کے ہاتھ کی وہ حرارت جو بچے کے وجود کی شرارت بن رہی تھی۔ اب وہ ماں برف کی سِل بننے لگی۔ اسکے وجود کی یخ بستگی بچے کے لیے عمر بھر برف کی سِل بننے کا پیام تھی۔

برقعے سے خون برآمد ہوا سڑک پر پھیلنے لگا۔ کوئی بچہ اس عمر میں اپنی ماں کا سڑک پر پھیلتا خون دیکھنے پر مجبور ہو، اسکی ممتا کو آخری بار نزع کی ہچکیوں کی صورت محسوس کرے۔ وہ خون کہ جس سے اس معصوم نے زندگی پائی تھی آج موت کا پیام بن کر خاک نشیں ہوا۔

بچہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ ماں ،مجھے چھوڑ کر مت جا ماں۔ میں نے کھلونا مانگا تھا ۔ اب نہیں مانگوں گا۔ میں تجھ سے ہی کھیل لوں گا ۔ مگر میں تیری لاش سے نہیں کھیل سکتا۔ کوئی بچاؤ میری ماں کو۔ میرے خدا میری ماں کو بچا لے۔ مجھے ماں تیرے جیسی لگ رہی تھی۔۔۔ غلطی ہو گئی۔ خدا ۔۔بچا لے میری ماں کو۔

بچے کی ماں مر گئی۔ بچے کی کائنات کھو گئی۔ ایک بار پھر آدم سے اسکی جنت جدا ہوگئی۔

ماں کا مر کر بھی  پردہ نہیں ہٹا۔ باپ کا جیتے جی ہٹ گیا۔ باپ کیا پوری کائنات بے پرد ہ ہو گئی۔ اسکی ماں کے مرنے  کے بعد یہ برقع  اسکے کسی کام کا نہیں اس سے اس سر زمین پر بچی کھچی انسانیت اپنا ننگ چھپا سکتی ہے۔

لعنت ، ملامت ، مذمت ، یہ سب الفاظ اس ناپاک درندے کے لیے ناکافی ہیں کہ جس کے سینے میں موجود پتھر ایک پل کے لیے یہ تصویر بناتے وقت نہ دھڑکا جسے دیکھ کر نہ جانے کتنی آنکھیں ریزہ ریزہ ہو کر دلوں میں جا پیوست ہوئیں۔ اس سفاک بھیڑیے نے ساتھ ہی یہ بھی آشکار کر دیا کہ وہ بے چاری اس زمانے کی مشقت و دقت برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئی لیکن اس بھیانک وحشی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

عورت کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ خلع لینے کے فیصلہ کرے۔ اس طرح کا برقع  ڈال کر اسکی سانسوں کے ساتھ سوچ کو بھی بند کیا گیا تھا اسکی یہ جرات کہ مرضی سے سوچے اور سانس لے۔ لے پھر سوچ بھی چھین لی اور ننھے معصوم کے سامنے سانس بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

برقعے میں ایک ماں نہیں ایک عورت نہیں بلکہ فرسودہ روایات ، ظالمانہ صنفی برتری اور فکری گھٹن کے برقعے میں ملبوس ایک ریاست ہے اور یہ بچہ یہ ملت۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply