تسبیح اور کُُل عشقِ الہٰی/عامر کاکازئی

تسبیح کو ہندی میں مالا یا سمرن کہا جاتا ہے جبکہ عربی میں تسبیح کا لفظ مَسْبَحہ یا سُبْحَہ سے نکلا ہے۔ جبکہ انگلش میں rosary کہا جاتا ہے۔ یہ چند دانوں پر مشتمل مالا ہوتی ہے جو ایک دھاگے میں پروئے ہوتے ہیں،

 

 

 

 

تاکہ رب کے ذکر کو گنتی کے سہارے یاد کیا جائے۔ آج کل ڈیجیٹل تسبیح بھی  آچکی ہے۔ جبکہ موبائل پر تسبیح کی ایپ بھی مل جاتی ہے۔

تاریخ:
تسبیح کا مآخذ براعظم ایشیاء سے ملتا ہے۔ تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پرانے زمانہ کے لوگ اسے عبادت کرنے، گنتی کرنے اور دنوں کو شمار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ چینی دھاگے پر مختلف گرہ لگا کر تسبیح کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ افریقہ میں خواتین دھاگے پر گرہیں لگا کر اپنے حمل کے دنوں کا حساب رکھتی تھی۔ دوسرے ممالک مثلاً ہندوستان، روم، یونان اور مصر کی سوسائٹیز میں رسومات اور خوشی والے جشن کو یاد رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ معاشرے جادو اور تعویز کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ خواتین اسے اپنے بناؤ سنگھار اور زیور کے طور پر بھی استعمال کرتی تھیں۔

تسبیح صرف دینی اور مذہبی مقصد تک کب محدود ہوئی،یہ تاریخ سے پتہ نہیں چلتا۔ لیکن شاید ارتقائی عمل کے تحت مالا کا مقصد مذہب تک محدود ہو کر رہ گیا۔

مذاہب اور تسبیح

بہت سارے مذاہب ، جن میں ہندو، زرتشت، یہودی، عیسائی اور مسلمان شامل ہیں ، رب کے ذکر کی گنتی کے لیے تسبیح استعمال کرتے ہیں۔

سب سے پرانی تاریخ ہمیں ہندوؤں میں ملتی ہے۔ ہندوؤں کے  تحریری ادبی آئین میں برہمنوں کا عبادت کرتے وقت تسبیح کے استعمال کا ذکر ہے۔ ہندو تسبیح کو جپا مالا کہتے ہیں۔ جپا کا مطلب بھگوان کے نام اور منترا کو بار بار پڑھنا۔ ان کی مالا میں دانوں کی تعداد 108 ہوتی ہے۔

بدھا دھرما میں ہر بدھسٹ کے ہاتھ میں تسبیح کا ہونا لازم ہے۔ ان کی تسبیح میں بھی 108 دانے ہوتے ہیں۔ یہ دانے دنیاوی جذبات اور خواہشات کی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جو انسانوں کو مصائب اور تناسخ کے چکر میں پھنساتے پیں۔

یہودیوں کے ہاں تسبیح کے 32 یا 99 دانے ہوتے ہیں جسے عید فسح یا عید فطیر کے تہوار کے دن ہاتھ میں لیتے ہیں۔

کرسچن کے اکثر گروہوں اور فرقوں میں تسبیح ذکر پڑھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر پروٹسٹنٹ، تسبیح کو مذہبی کام میں استعمال کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔

ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ عبادت کو نمبروں میں قید کر دینا غلط ہے۔ اللہ کی عبادت بغیر کسی لالچ و  خوف  کرنی چاہیے۔ اپنے رب سے محبت کریں ناکہ اسے نمبروں میں قید کریں۔ دن میں اگر پانچ دفعہ پانچ پانچ منٹ کے لیے ہی صرف اللہ کے لیے عبادت بغیر کسی لالچ یا خوف کے کر لی تو یہ بہت ہے بنسبت پورا دن لاکھ لاکھ بار پڑھنے کے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے تسبیح سیڑھی کا کام دیتی ہے۔ اگر آپ عبادت کرنے کے لیے کسی چیز یا  آلہ یا سیڑھی کے محتاج ہیں تو سوچیے کہ آپ کے اندر اللہ کے پیار میں کمی ہے۔ کیونکہ اللہ سے محبت زماں و مقام سے آزاد ہے۔

آج کل محفلوں میں لوگ موبائل پر گیم کھیل رہے ہوتے ہیں یا تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ارے بابا محفل کے کچھ  آداب ہوتے ہیں کم از کم ان  آدابِ محفل کو تو فالو کرو ورنہ گھر میں بیٹھ کر عبادت کرو یا موبائل پر گیم کھیلو۔ آجکل کے دور میں ہر وقت ہاتھ میں تسبیح لے کر پھرنا صرف اور صرف ریاکاری کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

جناب مطیع اللہ خان مجاہد صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں کہ “ خانقاہی نظام عیسائیت سے اسلام میں داخل ہوا ۔پہلے پہل ان خانقاہوں میں احسان اور تزکیہ نفس کی تربیت دی جاتی تھی۔عرصہ گزرنے کے بعد ہر خانقاہ نے اپنے مروجہ وضائف و  اوراد  ایجاد کرلیے اور پھر سلسلہ طریقیت وغیرہ کی بہت سی نئی اصطلاحات نے اسے ایک نیا دین بنا دیا ہے۔”

ان خانقاہوں کے پیروں کا مذہب اسلام میں وضائف پڑھنے میں تسبیح کو ایک مذہبی ٹول کے طور پر داخل کروانے میں بہت بڑا کردار ہے۔

چلتے چلتے جناب سبوخ سید صاحب کے قلم سے  لکھی مولانہ رومی کی ایک روایت پڑھ لیجیے۔

‏مولانا رومیؒ بازار سے گزر رہے تھے کہ دیکھا ،ایک کریانے کی دکان پر دکاندار ایک گاہک عورت کو دیوانہ وار دیکھے جا رہا تھا اور جو چیز وہ مانگے اسے پیکٹ میں بند کر کے ایک طرف رکھتا جائے۔
‏عورت جو کہتی تھی وہ دکاندار کسی غلام کی طرح عمل کرتا۔ جب خاتون کی چیزیں مکمل ہو گئیں تو بولی آج کے لیے اتنا ہی کافی، اس سے پوچھا کہ کتنا حساب ہوا؟ دکاندار نے جواب دیا “زبیدہ عشق میں حساب نہیں ہوتا” اچھا تو چلو پھر چلتے ہیں، اُس خاتون کے یہ کہنے پر دکاندار نے سارا سامان اٹھایا اور بغیر پیسے لیے اس عورت کے پیچھے چل پڑا۔

‏مولانا صاحب نے حیرانگی سے یہ سارا منظر دیکھا، تجسس کے تحت دکان دار کے انتظار میں بیٹھ گئے کہ دیکھیں یہ کیا ماجرہ ہے؟ دکاندار کی واپسی پر اس سے پوچھا کہ بغیر ناپ تول اور پیسوں کے اس عورت کو مال کیوں دیا؟

‏دکاندار نے جواباً کہا کہ “ میں زبیدہ سے محبت کرتا ہوں اور عاشقی میں کون حساب کتاب کرتا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

‏دکاندار کی یہ بات سن کر مولانا صاحب نے اسے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ “تم نے آج مجھے محبت کے اصل معانی بتاۓ کہ عشق کیا ہوتا ہے، تم ایک عورت کے عشق میں حساب کتاب نہیں کرتے اور میں اللہ کی عبادت تسبیح پر گن گن کر کرتا ہوں، نفل بھی گن کر پڑھتا ہوں اور ساتھ میں خدا سے عشق کا دعوٰی بھی کرتا ہوں۔ “تم ایک سچے اور میں ایک جھوٹا عاشق ہوں۔”

‏مولانا صاحب نے بعد میں لکھا کہ اللہ کی عبادت بے حساب کرو۔ جب اللہ تعالی ہمیں نعمتیں دیتے وقت حساب نہیں کرتا تو ہم اس کی عبادت کرتے وقت کیوں حساب رکھتے ہیں؟ ہر دم اللہ کا شکر ادا کرو اور حساب کتاب کے بغیر کرو۔اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا۔
یہ ہے کُل عشقِ الہٰی ۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply