دسو فیر کریے کی۔۔راجہ عرفان صادق

کرونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی حکومت نے اپنے اپنے طور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اقدام اٹھائے۔ حکومتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو کسی نے سراہا تو کسی نے ان اقدامات کو لے کر حکومتی ذمہ داران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ وفاق اور صوبوں کی حکومتوں پر عوام کے اعتماد اور تنقید کے تیر اپنی جگہ ،میں یہاں صرف آزادکشمیر حکومت کی طرف سے کرونا وائرس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر عوام کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کا ہی ذکر کروں گا۔

پاکستان میں کرونا وائرس کےآثار نمودار ہونے کے بعد حکومتی سطح پر سب سے پہلے انتہائی اقدام اٹھانے والوں میں صوبہ سندھ کے بعد آزادکشمیر حکومت کا پہلا نمبر تھا۔ 13مارچ کو حکومت آزادکشمیر نے ہنگامی بینادوں پر کاروائی کرتے ہوئے سب سے پہلے آزادکشمیر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے آزادکشمیر بھر کے نہ صرف تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے احکامات صادر فرمائے ،وہیں پر آزادکشمیر بھر میں جاری جماعت دہم کے بورڈ کے امتحانات سمیت تمام یونیورسٹیز کے امتحانات کو بھی منسوخ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی مشینری کو متحرک کرتے ہوئے ریاست کے مختلف محکموں اور مختلف تنظیموں کی مدد سے آزادکشمیر بھر میں کرونا سے بچاؤ  کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کردیا گیا۔ آزادکشمیر حکومت نے اسی پر اکتفا نہ کیا اور 21مارچ کو اگلے دو روزیعنی 22 اور23 مارچ کو آزمائشی بنیادوں پرلاک ڈاؤن کا اعلان بھی کردیا۔

اس حوالے سےبنیادی نوعیت کی اشیائے ضروریہ فروخت کرنے والے کاروبار کے علاوہ باقی تمام کاروبار کو بند کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔ 23 مارچ کو اس لاک ڈاؤن کو مزید 3 ہفتوں کے لیے توسیع دے دی گئی اور اس کو مزید موثر بنانے کے لیے افواج پاکستان سے بھی مدد طلب کرلی گئی۔ آزادکشمیر میں لاک ڈاؤن کو ہوئے اب ایک ہفتہ مکمل ہوگیا ہے۔ حکومت و انتظامیہ نے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے تاہم عوام کی طرف سے اس لاک ڈاؤن کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا جتنا اس کو لیا جانا چاہیے تھا۔ بازاروں اور گلی محلوں میں رش کو دیکھ کر کسی بھی طرح لاک ڈاؤن کا گمان نہیں ہوتا۔ انتظامیہ اور پولیس لاک ڈاؤن پر عملدرآمدکروانے کے لیےاگرچہ عوام کے ساتھ نرم رویہ رکھے ہوئے ہے تاہم کسی جگہ پر انہیں سخت لہجہ بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اس طرح بار بار منع کرنے کے باوجود جب عوام کی طرف سے مثبت رویہ سامنے نہیں آتا تو پولیس کی طرف سے سختی بھی برتنا پڑتی ہے تاہم اس سختی کو پھر عوام منفی انداز میں لے کر سوشل میڈیا پر ہمارے لیے اپنی زندگیاں داؤ  پر لگاکر دن رات ایک کرنے والی انتظامیہ اور پولیس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ کسی کی طرف سے فرمائش آتی ہے کہ راشن لینے جانا ہے، کوئی پٹرول لینے کی بات کرتاہے، کہیں سے ادویات کی خریداری کی بات ہوتی ہے، کسی کو بچوں کا دودھ لانا ہوتا ہے اور کسی کو گائے بھینس ، بکری اور گدھوں کے لیے چارے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔کسی کو ایزی لوڈ کی فکر ہے اور کسی کو لوڈر رکشہ کی ضرورت، کسی نے صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں اور کسی نے دیگر معاملات نمٹانے ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی ضرورت کے تحت مطالبہ کررہا ہے کہ انتظامیہ کو اس چیز کو لاک ڈاون سے استثنیٰ دے دینا چاہیے اور ہرکوئی کسی نہ کسی چیز کو لاک ڈاؤن کی پابندیوں سے آزاد کروانے کا خواہشمند ہے۔

اگر ساری عوام کی خواہشات کا احترام کرلیا جائے تو پیچھے لاک ڈاؤن  کے لیے دکان تو کوئی نہیں بچے گی، صرف حکومتی نوٹیفکیشنز ہی باقی بچیں گے۔ گھروں میں رہنے کے لیے عوام پر سے پابندیاں ختم ہوجائینگی اور گھروں میں رہنے کے لیے صرف عمر رسیدہ اور معذور افراد ہی بچیں گے۔ اوپر بیان کی گئی ساری چیزیں اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن یہ چیزیں اسی وقت کارآمد ہونگی جب تک ہم صحت مند ہیں کیونکہ “جان ہے تو جہاں ہے”۔ عوام اپنی اپنی سہولت کے لیے اپنی فرمائشیں بتا رہی ہے تو کیا ہی بھلا ہو کہ وہ حکومت کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو بھی بتا دے کہ وہ وائرس سے بچنے اور شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کرے۔ تنقید برائے تنقید تو ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری یہ تنقید برائے اصلاح ہو۔ انتظامیہ کی غفلت ، پولیس کی لاپروہی اور اداروں کی سستی ان پر تنقید پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی شاید ہوتی رہے گی لیکن یہ وقت تنقید کا نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ریاست کے جو وسائل اور اس طرح کی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم جتنے تیار تھے یہ اس سے بڑا امتحان ہے لیکن ان حالات میں بھی ہمارے اداروں نے جس انداز میں کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس پر ہمیں ان کی کاوشوں کو نہ صرف سراہنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرکے ان کے اس فریضہ میں ان کا ہاتھ بھی بٹانا چاہیے۔ تنقید تو ہم فوراً  کردیتے ہیں لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا کہ مختلف ناکوں پر کھڑے یہ فوج، پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار جو پتہ نہیں کس کس علاقہ سے آکر ہماری جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں کہ دن میں ان کو کھانا بھی ملتا ہے یا نہیں، ان کے پینے کے لیے پانی بھی میسر ہے یا کہ نہیں۔ دن بھر ہر آنے جانے والے کے پاس جا کر اس کوحفاظتی تدابیر بتانے والے خود کتنے محفوظ رہ پارہے ہیں۔ اس لیے میرے عزیز ہموطنو ان لوگوں کی قدر کرو اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے حفاظتی اقدام پر عمل پیراہوکر خود بھی محفوظ رہو اور اپنے ارد گرد ، عزیز و اقربا اور گھر والوں کو بھی اس موذی بیماری سے محفوظ بناؤ۔ (اوپر بیان کیے گئے عوامی مسائل جو اپنی جگہ مسلمہ ہیں ان کے حل کے لیے انشاء اللہ اگلی تحریر میں تجاویز پیش کرونگا) اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply