کینیڈا کے نزدیک شہر اول ین/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

Advertisements
julia rana solicitors london

سب راستے نیویارک سے نکلتے تھے۔ برکت عباس جعفری نے فون پر مجھے اس ٹاؤن کا نام بتا دیا تھا جہاں وہ مقیم تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہاں پہنچنے کے لیے مرکزی سٹیشن سے فلاں شہر کے لیے چلنے والی مقامی گاڑی لوں اور بتائے ہوئے سٹیشن پر اتر کر فون بوتھ سے اسے فون کر لوں تو وہ دس منٹ بعد مجھے لینے پہنچ جائے گا۔ میں نے جعفری کی ہدایات پر عمل کیا تھا۔ دن کے تقریبا” دو بجے اس سٹیشن پر اترا تھا جس پر اترنے کو جعفری نے کہا تھا۔ فون کیا تھا اور جعفری دس منٹ سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔ چھوٹے قد اور انتہائی پر مزاح طبیعت کا حامل ڈاکٹر جعفری گاڑی سے اتر کر گلے گلے لگا تھا، قد میں تو ظاہر ہے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہونی تھی البتہ اب اس کے چہرے پر خشخشی داڑھی تھی جس سے اس کے گال پر پرانے پھوڑے کے زخم کا نشان چھپ گیا تھا، مزید یہ کہ جعفری اب یکسر سنجیدہ ہو گیا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ جی سی لاہور میں پڑھنے والا وہ کھلنڈرا لڑکا یاد آ رہا تھا، جو جی سی کی مین عمارت کی سڑک کے اس پار، پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے عقب میں واقع جی سی کلاس رومز کے آخر میں واقع سائیکالوجی کی بڑی جماعتوں کی لڑکیوں کو شیشوں میں سے تاڑنے کی خاطر مجھے زبردستی کھینچ کر ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ شیشوں میں سے جھانکتے ہوئے جعفری کو بعض اوقات کوئی لڑکی دیکھ کر کہہ دیا کرتی تھی،”جاؤ بیٹا جاؤ، ابھی تم کم عمر ہو” جعفری قہقہہ لگا کر ہنس دیا کرتا تھا اور میں اس پر برس پڑتا تھا،” کروا دی نہ بے عزتی” جس پر جعفری ہنستے ہوئے جواب دیا کرتا ، “توجہ تو حاصل کر ہی لی ناں”۔
جی سی کے بعد جعفری کے ای میڈیکل کالج میں داخل ہو گیا تھا جبکہ مجھے نشتر میڈیکل کالج ملتان میں تعلیم جاری رکھنی پڑی تھی۔ سال میں کبھی ایک بار جب میں لاہور آتا تھا تو کے ای کے ہوسٹل میں جعفری کے کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ اس کے شب و روز اسی طرح ہوتے۔ پڑھائی کم کرنا اور ہنسوڑ پن پر کمر کسے رکھنا۔
جعفری نے گاڑی اپنے پرائیویٹ کلینک پر جا کر کے روکی تھی۔ کلینک کے اندر کئی کمرے تھے اور گوریوں پر مشتمل عملہ۔ میں نے خوش ہو کر کہا تھا،”بڑے ڈاکٹر بن گئے یو یار”۔ “بس ایسے ہی ہے، جنہوں نے جان مار کر پڑھا وہ پاکستان میں خوار ہو رہے ہیں اور میرے جیسے جنہوں نے ایسے سمجھو جیسے ڈاکٹری کے امتحان پرائیویٹ پاس کیے تھے ان کا تکہ لگ گیا”۔ پرائیویٹ بی اے، ایم اے کرنا تو سنا تھا مگر یہ ایم بی بی ایس پرائیویٹ کرنے کی بات سن کر میں بہت محظوظ ہوا تھا کیونکہ یہ پرائیویٹ کی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کی وضاحت جعفری نے یہ کہہ کر کی تھی کہ “چندا میرے ہم پڑھتے ہی کہاں تھے۔ کلاس کا منہ شاید ہی کبھی دیکھا کرتے تھے تو پرائیویٹ ہی ہوئی ناں چلو جزوی طور پر پرائیویٹ کہہ لو”۔ میں نے اس سے اپنے دل کی دھڑکنوں کے بے ترتیب ہونے کی شکایت کی تھی تو جعفری نے کہا تھا کہ کل تمہارا سارا چیک اپ ہو جائے گا، اگر چاہو گے تو میں تمہارے مقعد میں انگلی گھسیڑ کر تمہارا “پراسٹیٹ” بھی چیک کر دوں گا۔ “بکواس بند کرو” میں نے کہا تھا جس پر جعفری پہلی بار ویسے ہنسا تھا جیسے پچیس برس پہلے ہنسا کرتا تھا۔
شام کو ہم جعفری کے گھر پہنچے تھے۔ جعفری نے میو ہسپتال کی ایک نرس کے ساتھ عشق کر کے شادی کی تھی۔ اب ان کے دو بڑے بچے یعنی بیٹا اور بیٹی تھے اور ایک کوئی پانچ برس کا بیٹا۔ جعفری کوشش کرکے ہنستا تھا کیونکہ اب سنجیدگی اس کے ساتھ چمٹ کر رہ گئی تھی۔ شاید یہ اس کے پیشے کا تقاضا تھا یا کچھ اور جو اس نے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ جعفری کا بیٹا پاکستانی بچوں کی طرح فرمانبردار تھا مگر بیٹی پر امریکی معاشرت کا کچھ اثر تھا اس لیے تنک مزاج تھی۔
رات کو سونے کی خاطر مجھے جو کمرہ دیا گیا تھا، اس میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی جس سے استفادہ کرتے ہوئے میں خاصی دیر بعد سویا تھا۔ صبح جعفری نے آ کر جگایا تھا اور کہا تھا کہ تیار ہو جاؤ۔ ہم اکٹھے کلینک جائیں گے۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم گھر سے نکلے تھے۔ گاڑی کو سڑک پر ڈالنے کے بعد جعفری نے کہا تھا، “سب سے پہلے تو تمہاری چوٹی کٹوانی ہے، تمہارے بال بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں”۔ “کیوں بھئی؟ میں نے احتجاج کیا تھا مگر جعفری مصر تھا کہ نہیں اچھے نہیں لگ رہے اور مجھے ڈریسر کی دکان پر لے گیا تھا۔ دس منٹ بعد فارغ ہو کر ہم کلینک پہنچے تھے۔جعفری مریض دیکھنے میں مصروف ہو گیا تھا اور میں ایک اور کمرے میں بیٹھ کر رسالے وغیرہ دیکھتا رہا تھا۔ کچھ وقت گذرنے کے بعد ایک طویل قامت سیاہ فام قبول صورت خاتون اس کمرے میں داخل ہوئی تھی جس میں میں بیٹھا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کروایا تھا کہ وہ سونولجسٹ تھی اور ڈاکٹر جعفری کی ہدایت پر میری ایکو کارڈیو گرافی کرنا چاہتی تھی۔ میں اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اسے میرے وہ جوتے بہت پسند آئے تھے جو میں نے سینٹ پیٹرزبرگ کے زیر زمین ریلوے سٹیشن کے باہر راہداری میں واقع ایک کیوسک سے خریدے تھے۔ خاتون نے جوتوں کی کئی بار تعریف کی تھی۔ کارڈیوگرافی کرتے ہوئے وہ کاؤچ پر میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس خاتون کا جسم اس قدر گرم تھا جیسے اسے بخار چڑھا ہو مگر حقیقت میں اسے کوئی تپ نہیں تھا، تپ وصل ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے رپورٹ دی تھی کہ سب درست ہے۔
ایک رات مزید گذارنے کے بعد میں نے جعفری سے اجازت لی تھی۔ جعفری مجھے سٹیشن پر لے جا کر نیویارک کی گاڑی میں سوار کرا آیا تھا۔ جعفری ڈاکٹر سعید باجوہ اور ڈاکٹر منیر سلیمی کو نہیں جانتا تھا لیکن میرے استفسار پر اس نے مشورہ دیا تھا کہ گرے ہاؤنڈ بس پر سوار ہو کر پہلے اپنے دوست منیر سلیمی سے مل آو اور واپسی پر سعید باجوہ سے مل لینا، اس طرح تمہارا ٹور زیادہ سہل رہے گا۔
میں نیویارک سٹی سے واپنجرز فال واپس نہیں گیا تھا بلکہ نیویارک شہر میں ہی چوہدری اقبال کے ہاں اپنے دوست چوہدری صداقت کے ساتھ رہنے چلا گیا تھا۔ صبح کو میں گرے ہاؤںڈ کے اڈے پر پہنچا تھا۔ دن کے ساڑھے دس بجے تھے۔ جس بس کی مجھے ٹکٹ مل سکی تھی اسے بارہ بج کر دس منٹ پر روانہ ہونا تھا۔ میں وقت گذاری کی خاطر نیویارک سٹی کے مرکز میں بے مقصد گھومتا رہا تھا پھر بارہ بجے سے پہلے اڈے پر پہنچ کر بس میں سوار ہو گیا تھا۔
جہاں مجھے جانا تھا وہاں تک کا سفر آٹھ گھںٹے کا تھا۔ اولین نام کا یہ قصبہ کینیڈا کی سرحد سے کوئی پچیس میل ادھر واقع تھا۔ بس کا ڈرائیور سیاہ فام تھا اور بس کی عقبی نشستوں پر بہت سے طالبعلم لڑکے لڑکیاں بیٹھے شورو غل برپا کیے ہوئے تھے۔ ان میں ایک ہندوستان نژاد طالبہ نے تو جیسے کھلی جنسی گفتگو پر عبور حاصل کیا ہوا تھا۔ ایک سفید فام طالب علم نے اس پر تارک وطن ہونے کا فقرہ کسا تھا جس کے بعد اس لڑکی کا شکوے پر مبنی غل کانوں کے پردے پھاڑنے لگا تھا۔ بالآخر ڈرائیور کو مائیک پر طلباء سے آوازیں مدھم کرنے کو کہنا پڑا تھا کیونکہ باقی مسافروں کا سکون غارت ہو رہا تھا۔ بس راستے میں کہیں بھی نہیں رکی تھی ماسوائے اس تعلیمی درسگاہ کے دروازے پر جہاں طلباء اور طالبات سے باقی مسافروں کی جان چھوٹنی تھی۔ اندھیرا چھانے لگا تھا۔ جب متعلقہ شہر کے نزدیک پہنچے تو برفباری شروع ہو گئی تھی۔ مسافر ایک ایک کرکے شہر میں مختلف مقامات پر اترتے چلے گئے تھے۔ بس ایک پٹرول پمپ کے پاس جا کر رکی تھی۔ اس وقت اس بس میں میرے علاوہ ایک بوڑھی عورت اور دو بچے باقی بچے تھے وہ بھی اتر گئے تھے۔ ساتھ ہی ڈرائیور بھی اتر گیا تھا۔ میں نشست پر بیٹھا گھبرایا ہوا تھا کہ میں ہی بچ رہا تھا، بس نہ جانے کب منزل مقصود پر پہنچے گی۔ اتنے میں مسافروں کے راستے کی جانب سے ڈرائیور بس میں چڑھا تھا اور اپنی گمبھیر آواز میں گویا ہوا تھا، “سر گیٹ ڈاؤن پلیز، دس از دی لاسٹ سٹاپ”۔ میں ہکا بکا ہو کر باہر نکل آیا تھا۔ تب تک بڑھیا اور دو بچے بھی جا چکے تھے۔ ڈرائیور بھی سامنے کے کیبن میں جا گھسا تھا۔ شکر ہے کہ فون بوتھ موجود تھا اور میں نے از راہ احتیاط سکے بھی رکھے ہوئے تھے۔ ایک سکہ ڈالنے کے بعد منیر سلیمی کے گھر کا فون ملا تھا، کسی مرد نے ہیلو کہا تھا اور کال ڈراپ ہو گئی تھی۔ دوسری کال پر اس جانب سے بولنے والے نے کہا تھا،”ڈاکٹر صاحب تو ہسپتال گئے ہوئے ہیں۔ میں ان کا بھائی ہوں۔ پریشان مت ہوں، کچھ کرتے ہیں۔ آپ انتظار کریں”۔
اگرچہ میں نے اوور کوٹ پہنا ہوا تھا لیکن برف باری کے بعد اس علاقے کی سردی سے خود کو نہیں بچا پا رہا تھا۔ ٹوپی نہیں تھی۔ عجیب شہر تھا جیسے جن پھر گیا ہو۔ اگرچہ رات کے آٹھ سے کچھ زیادہ وقت ہوا تھا۔ اردگرد کوئی کیفے پب وغیرہ کھلا دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ پناہ لی جا سکتی۔ کوئی بیس منٹ گذرنے کے بعد ایک گاڑی جسے ایک خاتون چلا رہی تھی میرے نزدیک آ کر رکی تھی۔ اس کے عقبی دروازے سے ایک گنجا ہوتا ہوا مرد نکلا تھا جو ڈاکٹر منیر سلیمی کا چھوٹا بھائی تھا۔ تعارف ہوتے ہی میں لپک کر گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔ گاڑی خاصی گرم تھی، مجھے سکون مل گیا تھا۔ گاڑی منیر سلیمی کی اہلیہ چلا کر لائی تھیں۔ ان کے دیور نے بتایا تھا کہ “بھابی گاڑی کم ہی چلاتی ہیں۔ اس جگہ کا انہیں علم نہیں تھا پھر موسم بھی خراب تھا، سڑک پر پھسلن بہت زیادہ ہے چنانچہ مجھے ان کا ساتھ دینا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر تھے۔ بچوں کو ہم اکیلا چھوڑ کر آئے ہیں”۔ مجھے شرمندگی ہوئی تھی اور میں نے معذرت کی تھی جس پر بیگم منیر سلیمی نے کہا تھا،”معذرت کس بات کی بھائی، آپ مہمان ہیں، ایسا ہو جایا کرتا ہے”۔ ابھی ڈاکٹر منیر سلیمی کے گھر میں داخل ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ وہ خود تشریف لے آئے تھے۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملے تھے اور گلہ کیا تھا،”یار تم نے کہا تھا کہ کل پہنچو گے لیکن آنے کی ٹائمنگ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔ مجھے کیا پتہ تھا اس لیے ہسپتال کی کال پر چلا گیا۔ تمہاری آمد کا علم ہوتا تو کال ڈائیورٹ کرا دیتا، آئی ایم سوری یار”۔ مجھے یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے ہم نظریہ دوست نذیر چوہدری کے ہاں گیا تھا، اس کا سلوک کیا تھا جبکہ ڈاکٹر منیر سلیمی باقاعدہ جمیعت میں ہوا کرتا تھا یعنی نظریاتی طور پر میرا شدید مخالف البتہ تھا میرا دوست۔ ڈاکٹر نے اپنے چھوٹے بھائی سے کھانا لگوانے کو کہا تھا۔ میں سگریٹ پینا چاہتا تھا اس لیے سگریٹ منہ میں اڑس کی پورچ میں نکلنے کی خاطر دروازے کی جانب بڑھا تھا جس پر ڈاکٹر منیر نے کہا تھا، “یار مجھے سگریٹ سے نفرت ہے” پھر ہنستے ہوئے کہا تھا ” لیکن سگریٹ کے دھوئیں کی بو اتنی بری نہیں لگتی۔ باہر سردی ہے، یہیں بیٹھ کر پی لو”۔ جب کھانے بیٹھے تو ڈاکٹر منیر نے مجھ سے کہا تھا،”اب آئے ہو تو ایک ہفتے سے پہلے جانے کا نام نہ لینا”۔ ” اور ایک ہفتے کے بعد ۔ ۔ ۔” میں نے ہنس کر پوچھا تھا۔ “بھائی مثال کے طور پر کہہ رہا تھا یعنی کم سے کم، ویسے تمہارا جتنا جی چاپے رہو، تمہارا اپنا گھر ہے”۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply